دبی آوازیں
''خوشبودار سبز الائچی والا خاص پشاوری قہوہ۔ قہوہ لے لو، گرما گرم قہوہ۔ فی کپ 20 روپے، پشاوری قہوہ تیار ہے۔ چائے، کافی، آئس کریم، چپس، مناسب قیمت پر لینے کے لیے ہمارے پاس آ جائیں۔ فیملی کیلئے الگ سے جگہ ہے۔ کرارے اور مزیدار پوپکارن۔ ''بھائی! کھلونے لو گے۔ اچھے والے کھلونے ہیں اور جلدی نہیں ٹوٹتے۔ لے لو ناں! اپنے بچوں کیلئے لے لو۔ میں آپ کیلئے دعا کرونگی۔‘‘مال روڈ پر بھیڑ کے درمیان ایک پٹھانی بچی نے اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کر لی۔ وہ سر سبز وادیوں کے حسن میں کھویا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے برفباری ہونے کی وجہ سے گھروں کی چھتوں پر سفید نرم سی تہہ بچھ چکی تھی، ماحول میں خاصی خنکی تھی۔وہ بھونچکا رہ گیا۔ سردی کی شدت کے لحاظ سے بچی کے کپڑے انتہائی غیر موزوں تھے۔ وہ ایک سیاح تھا، ملکوں ملکوں گھومنا اور قدرت کا حسن دیکھنا اسکا کام تھا آج بھی وہ اسی مقصد کے تحت کاغان ناران کی وادیوں سے ہوتے ہوئے مری کے مسحورکن نظاروں کو آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا۔ ''بھائی! مجھے یہ کھلونے بیچ کر گھر جانا ہے شام ہو رہی ہے، اپنے بچوں کیلئے لے لو، چلو 25 میں لے لو۔ اتنا سستا کہیں سے بھی نہیں ملے گا۔‘‘ بچی بولتی چلے جا رہی تھی۔ وہ حیرت کا بت بنے، اس عجیب و غریب منظر کے سحر میں جکڑا ہوا تھا۔ اس دنیا کے جبر کی داستان بچی کے چہرے پر رقم تھی۔ بھائی! بچی نے جھنجوڑا تو وہ چونک اٹھا۔ ''بچوں کیلئے کھلونے لے لو، میں دعا دونگی۔‘‘ وہ نہایت بھولپن سے بولی ۔ ''کیا دعا دو گی؟‘‘ سیاح کا لہجہ تجسس بھرا تھا۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے۔ ''واہ بھئی واہ! تم تو کافی سمجھدار ہو۔‘‘ اس نے نوٹ تھماتے ہوئیگفتگو جاری رکھی۔ ''گھر کدھر ہے تمہارا؟‘‘ ڈھلان کے اس پار۔ بچی نے اشارہ کرتے ہوئے مختصر سا جواب دیا۔ ''او ہو! اتنی دور کیسے جاؤ گی؟‘‘ اب اس کا انداز تھوڑا فکر مندانہ تھا۔شام ہونے سے پہلے تمام کھلونے بیچ کر اپنی سہیلیوں کے ساتھ جاؤ نگی۔ برفباری ہو گئی تو پھر بہت مشکل ہو جائیگی۔ ۔ ''اچھا ایسا کرو تم سارے کھلونے مجھے بیچ دو۔‘‘ اس نے مسئلے کا حل پیش کیا۔ کیا واقعی؟وہ بے یقینی کے انداز میں بولی۔ بھائی! آپ تو بہت اچھے ہیں۔ میری امی کہتی ہیں امیروں میں احساس نہیں ہوتا۔ آج میں ان کو بتاؤں گی کہ سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔ وہ کسی ترنگ میں بولی۔
''وہ ایسا کیوں کہتی ہیں؟‘‘ سیاح کی نظروں میں تحیر تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ مالدار لوگ سفید پوش طبقے کی مالی امداد نہیں کرتے اپنا پیسہ سود اور رشوتوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ بے بس ہو کر ماں باپ ہمیں کمانے کیلئے لگاتے ہیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو گھر کا چولا جلنا بند ہو جائے ۔ وہ اتنی یاسیت سے بولی کہ سیاح کو اپنا وجود کٹتا محسوس ہوا۔کھلونے اس نے وصول کر لیے ، نقدی بھی ادا کر چکا تھا۔ بچی کے لبوں پر چپ کی مہر تھی لیکن آنکھیں شکریہ بول رہی تھیں۔ اس نے اچھلتے کودتے اپنی راہ پکڑی، جیسے اس کے ناتواں کندھوں سے بہت بڑا بوجھ سرک گیا ہو۔
بچی تو چلی گئی مگر جاتے جاتے سیاح کو مبہوت کر گئی۔ اس کے کانوں میں اس کے الفاظ ابھی تک گونج رہے تھے۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔ سیاحوں کا جم غفیر منظر کشی میں مصروف تھا۔ گروپ کی صورت میں آنے والے سیاح اپنی چہ میگوئیوں میں مصروف تھے۔ کانوں سے ٹکراتی مختلف چیزیں بیچتے مقامی بچوں کی آوازیں ہجوم کے شوروغل میں مکمل طور پر دب چکی تھیں۔