اڑھائی کروڑ افراد کا مستقبل
کچھ دنوں سے زراعت پر طبع آزمائی کررہا تھا ملک میں دیگر شعبوں کی طرح یہ شعبہ بھی تنزلی کا شکار نظر آیا۔ دوران مطالعہ زراعت کے کچھ اعدادو شمار نظر سے گزرے تو ششدر رہ گیا کہ زراعت تو ہماری ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے مگر اب حالت نزع میں ہے۔ نزع کا لفظ گو کہ نامناسب بھی ہے اور خطرے کی علامت بھی مگر جب کپاس کے شعبے کی کارکردگی پر نظر پڑی تو حقیقتاً حالت نزع ہی تھی۔ ہماری برآمدات میں کپاس کابہت بڑا حصہ ہے اور یہ پڑھ کر تو تشویش اور بڑھ گئی کہ اڑھائی کروڑ سے زائد آبادی کسی نہ کسی شکل میں اس شعبے سے منسلک ہے جس کا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ ناقص حکمت عملی نے کاشکاروں کو دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے خصوصاً کپاس کے کاشتکار سخت مشکل کا شکار ہیں اور وہ کپاس کے بدلے چاول، گندم اور مکئی کی کاشتکاری کو اولیت دے رہے ہیں۔ ہماری معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ اس شعبے کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ یہ شعبہ ملکی آبادی کے 80 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔صنعت کیلئے خام مال فراہم کرتا ہے اورہماری غیر ملکی تجارت کی بنیاد ہے۔تجارتی سامان کی برآمدات سے حاصل ہونیوالا زرمبادلہ ملک کی مجموعی برآمدات کا 45 فیصد ہے۔67.5 فیصد افراد دیہی علاقوں میں رہ رہے ہیں جو کہ اس میں براہ راست شامل ہیں۔وطن عزیز میں فصلوں کے دو اہم سیزن ہیں یعنی ربیع اور خریف، اہم اور نقدفصلیں گندم، چاول مکئی، کپاس ہیں جس میں کپاس سرفہرست ہے۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 2020-21ء میں کپاس کی پیداوار 34.35 فیصد کی کمی سے 5.571 ملین بیلزپر آ گئی ۔ گذشتہ سال ملک میں کی پیداوار 8.487 ملین بیلز تھی۔2.9 ملین گانٹھوں کی کمی ٹیکسٹائل انڈسٹری کیلئے ایک تشویشناک صورتحال تھی جو کہ برآمدی شعبوں میں سے ایک بڑا شعبہ ہے اور ملک کی مجموعی سالانہ برآمدی آمدنی کا 60 فیصد ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے کئی برسوں سے نقد کی بڑی فصل کے بارے میں غفلت برتی جارہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گذشتہ 30 سال میں کپاس کی سب سے کم پیداوار ریکارڈ کی گئی ۔ اگر ریگولیٹر کے طور پر کام کرنیوالی حکومت حرکت میں نہ آئی تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔بیج سے متعلق مسائل، مناسب قیمتوں کے فقدان اور بڑھتی ہوئی لاگت اور ناقص کیڑے مار ادویات کے استعمال کی وجہ سے کپاس کی نمو میں کمی کا معاملہ جلد ہی حل ہوتا نظر نہیں آرہا۔موجودہ حکومت نے کپاس کے کاشتکاروں کو سبسڈی والا بیج دینے کا فیصلہ کیا ہے۔اس کا یہ بھی ارادہ ہے کہ کسانوں کو دوسری فصلوں کی طرف متوجہ ہونے سے روکنے کیلئے مراعات دی جائیں۔لیکن ہائبرڈ ہائی پیداوار کے بیج، کیڑوں پر قابو پانے کے بہتر طریقے اور کسانوں کو بہتر سپورٹ پرائس دینے کی تجویز کردہ مراعات اور پالیسیاں ہماری پیداوار بڑھانے کیلئے کافی ثابت نہیں ہوں گی۔حکومت کو کسانوں کو کریڈٹ کی سہولیات بھی فراہم کرنی چاہئے کپاس جنوبی پنجاب ریجن کی بڑی فصل رہی ہے۔لیکن جنوبی پنجاب کے اضلاع میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران کپاس کی پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے۔پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے اپنی جاری کردہ 15روزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ سال کے اسی عرصے میں پیدا ہونیوالی 8.487 ملین بیلز کے مقابلے میں ملکی کپاس کی پیداوار 31 جنوری تک 34.35 فیصد کمی کے ساتھ 5.571 ملین بیلز تک پہنچ گئی۔کاٹن ایکسپرٹ کہتے ہیں کہ 30 سال کے دوران کپاس کی یہ سب سے کم پیداوار ہے جو ٹیکسٹائل سیکٹر کے ساتھ ساتھ برآمدات کیلئے بھی تشویشناک ہے۔