کہانی مجاہد آزادی رام پرسادبسمل کی
آج ہم آپ کو تاریخ کے اس دور میں لے جائیں گے جب ''سر فروشی کی تمنا ‘‘ ہر کسی کے دل میں تھی ، اس جملے سے آپ بخوبی جان گئے ہونگے کہ ہم برصغیر کے اُس بہادر سپوت کا تذکرہ کر رہے ہیں جو مجاہد آزادی ہونے کیساتھ ساتھ شاعر ، مترجم مؤرخ اور ادیب بھی تھا ۔ جی ہاں ہم اپنے لفظوں کے ذریعے اس مجاہد کی قربانیوں کو سلام پیش کر رہے ہیں جس نے آزادی کی خاطر پھانسی کے پھندے کو گردن دیدی لیکن غاصب انگریز حکمرانوں کے آگے گردن نہیں جھکائی ۔ بازوئے قاتل کا زور توڑنے والے اس مجاہد کا نام رام پرساد بسمل تھا ، آپ کو بسمل شاہجہاں پوری بھی پکارا جاتا تھا ، 11جون 1897ء کو شاہجہان پور شہر کے کھیرنی باغ محلے میں پنڈت مرلیدھر کے ہاں پیدا ہوئے اور 19دسمبر 1927ء کو گورکھ پور (بھارت) میں پھانسی کی سزا کو اپنے لئے باعثِ فخر بنایا ۔
وہ قارئین جو رام پرساد بسمل کے نام سے واقف نہیں اس سوچ میں مبتلا ہو رہے ہونگے کہ آخراس نام میں رام اور بسمل اکٹھے کیوں ہیں اور یہ نام رکھنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے تو ہم صرف اتنا بتاتے چلیں کہ بسمل صاحب ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور آریہ سماجی تھے بسمل تخلص تھا جسکا مطلب مجروح (روحانی طور پر ) ہے۔ بسمل نے ایک مولوی صاحب سے اردو اور فارسی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ بعد میں گھر والوں نے انہیں مندر کے پجاری کے حوالے کر دیا ۔ہندی میں وہ اگیات اور اردو میں بسمل کے نام سے لکھتے، بسمل کے علاوہ وہ ''رام‘‘ اور ''نا معلوم ‘‘کے نام سے بھی مضمون لکھتے اور شاعری کرتے ۔ بسمل سے پہلے انکا ایک بھائی پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا۔ بسمل نے اپنی آپ بیتی میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا کہ جب میں پیدا ہوا تو میرا زائچہ اور دونوں ہاتھ کی انگلیوں کی گولائی دیکھ کر نجومی نے پیشگوئی کی''اگر اس بچے کی زندگی کسی طرح کی نظریاتی بندش سے بچی رہے جسکا امکان بہت کم ہے تو اسے عنان حکومت سنبھالنے سے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں پائے گی ‘‘ بسمل کی پیدائش سے قبل انکی ماں ایک بیٹا کھو چکی تھی لہٰذا جادو ٹونے کا سہارا لیا گیا۔ ایک خرگوش لایا گیا اور نوزائیدہ بچے کے اوپر سے وار کر آنگن میں چھوڑ دیا گیا۔ خرگوش نے آنگن کے دو چار چکر لگائے اور فوراً مر گیا۔ یہ واقعہ عجیب ضرور لگتا ہے لیکن حقیقی ہے ۔
شاہجہاں پور سے تعلق رکھنے والے شہیدِ آزادی اشفاق اللہ خان کے بڑے بھائی ریاست اللہ خان رام پرساد بسمل کے ہم جماعت تھے، بس اسی طرح ان کی اشفاق سے بھی دوستی ہو گئی اور ایسی دوستی کہ دونوں جیئے بھی ساتھ ساتھ اور موت کو گلے بھی ایک ساتھ لگایا ۔ ریاست اپنے چھوٹے بھائی اشفاق کوبسمل کی بہادری کے قصے سنایا کرتے ۔ اشفاق کے دل و دماغ پر بسمل ایک ہیرو کی طرح چھا چکے تھے۔ گو کہ اشفاق بسمل سے 3 سال چھوٹے تھے لیکن دونوں میں کمال کی دوستی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اشفاق اللہ خان بھی شاعری کرتے اور وارثی و حسرت تخلص رکھتے تھے ۔ سرفروشی کی تمنا رکھنے والے یہ دو نوں شاعر مادر وطن پہ اپنا سب کچھ قربان کر نے کو ہمہ وقت تیار رہتے ۔پھر انہیں بھگت سنگھ کی قربت بھی ملی اور یوں آزادی کے پروانوں نے مل کر ایک غول کی طرح اڑان بھری ۔
بسمل کے اندر آزادی کاطوفان چھپا تھاوہ جان چکے تھے کہ انگریز آسانی سے آزادی نہیں دینگے انہوں نے 1916ء میں صرف 19 سال کی عمر میں انقلابی راستہ چنا۔ بسمل صاحب کو سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے کہ وہ تحریک آزادی کے بے مثل ہیرو تھے ۔اتنی کم عمر میں انہوں نے وہ داستان رقم کی جو نوجوانانِ برصغیر کیلئے ہمیشہ روشن مثال رہے گی۔ اپنی 11 سال کی انقلابی زندگی میں بسمل صاحب نے کئی کتابیں لکھیں اور خود ہی انہیں شائع کیا، وہ با ہمت ، فیصلہ ساز شخصیت تھے جو سوچتے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کر گزرتے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کم عمری میں وہ کارنامے انجام دئیے جو مصلحت پسندوں یا مفاد پرستوں کے حصے میں نہیں آتے ۔ بسمل نہ صرف کتابیں لکھتے انہیں خود چھاپتے اور فروخت بھی کرتے سب سے دلچسپ بات یہ کہ کتابیں بیچ کر جو پیسہ ملتا اس سے ہتھیار خریدتے اور انگریزوں کیخلاف استعمال کرتے ۔ بسمل جی نے کئی کتابیں لکھیں جن میں 11 کتابیں انکی زندگی میں شائع ہوئیں، برطانوی حکومت نے تمام کتابیں ضبط کر لیں۔''وندے ماترم ‘‘ کے بعدبسمل کی تخلیقات نے بہت مقبولیت حاصل کی بلکہ یوں کہنا چاہئے آزادی کے متوالوں میں نئی روح پھونک دی تھی دوسرا بسمل اور اشفاق کی دوستی نے تحریکِ آزادی میں ساجھی وراثت اور ساجھی شہادت کے جذبے کو پروان چڑھانے کا کام کیا۔
رام پرساد بسمل نے ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن بنائی اور یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ بسمل کوئی تنظیم یا جماعت بنائیں اور اس میں اشفاق اللہ خان نہ ہوں ، تنظیم میں اشفاق اللہ خان، راجندر ناتھ لاہری اور روشن سنگھ جیسے نوجوان انکے ساتھ مل گئے۔تنظیم بن گئی قابل اعتماد دوست مل گئے لیکن تنظیم کو چلانے کیلئے اور ملک بھر میں انگریزوں کیخلاف ماحول بنانے کیلئے پیسوں کی ضرورت تھی اب بسمل اور انکے ساتھیوں نے ٹرین سے سرکاری خزانہ لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔ سہارنپور سے لکھنؤ جانے والی پیسنجر ٹرین سے سرکاری خزانہ لایا جا رہا تھا شاہجہاں پور کے پاس کاکوری میں یہ ٹرین لوٹ لی گئی۔ بعد میں انگریز سرکار نے بسمل اور انکے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے کئی ایسے نوجوانوں کو بھی سخت سزائیں دیں گئیں جوکا کوری ٹرین کیس میں شامل نہیں تھے۔ اشفاق، لاہری اور روشن سنگھ پر بھی مقدمات چلے 19 دسمبر 1927 ء کو ان چاروں کو پھانسی دینے کا اعلان ہوا۔ عوامی بغاوت کے خوف سے انگریز افسران نے الگ الگ مقامات پہ پھانسی دی۔ راجندر ناتھ لاہری کو وقت مقررہ سے2دن پہلے ہی یعنی 17 دسمبر 1927ء کو گونڈہ جیل میں پھانسی دیدی گئی۔ روشن سنگھ کو الہٰ آباد جیل میں اور اشفاق اللہ خان کو فیض آباد جیل میں 19 دسمبر 1927 ء کو پھانسی دی گئی۔ اسی دن گورکھپور جیل میں پنڈت رام پرساد بسمل کو پھانسی دی گئی۔ایک مدت تک یہ کہا جاتا رہا کہ ''سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے‘‘یہ کلام رام پرساد بسمل کا ہے لیکن بعد میں تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ شہرۂ آفاق کلام1890ء میں قدیم پٹنہ میں پیدا ہونیوالے محمد حسین بسمل عظیم آبادی کا تھا لیکن چونکہ دونوں شخصیات کا عہد ایک ہی ہے اور وہ دور آزادی کا تھا اس لئے یہ ابہام پیدا ہوا ۔ بہر حال کلام کسی کا بھی ہو رام پرساد بسمل اور انکے ساتھیوں نے آزادی کیلئے سرفروشی کا حق ادا کر دیا زندگی کی صرف30 بہاریں دیکھنے والے اردو کے اس شاعر، ادیب اور مجاہدِ آزادی پر تاریخ ہمیشہ نازاں رہے گی۔