حکایت مولانا رومیؒ خزانے کا خواب
ایک دفعہ ایک آدمی کا امیر رشتے دار فوت ہو گیا تو مرنے کے بعد اس کی تمام دولت اور جائیداد غریب رشتے دار کو مل گئی۔ اتنی ساری دولت غیر متوقع طور پر اسے ملی تھی، اس سے قبل اس نے اتنی دولت کبھی دیکھی بھی نہ تھی۔بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اتنی ساری دولت کا ملنا اس کے خیال و خواب میں بھی نہ تھا۔ اور چونکہ یہ دولت اسے میراث میں ملی تھی اس لئے اس کی قدر بھی نہ تھی۔اس نے بہت سے فضول کاموں اور عیاشی میں تمام کی تمام دولت خرچ کر دی۔ کچھ ہی عرصے بعد بالکل خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ گیا۔ تب اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ '' اے میرے رب! تو نے جو کچھ مجھے عطا کیا تھا وہ سب کا سب ختم ہو گیا۔ اب یا تو مجھے زندگی گزارنے کے لئے سامان عطا کر یا پھر فرشتہ اجل بھیج کر مجھے اس مصیبت سے نجات دلا ‘‘۔
دعا کے ساتھ اس نے خوب گریہ زاری کی۔ اصل میں اسے ایسے مال کی خواہش تھی جو بغیر محنت کے مل جائے۔ اور چونکہ اللہ تعالیٰ سے کوئی مانگنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا، لہٰذا اس کی بھی سنی گئی۔ رات کو سوتے میں خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا ہے کہ'اے خوش بخت !یہاں پر تم کیا کر رہے ہو؟ اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی ہے۔ جائو، مصر میں ایک خزانہ تمہاراانتظار کر رہا ہے۔ فلاں بستی کے فلاں مکان میں خزانہ دفن ہے۔تم فوراََ وہاں پہنچو‘‘۔
یہ خواب دیکھ کر اس غریب آدمی کی جان میں جان آئی۔ بڑی ہمت باندھی اور مشکلیں برداشت کرتا ہوا مصرپہنچا۔ وہاں پہنچتے ہی خالی ہاتھ ہو گیا۔ جو کچھ پاس تھا وہ بھی راستے میں خرچ ہو گیا۔بھوک بھی شدید لگی تھی لیکن ایک پیسہ بھی پاس نہ تھا۔جب بھوک برداشت سے باہر ہو گئی تو بھیک مانگنے کا سوچنے لگا۔ شرم تو اسے بہت آئی مگر بھوک نے اس قدر بد حواس کر ڈالاتھا کہ وہ بے بس ہو گیا ۔ یہی سوچتے ہوئے باہر نکلا۔ ہچکچاتے ہوئے پھرنے لگا مگر ہاتھ پھیلانے کی ہمت نہ ہوئی۔
اس زمانے میں شہری چوروں سے بہت تنگ تھے۔ رات کے اندھیرے میں چوریاں بڑھ جاتی تھیں اس لئے رات کے وقت کوتوال بھی سپاہیوں کے ساتھ گشت کیا کرتا تھا۔ بادشاہ وقت کا حکم تھا کہ کسی بھی مشکوک آدمی کو دیکھو تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالو۔ خوف سے ہی چوریاں بند ہوں گی۔خواہ وہ کوئی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ بے شمار شکایات ملنے کے بعد کوتوال کو حکم دیا گیا تھاکہ اگر وہ ناکام رہا تو اسے بھی کٹہرے میں لایا جائے گا۔ کوتوال نے شہر کے گلی کوچوں میں گشت کرنے والے سپاہیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ چور یہ دیکھ کر ڈر گئے اور انہیں باہر نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔
یہ آدمی جو بغداد سے مصر آیا تھا، ان سب حالات سے بے خبر تھااسی لئے بھوک سے بے بس ہو کر رات کے اندھیرے میں نکل پڑا تھا۔اسے دیکھتے ہی کوتوال نے پکڑ لیا۔ خوب مار پیٹ کے بعد پوچھا کہ
''تم کون ہو ، کہاں سے آئے ہو، اور اس وقت شہر میں کیوں پھر رہے ہو؟‘‘
اس شخص نے روتے ہوئے جواب دیا ،' ' مجھے مت مارو! میں تمام صورتحال سے تمہیں آگاہ کرتا ہوں‘‘۔ کوتوال نے غصے سے کہا ''لگتا ہے ،تم اس شہر کے نہیں ہو ،کسی اور علاقے کے بدمعاش ہو۔ جلدی سے سچ سچ اگل دو ورنہ ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘ ۔
اس شخص نے قسمیں کھاتے ہوئے کہا، '' میں ڈاکو یا چور نہیں ہوں، میں تو ایک مسافر ہوں ، بغداد میں میرا گھر ہے‘‘۔ یہ کہنے کے بعد اس نے خواب اورخزانے کی پوری بات کوتوال کو بتا دی۔
کوتوال حیران ہو کر بولا'' ارے بیوقوف!چل میں مان لیتا ہوں کہ تو چور نہیں ہے، مگر تو صرف ایک خواب پر اپنے لالچ کے باعث بغداد سے مصر چلا آیا۔اب میری بات سن! تجھے بغداد میں رہ کر مصر کا خزانہ دکھائی دیا اور میں نے مصر میں رہ کر بغداد کے فلاں محل اور فلاں مکان میں خزانہ دیکھا۔ لیکن میں نے آج تک مصر سے نکلنے کی ہمت نہ کی۔ میرا دل مجھے کہتا ہے کہ مجھے کس چیز کی کمی ہے۔میرا خزانہ تو یہاں میرے گھر میں ہے اور میں اپنے اسی خزانے پر آرام سے بیٹھا ہوا ہوں‘‘۔
اس آدمی نے کوتوال کی باتیں سنیں تو خوشی سے پاگل ہو گیا۔سارا دکھ جاتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس قدر مار کھانے کے بعد نعمت کا ملنا لازم تھا، خزانہ تو گھر میں ہی دفن ہے ۔کوتوال نے اپنے خواب میں جس مکان اور جگہ کا ذکر کیا تھا وہ اسی کامکان تھا۔ وہ کوتوال کا شکر ادا کرنے لگا کہ اس کی وجہ سے دولت ہاتھ آئی ۔اس کے بعد وہ شخص اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتا ہوا مصر سے واپس بغداد روانہ ہو گیا۔
درس حیات: لالچ بری بلا ہے۔محنت میں ہی عظمت اور بقاء ہے۔