شری بدت :گلگت کا آخری بدھ مت حکمران
شری بدت گلگت کا آخری مقامی بدھ مت بادشاہ تھا ،عام طور پر اسے آدم خور بادشاہ بھی کہا جاتا ہے جس کا اصلی نام چندر شری دیوا وکرمادتیہ تھا۔گلگت کے بادشاہ ، شری بدت کا دور حکومت 749 صدی عیسوی کا ہے شری بدت گلگت کا ایک حکمران شہزادہ تھا اور اس کی حکومت ہنزہ نگر چلاس داریل, ہراموش, استور گریز, پونیال , یاسین غذر اور چترال تک پھیلی ہوئی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں کئی علاقوں پر مختلف گورنر حکومت کرتے تھے۔
صدیاں گزرنے کے باوجود شری بدت کی کہانی آج بھی زندہ ہے مگر یہ حقیقت سے زیادہ افسانہ لگتی ہے۔
بقول کارل جٹیمار چوتھی صدی عیسوی کے دوران اس خطے میں بڑی تعداد میں بودھی خانقاہوں اور سٹوپاز کی تعمیر کی گئی اورآہستہ آہستہ گلگت بدھ مت کی ایک اہم نشست بن گیا۔ اس وقت گلگت بلتستان کے بلور حکمران بدھ مت کے پیروکار تھے اور اس زمانے میں لوگ بھی بدھ مت مذہب کے ہی پیروکار تھے۔اس طرح گلگت بدھ مت اور بدھ بھکشوؤں کا مرکز بن گیا۔نپورہ بسین گلگت میں واقع بدھا کا مجسمہ, ہنزل کا سٹوپا , گلگت کی قدیم بدھ مت لائبریری سمیت گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں میں بدھ مت کے انمٹ نشانات اور باقیات اس دلیل کی تصدیق کرتے ہیں۔
شری بدت کا قلعہ گلگت پولو گراؤنڈ سے قریب 200 گز مشرق میں واقع تھا۔شری بدت کی بیٹی اور اس کے وزیر نے آذر جمشید کے ساتھ مل کر اسے مارنے کی سازش کی تھی۔ماہ نومبر میں ایک رات اس کے محل کو دشمنوں نے گھیر لیا اور قلعے کے چاروں طرف بڑی آگ لگانے میں کامیاب ہوگئے ۔جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا۔
ڈاکٹر جی ڈبلیو لیٹنر ، 1866 میں ، پہلا یورپی تھا جس نے شری بدت کی کہانی ریکارڈ کی تھی جس سے انہوں نے 1877 میں ‘‘تاریخی افسانوی تاریخ برائے گلگت'' کے نام سے شائع کیا۔ انہوں نے شری بدت کی کہانی کو حقیقت اور افسانے کا امتزاج قرار دیا ہے۔ڈاکٹر لیٹنر اپنی کتاب دردستان میں شری بدت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مقامی روایات کے مطابق شری بدت بری روحوں کی اولاد تھا۔روایت ہے کہ شری بدت گلگت میں ایک محل میں مقیم رہتا تھا ،اس کے ذوق موزوں تھے،اس کے محل کے سامنے ایک پولو گرائونڈ تھا اور وہ پولو کھیل کا دلدادہ تھا،اس کا ملک زرخیز تھا۔ دارالحکومت کے چاروں طرف دلکش اور پرکشش باغات تھے۔ مگر وہ بادشاہ آدم خور تھا اس آدم خوری کی ابتدا ایک حادثہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔کہا جاتا ہے کہ اسے اپنی رعایا سے روزانہ خراج میں ایک بھیڑ لینے کی عادت تھی۔بقول ڈاکٹر لیٹنر آذر شمشیر نے شری بدت کی بیٹی کو بتایا کہ وہ ایک پری زاد ہے یہ سن کر وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی اور اپنے باپ کی لافانی زندگی کا راز آذر شمشیر کو بتایا۔یہ راز معلوم کرنے کے بعد اس نے مقامی آبادی کے ساتھ مل کر محل کو آگ لگائی جس سے شری بدت کا خاتمہ ہوگیا اور قاتل آذرشمشیر شری بدت کی بیٹی سے شادی کرکے خود گلگت کا حکمران بن گیا۔
مقامی روایت کے تحت بیان کی گئی اس کہانی کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے شری بدت اور آذر جمشید یا آذرشمشیر دونوں کو دیو مالائی مخلوق کے طور پر پیش کیا گیا ہے آذر جمشید کو پری زاد اور شری بدت کو بدروح اور آدم خور کہا گیا ہے۔لیکن اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے چونکہ دنیا کی ہر تہذیب میں اساطیری یا دیومالائی قصے کہانیاں ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہیں جن میں انوکھی مخلوقات، پریاں اور دیوی دیوتا ہوتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آذر جمشید کے حوالے سے آج بھی ہمالیہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑوں کے دامن میں آباد کچھ افراد خود کو اس کی نسل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔مثال کے طور پر یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کی پروفیسر صدف منشی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ہنزہ کے راجہ جمشید علی خان نے خود کو شری بدت کی بیٹی کے نسل سے ہونے کا ذکر کیا ۔