حلب کا ابو الورد۔۔ بمباری میں پھولوں کی خوشبو باٹنے والا
شام کا شہر حلب بمباری سے تباہ ہوچکا ہے، اس کے قلب و جگر سے آہیں پھوٹ رہی ہیں۔
مگراِن سب تاریک پہلوؤں کے ساتھ ساتھ ایک ایسا رْخ بھی دکھانے لگی ہوں جو بہت ہی اْمید افزا ء ہے۔ یہ اْمید کی وہ کرنیں ہیں جو گھْپ اندھیروں میں کہیں کہیں چمک کر حوصلہ بڑھاتی ہیں۔ جو انسانیت کے زندہ ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔ جو کہتی ہیں کہ جب تک کرہ ارض پر ایسے لوگ موجود ہیں اْس وقت تک مایوس ہونے کی ضرور ت نہیں۔ یہ نئی نسل کے وہ نوجوان ہیں جو شب وروز اپنے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ وہ کہیں ٹینٹ، کہیں تباہ شدہ عمارتوں، کہیں درختوں کے نیچے، کہیں کھْلے میدانوں میں تنبو قناتوں میں اسکولوں میں بچوں کو پڑھاتے اور کہیں انہیں قطرے پلاتے ہیں۔
حلب کا ابوالوردبھی ایسا ہی کردارتھا۔مشرقی حلب کے عین مرکزی حصّے میں جو تہذیبوں کا مرکز ہے۔جہاں سڑکیں ایک دوسرے کوکاٹتی ہیں جہاں چوراہے ہیں، وہیں گزشتہ پانچ سالوں سے وہ جنگ کے خلاف کھڑا رہا۔کلسٹر اور بیرل بموں کی آگ اور خون،موت اور تباہی کے ریگستان پر زندگی کی، روشنی کی،آس امید کی بھینی بھینی خوشبوئیں دیتے پھولوں کے نخلستان کی آبیاری میں مصروف رہا۔ اگر دنیا شہر کو اپنے مہلک سازوسامان کے ساتھ تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے تو وہیں ایک عام سا معمولی آدمی بھی اپنے اِن چھوٹے چھوٹے معمولی سازوسامان سے مقابلہ کرنے پر کمربستہ ہوجاتا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ میری یہ کچی پکی دیواروں میں گھری، مٹی کی سوندھی خوشبو میں بسی پھولوں اور پودوں سے سجی جگہ بلین ڈالروں سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔اس کا تیرہ سالہ بیٹاابراہیم اس کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ پھول اْگاتا تھا،سبزیاں، سلاد کے پتے، زیتونNuts پیدا کرتا تھا۔ پھر انہیں بہت معمولی قیمت پر اْن لوگوں کو فراہم کردیتا جو گھروں میں محصور تھے۔ جن کے مرد باہر چلے گئے تھے یا مارے گئے تھے۔
پانی کی کمی ،خوراک کی کمی ،بمباری کا لامتناہی سلسلہ ،ایسے میں اس کا وجود ایک معجزہ لگتا تھا۔روشنی کی ایک کرن دِکھتا تھا۔زندگی کے حسن کا ایک ستارہ محسوس ہوتا تھا۔وہ حیران ہوتا کہ آخر انسان اتنا وحشی کیوں ہوجاتا ہے؟اپنے اقتدار کے لئے اتنی دیوانگی۔وہ انقلاب چاہتا تھا۔ایسا انقلاب جہاں عام آدمی اپنے بل بوتے پر اوپر جاسکے۔وہ بمباری کے دوران پناہ لیتا تھا اور ختم ہونے پر باہر نکلتا تھا۔یہی وہ لوگ ہیں جن ہوں نے پھر سے سرزمین کو گل گلزار بنانا ہے۔
جنگ شروع ہوئی تھی تب ابراہیم آٹھ سال کا تھا۔سکول جاتا تھا۔سکول کھنڈر بننے لگے تو وہ باپ کے ساتھ پھول اگانے لگ گیا۔دونوں باپ بیٹا گلاب کے سْرخ پھولوں کے ساتھ چوک میں کھڑے ہوتے تو پانچ لاکھ آبادی والا شہر جہاں صرف ڈھائی لاکھ لوگ بچے تھے جو گاڑیوں،موٹر سائیکلوں،پیدل چلتے ہوئے اِن خوشنما پھولوں کو دیکھ کر جیسے جی اٹھتے انہیں محسوس ہوتا کہ زندگی ابھی باقی ہے اوراْس کا حْسن بھی باقی ہے۔ اْس کی مسحور کن خوشبو زندگی کی پیامبرہے۔
پرمیں کیا بتاؤں۔کیا لکھوں کہ وہ جو سارے شہر میں امیدیں بانٹتا پھرتاتھا۔ وہ جو حلب کی امید تھا۔بیرل بم نے اْسے بھی شکار کرلیا۔اس کے باغ کے قریب بم پھٹا اور وہ ختم ہوگیا۔ معصوم سے ابراہیم نے میرے گلے لگ کر اتنے آنسو بہائے کہ میرے پاس تسلی بھرے لفظوں کا کال پڑ گیا۔ میں تو اْس عظیم انسان کے لئے کھل کر پْرسہ بھی نہ دے سکی۔ اس کی ہنستی مسکراتی تصویر میرے دل میں آویزاں ہے۔ مجھے حوصلہ دیتی ہے۔شاید ابوالورد جیسے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا میں پھولوں کی خوشبو مہک رہی ہے ۔