’’قلوپطرہ‘‘ نام کی سات ملکائیں ، جلا وطن قلو پطرہ کی جنگی مہم جوئی پر نئی تحقیق
''قلوپطرہ‘‘ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس کے بارے میں لوگوں کی اکثریت بس اتنا جانتی ہے کہ وہ مصر کی ایک حسین و جمیل ملکہ تھی ۔ حقیقت اس سے یکسر مختلف ہے ۔قدیم مصر ی تاریخ میں قلوپطرہ نام کی سات ملکائیں ہو گزری ہیں ۔ سب سے زیادہ شہرت قلوپطرہ ہفتم کے حصے میں آئی ۔بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ قلوپطرہ کا نام آنے سے مراد یہی قلوپطرہ ہفتم ہوتی ہے ، بے پناہ شہرت کے باعث اسے فقط قلوپطرہ ہی کہا جاتا ہے ۔ شہرت کی نمایاں وجہ اس کا بے پناہ حسن اور شخصیت تھی۔اس کی موت کے بارے میں مشہور تھا کہ سانپ کے کاٹے سے ہوئی تھی لیکن جرمنی کے ایک مشہور تاریخ دان پروفیسر کرسٹو فر شیفر نے اس مفروضے کو رد کر دیا ہے کہ قلوپطرہ کی موت کوبرا سانپ کے کاٹنے سے ہوئی تھی ۔وہ کہتے ہیں کہ اس نے خود کشی کی غرض سے ایک محلول پی لیا تھا۔
وہ 69قبل مسیح میں مصر کے ایک حکمران بطلیموس دوازدہم کے ہاں پیدا ہوئی۔ 51 قبل مسیح میں جب والد کا انتقال ہوا تو 18 سالہ قلوپطرہ سب سے بڑی اولاد تھی۔ اسکے بعد بیٹی آرھینو ، بڑا بیٹا بطلیموس چہار دہم اور سب سے چھوٹا بیٹا بطلیموس پانز دہم تھے ۔ اصولی طور پر اقتدار قلوپطرہ کے پاس آنا چاہئے تھا مگر اس زمانے میں عورت کی تخت نشینی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا ،اس لئے طے یہ پایا کہ اسے بڑے بھائی کے ساتھ مشترکہ طور پر شریک اقتدار کر دیا جائے۔ تاریخ میں اس کی تصدیق ملتی ہے کہ وہ اور اس کا بھائی مشترکہ طور پر تخت کے وارث تھے، لیکن جلد ہی قصر شاہی دو دھڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ قلوپطرہ کا حامی دھڑا کمزور نکلا جس کے سبب اسے جلا وطن ہوناپڑالیکن تھوڑے ہی عرصے بعد قلوپطرہ شام سے ایک فوج لیکر مصر میں داخل ہو گئی۔
انہی دنوں روم میں شہنشاہ پومپئی اور اس کے حریف جولئیس سیزر میں اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو چکی تھی۔پومپئی شکست کے بعد مصر میں پناہ کی تلاش میں داخل ہوا لیکن جولیئس سیزر کے حامیوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔ مصر میں پومپئی ملکہ قلوپطرہ کے دام حسن میں گرفتار ہو گیا۔ اس طرح سیزر اور قلوپطرہ نے ملکر اپنے ''دشمنوں‘‘ کا صفایا کر دیا جن میں قلوپطرہ کا چھوٹا بھائی اور چھوٹی بہن بھی شامل تھے ۔ جبکہ سیزر کی عدم موجودگی میں اس کا قابل اعتماد نائب انتھونی روم کے معاملات کی نگرانی کرتا رہا۔اب سیزر اور ملکہ قلو پطرہ دشمنوں کے خوف سے بے نیاز آزاد زندگی گزارنے لگے ۔اسی دوران قلو پطرہ کے بطن سے سیزر کا ایک بیٹا سیزارین پیدا ہوا۔ بیٹے کی پیدائش کے فوراََبعد سیزر کو واپس روم جانا پڑا۔ اس کے بعد سیزر کی فتوحات کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
جشن فتوحات کے موقع پر قلوپطرہ بھی روم کی ملکہ بننے کا خواب دیکھتے دیکھتے روم آن پہنچی لیکن پومپئی کے حامیوں نے پھر سر اٹھا لیا اور سیزر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اب قلوپطرہ نے اپنے بیٹے سیزارین کو تخت پر بٹھانے کے خواب دیکھنے شروع کر دئیے جو ظاہر ہے انتھونی کے تعاون کے بغیر ناممکن تھے ۔لہٰذا اس نے انتھونی کو اپنے جال میں پھنسا لیا۔ انتھونی نے اسے مصر واپس لوٹ جانے اور مناسب وقت کے انتظار کا مشورہ دیا ۔
حالات پر انتھونی کی گرفت دن بدن کمزور ہوتی چلی گئی ، آکٹوین پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے روم پر قبضہ کر کے انتھونی کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا اور یوں انتھونی بھی قلوپطرہ کے پاس مصر پہنچ گیا۔دونوں میں شادی ہو گئی۔ 40 قبل مسیح میں انتھونی واپس روم آ گیا۔ واپسی کے چھ ماہ بعد قلوپطرہ اس کے دو جڑواں بچوں کی ماں بن گئی۔
انتھونی نے شام میں قدم جمانے کی کوششیں کی لیکن اسے مسلسل ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا ۔چنانچہ یہ مرتا کیا نہ کرتا مصر واپس آ گیا ۔آکٹوین نے مصر پر چڑھائی کر کے انتھونی کا قصہ ہمیشہ کے لئے صاف کر دیا
اور قلوپطرہ کو پس دیوار زنداں کر دیا ۔ اسے اپنا مستقبل تاریک اور زندگی خطرے میں نظر آنے لگ گئی۔وہ جان چکی تھی کہ اگر وہ زندہ رہ گئی تو آکٹوین اسے اور اس کے بچوں کو مصر کی شاہراہوں پر ذلیل کرے گا۔
قلوپطرہ نے آکٹو ین سے انتھونی کی قبر پر جانے کی اجازت مانگی ۔انتھونی کی قبر پر پھول چڑھائے اور واپس آ کر صوفے پر لیٹ گئی ۔شام کو محل میں ہنگامہ بپا ہو گیا ۔پہرہ داروں نے بتایا کہ آج صبح ایک دہقان انجیر کی ایک ٹوکری لے کر آیا تھا ۔معلوم ہوا کہ دراصل یہ سانپوں کا ٹوکرا تھا جو ملکہ نے خود منگوایا تھا ۔ملکہ قلوپطرہ نے سانپ نکالااور اپنے جسم پر ڈسنے کے لئے چھوڑ دیا ۔تاریخ کی کتابیں بتاتی ہیں کہ زہرنے فوری اثر کیا ، دیکھتے ہی دیکھتے سابق ملکہ نے اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں ختم کر ڈالی۔
یہ وہ حقائق ہیں جو قلوپطرہ کی موت بارے تاریخ کی کتابوں میں بیان کئے گئے ہیں جنہیں جرمنی کی ''یونیورسٹی آف ٹرائیر‘‘ کے پروفیسر ہسٹری کرسٹو فر شیفر نے یکسر جھٹلا دیا ہے ۔ ایک سائنسی پروگرام میں پروفیسر شیفر کہتے ہیں کہ ''قلوپطرہ کی موت واقعی کوبرا سانپ کے ڈسنے سے واقع ہوئی تھی یا نہیں،اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لئے کہ میں متعدد تاریخ دانوں کے ساتھ اسکندریہ گیا تھا۔ جہاں قدیم طبی علوم اور سانپوں کے ماہرین سے معلومات حاصل کیں ، ہم سب متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قلوپطرہ کی موت سانپ کے کاٹنے سے ہرگز نہیں ہوئی بلکہ کوئی زہریلی چیز کھانے سے ہوئی تھی۔ اس نے ممکنہ طور پر افیون، صنوبر اور ایک زہریلے پودے تاج الملوک کا محلول پیا ہو گا۔ جس سے فی الفور موت واقع ہو جاتی ہے ۔اس علاقے میں اس ''دوا‘‘ کا استعمال عام تھا ۔
بہر حال حقائق کچھ بھی ہوں یہ بات تو طے ہے کہ قلوپطرہ نے اپنی 39سالہ مختصرزندگی میں تاریخ میں نام کمایا ، سب سے بڑھ کر یہ کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی وہ سلیبرٹی کی حیثیت سے زندہ ہے ،یہ اہمیت تاریخ میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔