ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ ساکہیں جسے،محمد رفیع ۔۔فلمی دنیا نے تم سا نہیں دیکھا
1952 ء میں ہندوستان میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ''بیجوباورا‘‘ اس فلم کی موسیقی نوشاد صاحب نے مرتب کی تھی اور اس کے شاہکار گیت شکیل بد ایونی نے تحریر کئے تھے۔ اس سے پہلے نوشاد صاحب استاد بڑے غلام علی خان سے محمد رفیع کا ذکر کر چکے تھے، لیکن انہوں نے رفیع صاحب کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ لیکن جب استاد بڑے غلام علی خان نے ''بیجوباورا‘‘ کے گیت سنے تو وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ اس فلم کے ان گیتوں نے تو استاد بڑے غلام علی خان پر سحر طاری کردیا۔ ان گیتوں کا ذکر ذیل میں کیا جارہا ہے۔
1-اے دنیا کے رکھوالے،2 من تڑپت ہری درشن کو آج،3-تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا
ان گیتوں میں رفیع صاحب نے جس خوبصورتی سے کلاسیکل گائیکی میں بھی اپنے فن کا چراغ جلایا ، اس کی مثال کمی ہی ملتی ہے۔ استاد بڑے غلام علی خان نے نوشاد صاحب سے کہا کہ وہ محمد رفیع سے ملاقات کے آرزو مند ہیں۔ جب رفیع صاحب کو علم ہوا تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ وہ مٹھائیوں کے ٹوکرے لے کر استادمحترم کے پاس پہنچ گئے۔ استاد محترم نے انہیں چاندی کا روپیہ دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ استاد نے انہیں ایک مستند گائیک تسلیم کرلیا ہے۔ اس سے پہلے وہ میڈم نور جہاں اور لتا منگیشکر کو بھی چاندی کا روپیہ دے چکے تھے۔ محمد رفیع کو 1947ء میں ریلیز ہونے والی شوکت حسین رضوی کی فلم ''جگنو‘‘ سے بریک مل چکا تھا۔ اس فلم میں انہوں نے میڈم نور جہاں کے ساتھ ایک دوگانا بھی گایا تھا جو سپر ہٹ ہوا تھا۔ اس دوگانے کے بول تھے''یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘‘۔محمد رفیع نے ''جگنو‘‘ میں مہمان اداکار کے طورپر بھی کام کیا تھا۔
محمد رفیع 24 دسمبر 1924ء کو ضلع امرتسر کے گائوں کوٹلہ سلطان سنگھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حاجی علی محمد تھا۔ چھ بھائیوں میں سے ان کا نمبر دوسرا تھا۔ 1935ء میں محمد رفیع کے والد لاہور آگئے اور بھاٹی گیٹ میں کام کرنے لگے۔ محمد رفیع نے کلاسیکی موسیقی استاد عبدالواحد خان،پنڈت جیون لال مٹو اور فیروز نظامی سے سیکھی۔13 برس کی عمر میں لاہور میں انہوں نے عوام کے سامنے گائیکی کا مظاہرہ کیا۔ اس تقریب میں کے ایل سہگل بھی موجود تھے۔1944ء میں انہوں نے سب سے پہلے زینت بیگم کے ساتھ پنجابی فلم''گل بلوچ‘‘ کیلئے یہ دوگانا گایا''سونئے نی ہیرئے نی‘‘ اس کی موسیقی شیام سندر نے ترتیب دی تھی۔ اسی سال آل انڈیا ریڈیو سٹیشن نے انہیں گانے کی دعوت دی۔1945ء میں انہوں نے اپنی پہلی ہندی فلم'' گائوں کی گوری‘‘ کیلئے گیت گایا۔ ممبئی میں مشہور نغمہ نگار تنویر نقوی نے محمد رفیع کا تعارف نامور فلمسازوں سے کرایا، جن میں عبدالرشید کاردار ، محبوب خان ، اور اداکار و ہدایتکار نذیر شامل ہیں۔ شیام سندر بھی ممبئی میں تھے۔ انہوں نے محمد رفیع اور جی ایم درانی سے ایک دوگانا گوایا جس کے بول تھے۔''اجی دل ہوقابو میں تو دلدار کی ایسی تیسی‘‘ نوشاد صاحب نے جو ان سے جو پہلا گیت گوایا اس کے بول تھے'' ہندوستان کے ہم ہیں‘‘ اس میں ان کے ساتھ شیام کمار ، علائو الدین اور دوسرے بھی شامل تھے۔ یہ گیت اے آر کاردار کی فلم ''پہلے آپ‘‘ کیلئے گایا گیا۔
''جگنو‘‘ سے پہلے وہ فلم ''لیلیٰ مجنوں‘‘ 1945ء میں بھی سکرین پر نمودار ہوئے۔ انہوں نے نوشاد صاحب کیلئے کئی کورس گائے جن میں ان کا ساتھ کے ایل سہگل نے دیا۔ ان میں1946 میں ریلیز ہونے والی فلم ''شاہ جہاں‘‘ بھی شامل تھی جس میں یہ کورس شامل تھے۔''میرے سپنوں کی رانی‘‘ ،''روحی ، روحی‘‘ 1946ء میں محبوب خان کی فلم ''انمول گھڑی‘‘ کیلئے انہوں نے یہ انمول گیت گایا''تیرا کھلونا ٹوٹا بالک‘‘ اس کے بعد 1947ء میں میڈم نور جہاں کے ساتھ ان کا دوگانا بڑا مشہور ہوا جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد رفیع صاحب نے بھارت میں قیام کو ترجیح دی، میڈم نور جہاں پاکستان آگئیں۔1949ء میں موسیقاروں نے رفیع صاحب سے سولو گیت گوائے۔ ان موسیقاروں میں نوشاد صاحب ، شیام سندر اور حسن لال بھگت رام شامل تھے۔ محمد ر فیع کے پسندیدہ گلوکارکے ایل سہگل تھے۔ ان کے علاوہ وہ جی ایم درانی سے بھی بہت متاثر تھے۔ وہ پہلے درانی کے سٹائل میں گاتے تھے بعد میں وہ اپنے انداز میں گانے لگے۔ انہوں نے درانی کے ساتھ بھی کچھ نغمات بھی گائے جیسے ''ہم کو ہنستے دیکھ زمانہ جلتا ہے‘‘ اور ''خبر کسی کو نہیں وہ کدھر دیکھتے ‘‘ (فلم بے قصور1950ء) 1948ء میں رفیع صاحب کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے گائیکی کے لئے اپنے گھر بلایا تھا۔ 1948ء میں ہی بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر پنڈت نہرو نے انہیں سلور میڈل سے نوازا۔
50ء اور60ء کی دہائی میں محمد رفیع نے بھارتی فلم صنعت پر راج کیا، انہوں نے نوشاد صاحب کے علاوہ جن موسیقاروں کے ساتھ کام کیا ان میں مدن موہن ، ایس ڈی برمن ، لکشمی کانت پیارے لال ، کلیان جی آنند جی، روی ،شنکر جے کشن اور او پی نیئر کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ آرڈی برمن نے بھی ان سے خاصے گیت گوائے لیکن انہوں نے 70ء کی دہائی میں کشور کمار سے زیادہ گیت گوائے۔ اصل میں آر ڈی برمن، کشور کمار اور راجیش کھنہ کی ایک تکون بن گئی تھی۔ محمد رفیع صاحب اس لئے منظر عام سے غائب ہوگئے۔ آرڈی برمن کو پہلا بریک'' تیسری منزل‘‘ سے ملاتھا جس میں رفیع صاحب نے بڑے دلکش گیت گائے تھے اور اس فلم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ رفیع صاحب کے خلاف سازش کی گئی تھی اور انہیں گلوکاری کے میدان سے ہٹانے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی ۔ لیکن پھر بھی جہاں کوئی مشکل گیت ہوتا تھا ، رفیع صاحب کو ہی یاد کیا جاتا۔ 1964ء میں راجکپور نے اپنی فلم ''سنگم‘‘ کا ایک گیت رفیع صاحب سے گوایا تھا کیونکہ وہ گیت کوئی اور نہیں گا سکتاتھا۔ راجکپور نے ہمیشہ مکیش کو ترجیح دی تھی۔ وہ سمجھتے تھے کہ مکیش کی آواز ان کے لئے بہت مناسب ہے۔ بہر حال شنکر جے کشن نے یہ گیت رفیع صاحب سے گوایا جو سپر ہٹ ہوگیا۔ رفیع صاحب کی آواز جن اداکاروں کیلئے بہت مناسب خیال کی جاتی تھی ان میں دلیپ کمار ، دیوآنند، شمی کپور، راجندر کمار، جے مکر جی خاص طورپر قابل ذکر ہیں، شمی کپور کی مقبولیت کا ایک راز یہ بھی تھاکہ ان پر رفیع صاحب کے شاندار گانے عکس بند ہوئے تھے۔ بلکہ شمی کپور کی اپنی خواہش بھی یہ ہوتی تھی کہ ان پر رفیع صاحب کے گائے گیت فلمبند کئے جائیں۔ اسی طرح راجندر کمار پر بھی رفیع صاحب کے بڑے دلکش گیت فلمبند کئے گئے۔
رفیع صاحب نے طربیہ اور المیہ گیت بڑی تعداد میں گائے۔ اس کے علاوہ انہیں کورس گانے میں بھی مہارت حاصل تھی انہوں نے غزلیں بھی گائیں اور بھجن بھی گائے۔انہوں نے شکیل بدایونی ، ساحر لدھیانوی ، آنند بخشی، مجروح سلطانپوری ، اسد بھوپالی، گلزار ، راجندر کرشن اور اندیور کے لکھے ہوئے گیتوں کو بڑی خوبصورتی سے گایا۔ 50ء اور 60ء کی دہائی میں دیو آنندپر بھی زیادہ تر رفیع صاحب کے گائے ہوئے گیت عکس بند کئے جاتے تھے اور ان میں بے شمار گیت سپر ہٹ ہوئے۔محمد رفیع نے لتا منگیشکر ، آشابھونسلے، گیتادت اور ثمن کلیان پور کے ساتھ سب سے زیادہ گیت گائے۔ لتا منگیشکر کے ساتھ انہوں نے بہت گایا۔ لکشمی کانت پیارے لال نے440 دوگانے رفیع صاحب اور لتا منگیشکر سے گوائے۔ ایس ڈی برمن اور او پی نیئر نے ان کی آواز کو بڑی خوبصورتی سے استعمال کیا۔ او پی نیئر نے ایک بار کہا تھا کہ اگر محمد رفیع نہ ہوتا تو پھر اوپی نیئر بھی نہ ہوتا۔ محمد رفیع ، آشا بھونسلے اور او پی نیئر نے شاہکار گیت تخلیق کئے۔ ان کی فلموں میں ''نیا دور‘‘(1957ء) ، ''تم سا نہیں دیکھا‘‘(1957ء) ، ''ایک مسافر ایک حسینہ‘‘ (1962ء) اور ''کشمیر کی کلی‘‘ شامل ہیں۔ رفیع صاحب نے ''برہمچاری‘‘ کے لئے شنکر جے کشن کی موسیقی میں روک این رول (Rock`n Roll) گایا۔ اس زمانے میں یہ موسیقی کی جدید قسم تھی جسے مغرب میں ایلوس پریسلے نے متعارف کرایا تھا۔ مذکورہ بالا موسیقاروں کے علاوہ رفیع صاحب نے اوشا کھنہ، سانک روی، ایس ابن تری پاٹھی اور این دتا کے ساتھ بھی کام کیا۔ رفیع صاحب کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ فلمسازوں کے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے۔ معاوضے کے معاملے میں ان کا کسی سے جھگڑا نہیں ہوا۔ جتنا کسی نے دے دیا انہوں نے قبول کرلیا۔ وہ عاجزی اور انکساری کا مجسمہ تھے۔انہوں نے کبھی رائلٹی کا مطالبہ بھی نہیں کیا۔ حالانکہ اس مسئلے پر ان کا دیگر گلوکاروں سے جھگڑا بھی ہوا اور وہ ان سے ناراض ہوگئے۔ آج بھی بھارتی میڈیا محمد رفیع کو ہندوستان کا سب سے سریلا گلوکار تسلیم کرتا ہے۔ویسے تو رفیع صاحب کے گائے ہوئے شاہکار گیتوں کی تعداد ان گنت ہے لیکن ہم ذیل میں قارئین کیلئے ان کے کچھ لازوال گیتوں کا ذکر کر رہے ہیں۔
1-اے دنیا کے رکھوالے۔ 2-کھویا کھویا چاند۔ 3-یاد نہ جائے۔ 4-سوبار جنم لیں گے۔5-بار بار دیکھو۔6-ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے۔7-تیرے بن سونے نین ہمارے۔8-مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے۔9-ہوئے ہم جن کے لئے برباد۔10-دل میں چھپا کے پیار کا۔11-مانگ کے ساتھ تمہارا۔12 - نین لڑ گئے رے۔13-ہم توچلے پردیس ۔14-چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے۔15-آج پرانی راہوں سے۔اس کے علاوہ ان کے بے شمار دوگانے اور کورس بھی انتہائی مقبول ہوئے۔ انہیں پدما شری کے علاوہ کئی فلم فیئر ایوارڈ اور نیشنل ایوارڈ بھی دیئے گئے۔31 جولائی 1980ء کو یہ عظیم گلوکار55 برس کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگیا۔ان جیسا کوئی دوسرا گلوکار اب شاید کبھی نہ آئے۔