جاتے ہی ان کے کچھ نہ رہا زندگی کے پاس ، شہرت بخاری نے جدید غزل کو نئے معانی دیئے
جدید غزل کی بات کی جائے تو اس حوالے سے ہمیں 2 اوصاف ذہن میں رکھنا چاہئیں۔ ایک جدید طرز احساس اور دوسرا ندرت خیال۔ ان دونوں اصاف کو معروضی صداقتوں سے ہم آہنگ کرنا ہی جدید غزل کی شناخت ہے۔ 60ء کی دہائی میں جو غزل سامنے آئی وہ انہیں اوصاف کی حامل تھی۔ جن شعراء نے جدید غزل گو کی حیثیت سے نام کمایا، ان میں جاوید شاہین ،سلیم شاہد، صابر ظفر، سلیم کوثر، ریاض مجید، قتیل شفائی ، اطہر نفیس، خالد احمد، اقبال ساجد اور ایسے کئی اور نام لئے جا سکتے ہیں۔ محترم ظفر اقبال کا مقام و مرتبہ تو ان سب سے الگ ہے انہوں نے ا ردو غزل میں جو تجربے کئے ان کے بارے میں تو پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
جدید طرز احساس اور قوت متخیلہ سے مزین شاعری ہمیں ایک اور شاعر میں بھی بدرجہ اتم ملتی ہے جن کا نام ہے شہرت بخاری۔ دسمبر 1925ء کو لاہور میں پیدا ہونے والے شہرت بخاری کا اصل نام سید محمد انور بخاری تھا، وہ شہرت بخاری کے نام سے جانے جاتے تھے جبکہ شہرت ان کا تخلص تھا۔ شروع میں ان کا تخلص نرگس تھا، شاعری میں ان کی رہنمائی احسان دانش نے کی۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں ایم اے کیاکچھ عرصہ تک مجلس زبان دفتر میں کام کیا اس کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لاہور کے ایک کالج میں شعبۂ اردو ادب اور فارسی کے سربراہ رہے۔ ان کے شعری کلیات میں'' طاق ابرو، دیوار گریہ اور کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ شامل ہیں۔ وہ ایک سیاسی جماعت سے بھی وابستہ رہے اور جنرل ضیاء الحق کے دور میں جلاوطن بھی ہوئے۔
شہرت بخاری کمال کے غزل گو تھے، وہ بہت جدت پسند تھے اور بات سے بات نکالنے کا ڈھنگ جانتے تھے لیکن انہوں نے غزل کی کلاسیکی روایت کو مکمل طور پر رد نہیں کیا۔ زبان کے حوالے سے ان کی کئی غزلیں کلاسیکل شعراء کی یاد دلاتی ہیں چونکہ وہ اردو ادب کے استاد تھے اس لئے اردو غزل پر ان کی گہری نظر تھی کسی حد تک یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کی غزل جدید طرز احساس کے ساتھ کلاسیکل روایت کو بھی ساتھ لے کر چلتی ہے۔ یہ شعر ملاحظہ کریں
وہ آئیں تو حیران، وہ جائیں تو پریشان
یا رب کوئی سمجھائے یہ کیا ہو گیا دل کو
رومانوی لہجے کی بات کی جائے تو اس میں بھی ان کا انوکھا پن سامنے آتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار دیکھیں
یہ کس عذاب میں چھوڑا ہے تو نے اس دل کو
سکون یاد میں تیری نابھولنے میں قرار
کچھ ایسا دھواں ہے کہ گھٹی جاتی ہیں سانسیں
اس رات کے بعد آئے گی شاید نہ کبھی یاد
ہم سفر ہو تو کوئی اپنا سا
چاند کے ساتھ چلو گے کب تک
ہاں اے غم عشق مجھ کو پہچان
دل بن کے دھڑک رہا ہوں کب سے
شہرت بخاری اپنے دور کے مقبول شاعر تھے وہ مشاعرے، پڑھتے اور خوب داد سمیٹتے ۔بے خوف اور جرأت مند شخص تھے اور ببانگ دہل کہتے تھے کہ کوئی مجھے صداقت کے بے محایا اظہار سے نہیں روک سکتا۔ ان کی ایک سیاسی جماعت سے گہری وابستگی رہی اور اس اٹل وابستگی کی وجہ سے انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے بہت مصائب برداشت کئے لیکن شہرت صاحب کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
شہرت بخاری کی اردو زبان سے محبت بے پایاں تھی وہ اردو کے خلاف کوئی بات نہ سن سکتے تھے، 90ء کی دہائی میں ان کی مرحوم احمد بشیر سے اس مسئلے پر خاصی تلخ کلامی ہوئی اور کچھ عرصے تک دونوں کے تعلقات کشیدہ رہے۔
شہرت بخاری ترقی پسندوں کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان سے بعض اوقات ترقی پسند ادب اور اس کے مقاصد پر سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔ وہ ایک قابل استاد کی طرح نوجوان ادیبوں اور شاعروں کو سمجھاتے تھے کہ جدید شاعری کا مطلب یہ نہیں کہ شاعری کو کسی خاص نظرئیے کی الماری میں بند کر دیا جائے۔ شاعری کا کینوس وسیع ہونا چاہیے اور شعریت کو بہر صورت قائم رہنا چاہئے۔ لیکن اگر معروصی صداقتوں اور سیاسی اور معاشی عوامل کو ارفع انداز میں شعری زبان دی جائے تو لازمی بات ہے کہ ایک خوبصورت شعر وجو دمیں آئے گا۔ شہرت کی شاعری پڑھ کر کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ رومانوی شاعری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن اس با ت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ شاعر کی سوچ کے زاوئیے بدلتے رہتے ہیں۔ انیس ناگی مرحوم نے کہا تھا کہ اگر کوئی شاعر دانستہ طور پر معروضی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔ شاعر کے فکر کی آتش جب بھڑکتی ہے تو بعض اوقات اس کا جی چاہتا ہے کہ اس آتش میں وہ پوری دنیا کو بھسم کر دے۔
شہرت بخاری اکثر کہا کرتے تھے کہ سچ بولنا آسان کام ہے لیکن سچ بول کر اس پر ڈٹے رہنا اصل بہادری ہے ان کا کہنا تھا کہ شاعر جری ہو، راست گو ہو اور صداقت کی آبرو کے لئے اگر اسے سقراط کی طرح زہر بھی پینا پڑے تو اس سے دریغ نہ کرے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا بھی ملال تھا کہ آج کے دور میں لوگوں سے زہر نہیں پیا جاتا۔ اسی حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
زہر لوگوں سے پیا جاتا نہیں اس دور میں
اب یہاں سقراط کی ہر روز پیدائش بھی ہو
اب ہم شہرت بخاری کی شاعری کا ایک اور وصف بیان کرتے ہیں اور وہ ہے ان کی حیات افروز رجائیت پسندی، وہ مایوسی کے گھنائونے اندھیروں میں امید کے چراغ جلاتے ہیں۔ پاسیت (Pessimism) وقتی طور پر طاری ہوتی ہے لیکن وہ آس کا سورج ڈوبنے نہیں دیتے۔ شہرت صاحب نے ناصر کاظمی، عبدالحمید عدم، ساغر صدیقی کی طرح چھوٹی بحر میں بھی خوبصورت اشعار کہے۔ اس لحاظ سے ان کی اس شاعری کو سہیل ممتنع کی شاعری بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضرور ی ہے کہ چھوٹی بحر میں کہے گئے ہر شعر کو آپ سہل ممتنع کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ سہیل ممتنع کی شاعری معنی کے کئی جہان کھول دیتی ہے۔ بہرکیف شہرت کی چھوٹی بحر کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کریں
بت بنے راہ تکو گے کب تک
آس کی آنچ سہو گے کب تک
جس نے اپنی بھی خبر نہ لی کبھی
تم اسے یاد کرو گے کب تک
بنا جانے کسی کے ہو گئے ہم
غبار کارواں میں کھو گئے ہم
رگوں میں برف سی جمنے لگی ہے
سنبھالو اپنی یادوں کو گئے ہم
دیوار امید گر رہی ہے
تصویر تری کہاں لگائوں
ہرچند گھٹائیں چھٹ گئی ہیں
ہر دل پہ غبار ہے اب تک
اور اِن اشعار کی دلکشی اپنی جگہ ہے
کوٹھے اجاڑ، کھڑکیاں چپ، راستے اداس
جاتے ہی ان کے کچھ نہ رہا زندگی کے پاس
دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا
کام اس سے پڑا جس کو چھوڑا بھی نہیں جاتا
ایک آنسو میں ہوئے غرق دو عالم کے ستم
یہ سمندر تو ترے غم سے بھی گہرا نکلا
11 اکتوبر 2001ء کو شہرت بخاری کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔