علائوالدین خلجی نے ہندوستان کو تباہی سے بچا یا خلجی منگولوں کو نہ روکتا تو ہندو نسل معدوم ہو جاتی : ہندو مؤرخ
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر علائوالدین خلجی منگولوں کو پسپا نہ کرتا تو ہندوستان کا کیا نقشہ ہوتا؟ منگولوں کے حملوں کو روکنا اور انہیں شکست دینا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس کیلئے بے پناہ جرأت اور حوصلے کی ضرورت تھی جس کا مظاہرہ علائوالدین خلجی نے کیا۔منگول بہت بڑی قوت تھے جہاں حملہ کرتے روکنا مشکل ہو جاتا۔انہوں نے روس‘ چین‘ پرشیا‘ عراق‘ شام اور یورپ تک اپنی دہشت کے نشان چھوڑے۔ بڑے سفاک تھے چنگیز خان کی موت کے بعد بھی منگولوں کی ستم کاریوں کا سلسلہ جاری رہا انہوں نے لاکھوں انسانوں کا خون بہایا۔ ہندوستان پر بھی ان کی نظر تھی۔ وہ اس ملک کی بے پناہ دولت لوٹنا چاہتے تھے۔ علائوالدین خلجی کی فوجوں نے 2لاکھ منگول گھڑ سواروں کو ہندوستان سے پیچھے دھکیل دیا۔ خلجی نے منگولوں سے نمٹنے کیلئے اپنے پسندیدہ جرنیل ملک کافور کو بھیجا۔ خلجی زبردست جرنیل تھا اس کے دور حکومت میں منگولوں نے ہندوستان پر 6 بار حملہ کیا لیکن ہر بار ناکامی ان کامقدر بنی اس کی وجہ علائوالدین خلجی کی بہترین جنگی حکمت عملی‘ قابلیت‘ معاملہ فہمی اور شجاعت تھی۔ ایک ہندو مؤرخ نے اسکے بارے میں لکھا کہ'' اپنی تمام تر خامیوں اور جابرانہ اقدامات کے باوجود خلجی نے ہندوستان کو منگولوں سے بچایا وگرنہ ہندوستان نیست و نابود ہو چکا ہوتا۔ اس کیلئے ہندوستان کو خلجی کا ممنون ہونا چاہیے۔ اگر منگول ہندوستان پر قابض ہو جاتے تو لوگ خلجی کا جابرانہ دور بھول جاتے۔‘‘
منگولوں نے پرشیا‘ بغداد‘ روس اور دیگر ملکوں میں سب سے پہلے وہاں کا بنیادی ڈھانچہ (Infrastructure) تباہ کیا۔ اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ علائوالدین خلجی نے اپنی سلطنت کو وسیع کیا اور یہ سلطنت اس نے اپنے چچا جلال الدین خلجی کو قتل کرنے کے بعد حاصل کی تھی۔ علائوالدین نے اپنے بھائی الخ خان اور جرنیل ظفر خان کو منگولوں کی سرکوبی کی ذمہ داری سونپ دی۔ پہلے ملک کافور نے یہ کام کیا تھا۔ خلجی کی فوجوں نے منگولوں کو عبرتناک شکست دی 20ہزار منگولوں کو قیدی بنا لیا گیا جنہیں بعد میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اس سے قبل جلال الدین خلجی کے زمانے میں بھی منگولوں نے حملہ کیا تھا جو 1292عیسوی میں کیا گیا تھا۔ منگولوں کی فوج نے ہلاکو خان کے پوتے کی قیادت میں پنجاب پر حملہ کیا ۔ جلال الدین خلجی نے منگولوں کی پیش قدمی روکی اور دریائے سندھ کے کناروں تک جا پہنچا ۔ مؤرخ بارانی کے مطابق'' جلال الدین خلجی نے منگولوں کی پیش قدمی ضرور روکی تھی چند منگول فوجی افسروں کو گرفتار کیا تھا لیکن وہ منگولوں کی اصل فوج کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہ کر سکا اس نے امن کیلئے کوششیں کیں اس پر منگول واپس چلے گئے۔‘‘
علائوالدین خلجی کے زمانے میں ہندوستان پر پہلا حملہ 1297-98ء میں ہوا۔ خلجی نے حملے سے تھوڑا عرصہ قبل ہی تخت سنبھالا تھا۔ ایک لاکھ منگولوں کی فوج پنجاب میں داخل ہوئی اور لاہور کے قریب علاقوں میں لوٹ مار شروع کر دی ۔ عخلجی نے الخ خان اور جعفر خان کی قیادت میں فوج بھیجی جس نے جالندھر کے قریب منگولوں کو شکست دی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس لڑائی میں 20 ہزار منگول مارے گئے۔ منگولوں نے 1299 ء عیسوی میں پھر حملہ کیا۔ اس بار ان کی قیادت داوا خان کا بھائی سالدی کر رہا تھا۔ انہوں نے سیہون پر قبضہ کر لیا۔ علائوالدین نے منگولوں کو سبق سکھانے کیلئے ظفر خان کو بھیجا جس نے سیہون کو آزاد کرایا اور منگولوں کی بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا۔ ان میں سالدی اور اس کا بھائی بھی شامل تھے۔
1299ء کے آخر میں داوا خان نے 2 لاکھ گھڑسواروں کی فوج بھیجی۔ اس دفعہ قیادت اس کا بیٹا متلخ خان کر رہا تھا تاکہ سالدی کی موت اور اپنی توہین کا بدلہ لے سکے۔ اس بار منگولوں کا مقصد لوٹ مار نہیں فتح تھی۔ انہوں نے راستے میں لڑائی سے گریز کیا تاکہ دہلی کے قریب پہنچ جائیں منگولوں نے زبردست لڑائی لڑنے کا عزم کر لیا تھا۔خلجی کے مشیر اور دوست علاالملک نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ انتظار کرے اور کھلی لڑائی لڑنے کا خطرہ مول نہ لے لیکن خلجی نے اس سے اتفاق نہیں کیا اور پھر دہلی کے قریب کلی کے میدان پر لڑائی ہوئی۔ ظفر خان کی شجاعت کی بدولت خلجی نے یہ لڑائی جیت لی۔ ظفرخان نے 18کوس تک بھاگتے ہوئے منگولوں کا پیچھا کیا لیکن واپسی پر منگولوں نے اس پر چھپ کر حملہ کیا اور یوں ظفر خان موت کی وادی میں اتر گیا لیکن منگولوں کو علائوالدین خلجی کی فوجی طاقت کا بخوبی علم ہو گیا تھا۔ انہوں نے پسپا ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ دہلی سے 30کوس تک پیچھے ہٹ گئے اور پھر واپس چلے گئے۔
منگولوں نے چوتھا حملہ اس وقت کیا جب علائوالدین خلجی کو چتوڑ سے واپسی کو کچھ عرصہ ہی ہوا تھا۔ یہ 1303کا واقعہ ہے۔ اس دفعہ منگولوں کے گھڑ سواروں کی تعداد 1 لاکھ 20 ہزار تھی اور ان کی قیادت ترغی کر رہا تھا۔ انہوں نے اتنی تیزی سے دہلی کی طرف پیش قدمی کی کہ صوبائی گورنروں کو وقت ہی نہ ملا کہ وہ دہلی پہنچ کر سلطان کی مدد کر سکیں۔ اس کے علاوہ علائوالدین کی فوج کا بڑا حصہ تیلنیگا نہ مہم کیلئے روانہ ہو چکا تھا اور دہلی میں بہت کم فوج رہ گئی تھی خلجینے دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ منگولوں نے دہلی کے اردگرد کے علاقوں میں لوٹ مار شروع کر دی اور سری قلعے کا 2 ماہ تک محاصرہ کیے رکھا جہاں خلجی نے پناہ لے رکھی تھی لیکن منگول قلعہ فتح کرنے میں ناکام رہے اور واپس چلے گئے۔ ترغی کے حملے نے خلجی کی آنکھیں کھول دیں اسے احساس ہوا کہ سرحدوں کا دفاع کس قدر ضروری ہے۔ اس نے سری کو دارالحکومت بنا لیا حفاظتی قلعوں کو مزید مضبوط بنایا دہلی کے قلعیسمیت شمال مغرب میں موجود قلعوں کو مضبوط بنایا اور قلعے تعمیر کیے اور وہاں فوجوں کو موجود رہنے کا حکم جاری کیا۔ شمال مغرب کیلئے الگ اور مستقل فوج رکھنے کا فیصلہ کیا، الگ گورنر کی تعیناتی کی اور فوج کی تعداد بھی بڑھا دی۔
منگولوں کی بربریت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ دنیا فتح کرنے کا خواب وہ اب بھی دیکھ رہے تھے اور ہندوستان کی بے پناہ دولت پر قبضے کی خواہش پہلے سے بھی بڑھ گئی تھی۔ حالانکہ لاکھوں منگول علائوالدین خلجی کے ساتھ جنگوں میں مارے جا چکے تھے۔ 1306 عیسوی میں منگولوں کی فوج کی قیادت کوبک کر رہا تھا۔ یہ فوج دریائے راوی کے کناروں تک پہنچی اسکا دوسرا حصہ ناگور پہنچا۔ منگولوں کو اس بار بھی ذلت آمیز شکست ہوئی۔اس دفعہ 50ہزار منگول قید کر لیے گئے انہیں دہلی بھیج دیا گیامرد قیدیوں کو ہاتھیوں کے پیروں تلے کچل دیا گیابدایوں گیٹ پر ان کی کھوپڑیوںکا مینار تعمیر کیا گیا۔ منگول قیدی عورتوں اور بچوں کو غلاموں کے طور پر بیچ دیا گیا۔ منگولوں نے سب سے زیادہ خطرناک حملے علائوالدین خلجی کے دور میں کیے اور اس نے ان تمام حملوں کو ناکام بنایا۔اگرچہ غیاث الدین تغلق کے دور میں بھی منگولوں نے حملے کی کوشش کی لیکن یہ ایک کمزور کوشش تھی۔ سلطان محمد تغلق کے دور میں بھی ایک بار حملہ کیا۔ چودھویں صدی کے وسط میں ہندوستان منگولوں کے خطرے سے مکمل آزاد ہو گیا۔ امیر تیمور نے وسط ایشیاء اور افغانستان میں اپنی سلطنت قائم کر لی اس کے بعد ہندوستان پر حملے کیلئے کوئی منگول سردار باقی نہ رہا۔
اگر علائوالدین خلجی منگولوں کو روکنے میں ناکام ہو جاتا تو پھر ہندوستان کا کیا ہوتا؟ یقینی طور پر منگولوں نے بربریت کا بازار گرم کر دینا تھا،ہندوستان کا ثقافتی ورثہ بربادہو جاتا۔ بعض مؤرخین کی رائے میں یہ ممکن تھا کہ ہندوئوںکا نام و نشان ہی مٹ جاتا کیونکہ اس وقت ہندو صرف ہندوستان تک ہی محدود تھے جبکہ مسلمان سپین اور انڈونیشیا تک پھیل چکے تھے۔ ان حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ علائوالدین خلجی ہندوستان کا کتنا بڑا محسن تھا۔ ایک ایسا نجات دہندہ جس کی ہندوستان والے اتنی پذیرائی نہیں کرتے جتنی کرنی چاہیے۔ فلموں میں تاریخ کا ایک رخ دکھاتے ہیں پدماوتی والا قصہ بھی جھوٹ پر مبنی ہے۔ خلجی نے اپنی بہادری‘ استقامت اورحوصلے کی وہ مثالیں قائم کیں جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔