4 ہزار سال پرانی ’’ تختی ‘‘
انسان نے کب لکھنا سیکھا ،سب سے پہلے کیا لکھا؟ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے کہنا مشکل ہے ۔ کہا جاتا تھا کہ میسو پوٹیمیا کے جنوب میں ناپید ہونے والی قدیم ترین ''سمرائی تہذیب‘‘ (Sumer Civilization)نے 3200قبل مسیح میں ''لکھنا‘‘ سیکھ لیا تھا۔ماہرین کا یہ بھی مانناتھا کہ اصل لکھائی اسی تہذیب کے لوگوں کی ایجاد ہے۔''مونوجینسس‘‘ (monogenesis) تھیوری سے بھی یہی ثابت ہوتا تھاکہ یہیں سے''لکھائی‘‘ دوسری تہذیبوں میں منتقل ہوئی۔پھر بعد میں مشرق وسطیٰ سے کوسوں دور ''میسو امریکن‘‘ لکھائی کی دریافت کے بعد نظریہ بدل گیا۔اب ماہرین نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہر تہذیب میں زبان و تحریر کا عمل الگ الگ پروان چڑھا۔ہر تہذیب میں علامات یعنی ''رسم الخط‘‘ منفرد اور اس خطے کی مجموعی سوچ کا عکاس تھا ۔ تاہم ،ہم جسے رسم الخط کہتے ہیں ،جن میں با معنی الفاظ ہوں اور دوسرے لوگ بھی سمجھ سکیں ، یہ بہت بعد کے دور کی بات ہے ۔انسان کئی ''تحریروں‘‘کے معنی اب تک سمجھ سکا۔
اب کہا جا رہا ہے کہ '' رسم الخط ‘‘ چار تہذیبوں میں ایک تدریجی عمل کے ذریعے پروان چڑھے۔ میسوپوٹیمیا میں 3400 تا3100قبل مسیح، مصر میں 3250قبل مسیح کے لگ بھگ ،چین میں1200قبل مسیح کے لگ بھگ اور جنوبی میکسیکو اور گوئٹے مالا میں 500قبل مسیح میں الگ الگ رسم الخط پروان چڑھے۔جہاں تک میسو پوٹیمیا اور مصر سے ملنے والے تاریخی آثار کا تعلق ہے ، تو دونوں میں کئی بنیادی فرق پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح چین سے ملنے والے نمونے الگ پہچان رکھتے ہیں۔یہ مشرق قریب یا دوسرے ممالک سے ملنے والے نمونوں سے کوئی مماثلت نہیں رکھتے ۔تاہم وادی سندھ کی تہذیب اور'' مشرقی جزیرہ‘‘ میں ملنے والے '' رنگو رنگو رسم الخط ‘‘ (Rongorongo script ) 5500ہزار برس قبل مسیح کے بھی ہیں۔دنیاانہیں سمجھنے سے قاصر ہے۔
400قبل مسیح کے انسانوں نے ''سیکسا جیسیمل سسٹم ‘‘ (60، 600، 3600) وغیرہ کو سمجھنا سیکھ لیا تھا۔ اس ضمن میں سمرائی تہذیب کی ''کش تختی ‘‘(Kish tablet) بھی اہمیت کی حامل ہے۔اس میں ''رسم الخط‘‘ کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں یعنی الفاظ کے معنی سمجھے جا سکتے تھے۔اس تہذیب کے باشندے لائیو سٹاک اور زرعی مصنوعات کا ریکارڈ رکھنے کے لئے مٹی کے پتھر استعمال کیا کرتے تھے۔بعد ازاں اس کی جگہ ہموار تختی نے لے لی۔3500قبل مسیح کی ایک نادر تختی ''ایشمولیان ‘‘ (Ashmolean) نامی عجائب گھر میں محفوظ ہے۔
حال ہی میں چار ہزار 65برس پرانی ایک تختی ملی ہے۔اس کا زمانہ 2044قبل مسیح کا ہے، ہاتھ کی ہتھیلی کے برابر اس تختی میں ریکارڈ بھی رکھا جاتا تھا اور''امتحانات‘‘ بھی لئے جاتے تھے۔یہ شائد بڑی تعداد میں بنائی جاتی تھیں۔اور انہیں ایک دن یا چند گھنٹوں کے بعد ضائع کر دیا جاتا تھا۔ ایک تختی ایسی بھی ملی ہے جس پر گہرے سرخی مائل رنگ کے چند نشانات لگائے گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تختی غالباََکسی طالب علم کی ہے جس پر ''استاد‘‘ نے چیک کرنے کے بعداغلاط کو دوسرے رنگ میں ظاہر کیاتھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے لوگ نئی نسل کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں کتنی دلچسپی رکھتے تھے۔ قدیم عراق میں ''انتظامی افسروں ‘‘ کی تختیاں بھی ملی ہیں جن پر کچھ حسابات درج ہیں یا مہریں (دیوتائوں کی اشکال )بنی ہوئی ہیں۔