کان ہی نہیں جلد بھی سنتی ہے
حواس خمسہ کے باعث انسان دنیا سے رابط رکھتا ہے ۔یہ کسی بھی کمپیوٹر کے ڈیوائس کیطرح انسان کیلئے بطور ان پٹ اور آئوٹ پٹ کام کرتے ہیں۔ دنیا سے روابط کے یہ اعضاء (ڈیوائسز) انسان کیلئے اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہیں۔ ان حواس خمسہ اور دیگر اعضاء کی سلطنت کا بادشاہ انسانی ذہن ہے جو حکمرانی کرنے میں زمانوں کی تبدیلی کا محتاج نہیں۔ تربیت اور علم ذہن کی خوارک ہے اور اسی کے باعث پھلتا پھولتا اور امور سلطنت چلاتا ہے۔ انسانی زندگی میں تحقیقات کا عمل جاری و ساری ہے جس کے باعث نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں۔
سنا تھا دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں مگر محاورہ اس وقت بنایا گیا جب سائنس و ٹیکنالوجی کا دور نہیں تھا اور آج کی تحقیقات واضح طورپر بتلا رہی ہیں کہ یہ محاورہ بالکل درست تھا کیونکہ ایک نئی سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسان کی قوت سماعت کا تمام تر انحصار کانوں پر نہیں ہوتا بلکہ سننے کی حس میں انسانی جلد بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ دراصل انسانی جسم کے مختلف اعضاء مل کر آوازوں کو محسوس کرتے ہیں۔( لہٰذا جلد بھی دیواروں جیسا ہی عمل سر انجام دے رہی ہے(سائنسدانوں کا خیال ہے کہ دراصل انسانی جسم کے مختلف اعضاء مل کر آوازوں کو محسوس کرتے ہیں)۔ اس سے قبل 1976ء میں بھی سائنسدانوں نے کسی آواز کو سننے میں آنکھوں کے کردار کو دریافت کیا تھا۔
اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی آنکھیں اور جلد کانوں کو کسی آواز سے متعلق بے وقوف بھی بنا سکتے ہیں۔ ‘‘مِک گروک '' نامی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسی ویڈیو دیکھی جا رہی ہو جس میں کوئی شخص ''گا‘‘ کہے اور اس کی آواز روک کر مصنوعی طور پر ''با‘‘ کی آواز نشر کرے تو سامع کو وہ آواز 'دا‘ کی سنائی دے گی۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کئی آوازیں ایسی ہیں، جنہیں سننے کے لئے انسانی دماغ کانوں کے علاوہ دوسرے جسمانی اعضاء سے بھی کام لیتا ہے۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی آوازیں ایسی ہیں جنہیں پیدا کرتے ہوئے انسان ہوا میں ہلکی سی پھونک مارتا ہے، اور یہ پھونک ہوا کو اس طرح متاثر کرتی ہے کہ سامع اس لفظ کو سن سکتا ہے۔ انسانی دماغ کسی لفظ کو شناخت کرنے کے لئے کئی جسمانی اعضاء سے کام لیتا ہے۔ یہ تحقیق یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے وابستہ ایک محقق بریان گِک نے کی ہے اس رپورٹ کو مرتب کرنے میں ان کا ساتھ اسی یونیورسٹی سے وابستہ ایک طالب علم ڈونلڈ ڈیرک نے دیا ہے۔ان محققین کا کہنا ہے کہ ہوا میں کسی لفظ کی ادائیگی کے دوران پھونک کا استعمال ''پ‘‘ اور ''ت ‘‘سمیت کئی لفظوں کو قابل سماعت بناتا ہے۔
محققین نے 66 افراد کا مطالعہ کیا۔ ان افراد کو ہیڈ فونز کے ذریعے کچھ آوازیں سنوائی گئیں۔ ایک سیشن کے دوران ان افراد کو ''پا‘‘ اور ''با‘‘ اور پھر'' تا‘‘ اور'' دا ‘‘کی آوازیں سنوائی گئیں۔ ان افراد کے جسموں کے مختلف حصوں پر باریک نالیوں کے ذریعے تیز ہوا بھی برسائی گئی۔ آوازوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں جب مختلف طرز کی پھونکیں ان نالیوں کے ذریعے پھینکی گئیں تو زیادہ تر افراد آواز کی شناخت کرنے میں ناکام رہے۔ اسی طرح سائنسدانوں نے کہا کہ اگران الفاظ کی ادائیگی کے دوران منہ سے ہوا کے یہ ہلکے جھکڑ نہ چلیں تو بھی انسان آوازوں کی شناخت میں ناکام ہو جاتا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسان شروع ہی سے ان لفظوں کو جلد سے چھونے والی انتہائی کم ماہیت کی ہوا کے لحاظ سے پہچاننا سیکھتا ہے اور یہ ہوا جلد کے ذریعے دماغ میں لفظوں اور آوازوں کی شناخت کا باعث ہوتی ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسان اس عمل کے لئے جلد کا استعمال اس لئے کرتا ہے کیونکہ انسان کا پورا جسم اسی غلاف میں لپٹا ہوا ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسانی جلدکئی الفاظ کے درمیان تمیز کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے اور اگر مصنوعی طور پر ہوا میں آواز کے ساتھ بھیجی جانے والی پھونکوں کو تبدیل کر دیا جائے تو انسان آواز بھی دوسری ہی سنتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ انتہائی تیز ہوا چل رہی ہو تو آوازوں کو سننے میں سخت مشکلات پیش آتی ہیں۔
تاہم سائنسدانوں کا خیال ہے کہ جلد کے علاوہ انسانی دماغ اندازوں کی مدد سے بھی کئی آوازوں کو پہچانتا ہے۔ کسی جگہ پر بہت شور ہو تو بھی انسانی دماغ کانوں سے زیادہ اندازوں پر بھروسہ کرنا پسند کرتا ہے۔امید ہے کہ اس تحقیق کے بعد اب سرگوشی میں بات کرنے کیلئے نئی تکنیک استعمال کی جائے گی کیونکہ ذہن کا کیا بھروسہ وہ تو ہر حال میں سننے کا عمل جاری رکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا چغلی کرنے کیلئے اب خواتین کو مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ، میرا مشورہ یہی ہے کہ گھر کا ماحول اب ایسی گپ شپ کیلئے سازگار نہیں رہا کیونکہ اگر ساس کی جلد حساس ہوئی تو خیر نہیں۔