غربت ایک چڑیل ہے اپنی بستی میں
ہمارے آبائی گاؤں سکھوچک کے پاس سے ''بئیں ندی‘‘ کے نام سے ایک ندی بہتی ہے جو تحصیل شکرگڑھ اور اسکے مضافات سے ہوتی ہوئی کرتارپور کے نزدیک دریائے راوی سے مل جاتی ہے ہمارے پورے علاقے میں بئیں ندی کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہر سال ایک بندہ کھا جاتی ہے یعنی کہ برسات کے ایام میں اکثر کوئی نہ کوئی اس ندی میں ڈوب کر مر جاتا ہے۔
کْچھ ایسی ہی صورتحال تھرڈ ورلڈ کے مختلف ممالک میں روائتی تہواروں کے دوران پیش آتی ہے جہاں پر غربت کے سبب کئی لوگ اپنے بچوں کی فرمائشیں پوری نہ کرنے کے غم میں خودکشی کر لیتے ہیں بلکہ اکثر اوقات تو پورے خاندان کو مار کر خود کو مار لینے کی خبریں مِلتی ہیں ۔ ہر سال ہر تہوار کوئی نہ کوئی خاندان ہڑپ کر جاتا ہے یا یوں کہہ لیجئے
غربت ایک چڑیل ہے اپنی بستی میں
جسکی ہر تہوار پہ آنکھیں ہوتی ہیں
پچھلے دنوں شیخوپورہ میں پیش آنے والے ایسے ہی ایک حادثے نے دردِ دل رکھنے والوں کو رلا کر رکھ دیا کہ عید پر نئے کپڑوں کی فرمائش بچوں کی زندگی کی آخری فرمائش بن کر رہ گئی ۔خاوند کی بیوی سے پہلے ہی نوک جھونک رہتی تھی اوپر سے بے روزگاری نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔گھریلو جھگڑے، غربت اور بدحالی... ایسی صورت حال میں کْچھ بھی ہو سکتا ہے ۔تو وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا ۔
فیصل آباد کے رہائشی علاقے بنڈالہ کے محنت کش باپ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کو شیخوپورہ کے قریب نہر میں پھینک دیا اور پولیس کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا ۔یہاں پر یہ کہنا بالکل بھی بے جا نہ ہوگا کہ اس جْرم کا اعتراف اس علاقے کے مخیر حضرات اور کرتا دھرتاؤں کو بھی کر لینا چاہئے جن کی ناک کے نیچے ایک گھر میں غربت کی وجہ سے لڑائی جھگڑا جاری رہا ، نوبت انتہائی اقدام تک آگئی اور کسی کو پتہ تک نہ چلا اگر اسی محلے کا کونسلر اور مخیر حضرات چاہتے تو اس خاندان کو بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے تھے اسی طرح اور بھی بے شمار لوگ ایسی صورت حال سے دوچار ہیں، ان کو بچانے کے لئے بھی کردار ادا کیا جا سکتا ہے وہ کردار بے روزگار شخص کو روزگار دلا کر بھی ادا کیا جا سکتا ہے یا پھر اس شخص کے اخراجات اس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں تو اسے بیت المال سے وظیفہ دلوا کر بھی ادا کیا جاسکتا ہے یا کسی مخیر شخص سے اس کی چْپ چاپ مدد کروا کر بھی کیا جاسکتا ہے۔
اچھا ایک اور بات کہ ایسے لوگوں کی تعداد کوئی اتنی زیادہ بھی نہیں ہوتی ،مثال کے طور پر اگر ایک محلے میں پانچ گھر ایسے ہیں تو بیس گھر ایسے بھی ہیں جو کروڑ پتی ہیں جن کی سینکڑوں ایکڑ زمینیں ہیں یا انکم کے اور بھی کئی پوشیدہ ذرائع ہیں تو کیا بیس کروڑ پتی اپنے محلے کے پانچ مجبوروں کا بوجھ بھی برداشت نہیں کر پاتے؟ میں اکثر ان سے ہاتھ باندھ کر گزارش کرتا ہوں کہ دو دو چار چار سو روپیہ بانٹنے کے لئے میلہ لگانے سے بہتر ہے کہ چار پانچ افراد کو اکٹھی رقم دی جائے تاکہ وہ عید کے تہوار کو بخوشی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ منا سکیں ۔
پھر اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ مختلف باتیں بناتے ہیں، کوئی اسکی بیوی پر بدچلنی کا الزام لگاتا ہے کا تو کوئی مرد کے نشئی ہونے کا دعویٰ کرتاہے،میں نے خود اپنے کانوں سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ یہ لوگ حالات کامقابلہ کرنے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
کیا دو روٹی کھا لینا اور پڑے رہنا یہی ایک اشرف المخلوقات کی زندگی ہے ؟ کیا اچھا لباس اوررہائش وغیرہ انسان کی ضرورت نہیں ہیں؟کیا تمام انسانوں کے سینوں میں دھڑکتے دلوں میں خواہشات نہیں ہوتیں؟ اگر ہوتی ہیں تو پھر اْن کے پورا نہ ہونے سے جو احساس محرومی پیدا ہوتا ہے وہ آہستہ آہستہ احساس کمتری میں بدل جاتا ہے، احساسِ کمتری کا شکار انسان ذہنی مریض بن جاتا ہے اور ذہنی مریض سے آپ کسی بھی عمل کی توقع رکھ سکتے ۔
اگر یہ ظاہری اور پوشیدہ دولت مند حضرات ایک طریقہ کار پر چلتے ہوئے زکوٰۃ کی ادائیگی کو ہی احسن طریقے سے سرانجام دیں تو یقین کیجئے، پورے پاکستان میں کوئی بھی تہوار کوئی بندہ نہ کھائے۔
آخر میں نہر برد ہونے والے بچوں اور اْن کے جیسے لاکھوں کروڑوں ننھے منے بھوکے پیاسے بچوں کے لئے عید الفطر کے چاند کی آنسوؤں سے لبریز لوری
چندا ماموں دور سے
دیکھ رہے ہیں گھور کے
کس نے روٹی کھا لی ہے
قسمت کے تندور سے
چندا ماموں روتے ہیں
اور رو رو کر کہتے ہیں
میرے لاکھوں بھانجھے ہیں
اکثر بھوکے رہتے ہیں
خالی فیڈر ہوتا ہے
آنکھ سے آنسو بہتے ہیں
دیکھ کے مْنا روتا ہے
ماں پانی سے بھرتی ہے
پی کر مْنا سوتا ہے
ہر شب ایسا ہوتا ہے
چندا ماموں دور سے
دیکھ نہ پائیں گھور کے
اْن کا بھانجا روتا ہے
پی کر پانی سوتا ہے
چندا ماموں دور سے
دیکھ نہ پائیں گھور کے......!