مریخ سے جڑے عجیب نظریات
یورپ میں پرانے وقتوں میں مریخ کو ضعیف العقیدہ لوگ ''آگ کا سیارہ‘‘ کے طور پر لیتے تھے اور اسے جنگ کا خدا سمجھتے تھے۔لیکن17 ویں صدی میں ٹیلی سکوپ کی مدد سے سائنسدان اس کی کچھ جھلکیاں دیکھنے میں کامیاب ہوئے۔ تاہم مریخ کا قریبی نظارہ لینے کیلئے ایک طاقتور ٹیلی سکوپ کی ضرورت تھی۔ معلومات آنے پر اس سیارے کے بارے میں قدیمی نظریات دم توڑ گئے۔
1877میں اٹلی کے ایک ماہر فلکیات گیووانی شیاپیرل نے یہ معلومات دیں کہ یہ سرخ سیارہ اپنے گرد کچھ لائنیں رکھتا ہے۔اس نے ان لائنوں کو کینالی (جس کا مطلب چینلز تھا) کا نام دیا۔ تاہم وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ یہ سیارے کی مخلوق کی زندگی کے حوالے سے بھی ہوسکتی ہیں۔ جیسے ہی یہ لفظ مشہور ہوا تو اسے کینال کے طور پر لیا جانے لگا کہ اگر کچھ نہریں ہیں تو کوئی مخلوق ضرور ہوگی جس نے انہیں کھودا ہوگا۔کچھ نے خیال کیا کہ یہ لائنیں عظیم سیارے کے گرد پانی کی لہروں کا ایک سسٹم ہوسکتا ہے۔ اس سسٹم کے بارے میں خیال کیا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ مریخ پرغیرزمینی مخلوق رہتی ہو بلکہ وہ انتہائی ماہر انجینئرز بھی ہوسکتے ہیں۔زمین پر سوئز نہر بنانے میں انسانوں کو دس سال لگے تھے۔تاہم مریخ کی مخلوق کو یہ سب مکمل کرنے میں انسانوں سے کم وقت لگا ہوگا۔ 1894میں ایک ماہر فلکیات نے اس نظریہ کو مزید پھیلایا کہ مریخ پر نہریں ہیں۔لوویل نے بھی ان نہروں کو اپنی ٹیلی سکوپ کے ذریعے دیکھا۔اس نے مریخ کی سطح پر جو کچھ دیکھا اس کا نقشہ بنایا، بہت سی کتابیں لکھیں، لیکچرز دیئے کہ مریخ کی مخلوق وجود رکھتی ہے۔اور کہا کہ وہ اپنے سیارے کو سیراب بھی کررہے ہیں۔لیکن سائنسدان بہت جلد اس بات تک پہنچ گئے کہ مریخ پر کوئی زندگی وجود رکھتی ہے یا نہیں۔ 1899میں لوویل کے نظریہ سے بہت سے سائنسدانوں کو ایک راستہ ملا ۔ نکولا ٹیسلا جو کہ الیکٹریکل انجینئر تھے نے یہ دعویٰ کیا کہ مریخ سے کچھ سگنلز ملے ہیں۔ اس نے اپنے ٹرانسمیٹر سے بہت تجربات کئے، ایسا اس نے کولوریڈو کی بلند چٹانوں پر کیا۔مبینہ طور پر اس نے ایک پیغام وصول کیا ، وہ پیغام کیا تھا ٹیسلا کہتے ہیں کہ وہ ''ایک ، دو ، تین ‘‘ تھا۔کچھ سالوں کے بعد موجد نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مریخ کی مخلوق سے وائرلیس پیغامات بھیج کر رابط کرسکتا ہے۔یہ محض ایک بیان تھا کیونکہ اس سال کے دسمبر تک زمین سے کوئی پیغام نہ بھیجا جاسکا۔ٹیسلا کو علم نہیں تھا کہ مریخ کی مخلوق کس طرح کی نظر آتی ہے ۔ لیکن اسے یہ یقین تھا کہ وہ مریخ کی سخت حالت کو جانچ سکتا ہے۔بہت سوں کے نزدیک یہ عقلی بات تھی کہ اگر زمین سے پیغام بھیجنا ممکن ہوا تو مریخ سے بھی پیغام آسکتا ہے۔ 1909 میں مریخ پر کسی بھی زندگی سے رابطے کی بہت سی کوششیں کی گئیں۔ ایک ماہر فلکیات نے روشنی کے سگنلز کی ایک طاقتور سیریز بھیجنے کی کوشش کی ۔ روشنی کے یہ عکس پچاس بڑے شیشوں سے پیدا کئے گئے اور کئی سالوں تک مریخ تک بھیجے جاتے رہے۔ ماہر فلکیا ت کا کہنا تھا کہ ہم یہ خیال کرسکتے ہیں کہ اگر وہاں کوئی مخلوق ہے تو وہ بھی ہم انسانوں کی طرح ٹیلی سکوپ جیسی آنکھیں یا کچھ اور رکھتی ہوگی جیسے کہ ہم زمین پر ٹیلی سکوپ رکھتے ہیں۔ ماہر فلکیات نے یہ سب جانچنے کیلئے دس ملین ڈالر کا خرچ بتایا لیکن کسی نے اسے فنڈنگ کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک ماہر فلکیات پروفیسر ڈیوڈ ٹاڈ نے خیال کیا کہ اگر گرم ہوا کے بڑے غبارے پچاس ہزار فٹ تک بھیجے جائیں تو مریخ سے پیغامات حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ٹاڈ نے کہا کہ اگر مریخ پر مخلوق ہے تو وہ بھی ہم سے رابطہ کرنے کیلئے کوشش کررہی ہوگی۔یہ سوچ کر اس نے اپنا تجربہ کیا لیکن اس کے گرم ہوا کے غبارے صرف پانچ ہزار فٹ تک ہی جاسکے۔اس طرح یہ کوشش بھی ادھوری رہ گئی۔اکتوبر کو لندن سے تعلق رکھنے والے وکیل نے مریخ تک ٹیلیگرام سگنلز بھیجنے کی کوشش کی جو کہ 35 ہزار ملین میل دور تھا۔ ڈاکٹر مینز فیلڈ کو یقین تھا کہ اس کا پیغام مریخ کی مخلوق کو مل گیا ہے کیونکہ وہ اپنے دو سالوں میں زمین کے قریب ترین تھا۔ اس کے علاوہ مینز فیلڈ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے ایک مریخ کی خاتون سے بات کی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مریخ کی مخلوق الیکٹرک ہوائی جہاز استعمال کرتی ہے اور الیکٹرک درختوں کے پھل کھاتی ہے۔ مینز فیلڈ نے لندن کی سنٹرل ٹیلی گراف آفس کے ذریعے مریخ کی خاتون کو پیغامات بھیجنے کی کوشش کی۔ ایسا رگبی ٹاور کے ذریعے کیا گیا جو دنیا کا طاقتورترین وائرلیس سٹیشن تھا۔ ٹیلی گراف دفتر کے عملے نے کہا کہ انہوں نے کچھ نہیں سنا لیکن مینز فیلڈ نے دعویٰ کیا کہ اس نے ٹیلی پیتھی کے ذریعے پیغام سن لیا ہے ۔ مینز فیلڈ نے کہا کہ مریخ کی مخلوق بھی ہمارے پیغامات لینے کیلئے بیٹھی ہوئی ہے اور وہ ہمارے سائنسدانوں پر ہنستی ہے۔اس دور کے ماہرین فلکیات کے نظریات کچھ حقیقی نہیں تھے لیکن ان نظریات نے نوجوان نسل میں ایک تجسس ضرور پیدا کیا کہ مریخ کی مخلوق کا پتا چلایا جائے۔1976 میں ناسا نے مریخ پر ایک تحقیق کی۔اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا واقعی مریخ پر زندگی کے کوئی آثار ہیں۔انہوں نے دو آلات مریخ کی سطح پر اتارے اور اس کے میٹابولک تجربات کی مدد سے یہ معلومات ملیں کہ اس سرخ سیارہ پر زندگی کے کچھ آثار ہوسکتے ہیں۔وہ مریخ کی مٹی کا سیمپل لینے میں کامیاب ہوگئے۔ تاہم یہ نتائج آج تک متنازع ہیں۔کیا مریخ پر زندگی ممکن ہے، اس سوچ نے مزید تجربات اور تحقیق کی طرف راغب کیا اور 2012 میں ایک تحقیق سے پتا چلا کہ اس سرخ سیارے پر پہاڑ بھی ہیں۔یہ پہاڑ وقت کے ساتھ ساتھ کئی سالوں میں وجود میں آئے جن کو بننے میں پانی اور ہوا نے مدد دی ہوگی۔ناسا نے مزید تحقیق کے لئے فروری 2021 میں ''پرسیویرنس روور‘‘ روبوٹ مریخ پر بھیجا۔اس کی دریافت بہت باریک بین تھی لیکن اتنی زیادہ قابل ذکر نہیں تھی۔لیکن اس کی بھیجی ہوئی تصاویر سے کافی معلومات ملی ہیں۔ ابھی تک مریخ پر مزید تحقیق جاری ہے اور ناسا بھی اس حوالے سے مزید معلومات چاہتا ہے ۔ 2026 میں ایک اور چھوٹا روور لانچ کیا جائے گا جو جیزیرو کے قریب پہنچے گا اور پرسیویرنس کے اکٹھے کردہ نمونے حاصل کر لے گا۔انھیں مریخ کے مدار پر بھیجا جائے گا اور انھیں ایک مصنوعی سیارچے (سیٹلائٹ) کے ذریعے پکڑ کر واپس لایا جائے گا جہاں زمین کی لیبارٹریوں میں اس کی کڑی جانچ پڑتال کی جائے گی۔