دنیا کے سب سے بڑے برفانی تودے کا جنم
اس سال اوائل جنوری میں جب امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کو خلا میں چھوڑے ہوئے اپنے خلائی جہاز نے یہ ہولناک اطلاع بھجوائی کہ دنیا کے سب سے بڑے آئس لینڈ انٹارکٹیکا کا بہت بڑا ٹکڑا جو سائز میں بقول ناسا مین ہٹن سے 30 گنا بڑا اور پیمائش کے لحاظ سے 660 مربع میل حجم پر مشتمل ہے کسی بھی وقت انارکٹیکا سے جڑی برف سے علیحدہ ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت اور کہیں بھی پریشان کن صورت حال پیدا کر سکتا ہے۔ناسا کے خلائی جہازوں نے اپنے زمینی مرکز کو جو تصاویر بھجوائیں وہ ناسا کیلئے تشویش کا باعث تھیں وہ یوں کہ برف کے ان جہازی سائز گلیشئرز میں پڑی دراڑیں اب یہ پیغام دے رہی تھیں کہ اس کا شمالی حصہ اب الگ ہونے کے قریب ہے اور کسی بھی وقت اپنے مرکز سے علیحدہ ہو سکتا ہے۔اور یہی نقطہ ناسا کے ماہرین کے لئے باعث تشویش تھا۔
ناسا جو ہمہ وقت خلائی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتا ہے نے ایک رپورٹ میں آج سے کچھ عرصہ قبل اس خدشے کا اظہار کیا تھا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ انٹارکٹیکا گلیشئرز کی یہ دراڑیں جو 1986 سے پڑنا شروع ہوئی تھیں کسی بھی وقت اپنے مرکز سے الگ ہو سکتی ہیں۔
ناسا اور دوسری خلائی ایجنسیوں کے اندازے درست ثابت ہوئے۔ یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے بدھ 19 مئی 2021 یعنی دو روز قبل ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق انٹارکٹیکا کے منجمد کنارے سے برف کا ایک بڑا ٹکڑا الگ ہو کر ویڈیل کے سمندری علاقے میں آگیا ہے جس سے دنیا کے ایک سب سے بڑے آئس برگ یعنی برفانی تودے کا جنم ہوا ہے۔
ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اس منفرد آئس برگ بارے بتایا ہے کہ سائنسی طور پر اس برفانی تودے کو اے۔76 کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا سائز سطح سمندر پر تقریباً 4320 مربع کلومیٹر بتایا گیا ہے۔ جبکہ اس کی لمبائی 175 کلو میٹر اور چوڑائی 25 کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ اس طول وعرض کی بنا پر برف کا یہ تودہ اسپین کے معروف جزیرے میجروکا سے بھی کہیں بڑا ہے۔
انٹارٹیکا میں اگرچہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی دنیا کے آخری سب سے بڑے آئس برگ نے انٹارکٹیکا کے لارسن سی گلیشئرز سے 2010 سے علیحدہ ہونا شروع کیاتھا اور جولائی 2017 میں اس سے مکمل طور پر علیٰحدہ ہو گیا تھا۔ سائنسدانوں کے مطابق اس کا وزن اندازاً ایک کھرب ٹن سے زیادہ اور اس کا حجم 2239 مربع میل تھا۔
جہاں تک اے 76 کا تعلق رون آئس شیلف سے الگ ہونے کا ہے تو سب سے پہلے برطانوی انٹارکٹیکا سروے نامی ادارے نے اس کا پتہ لگایا تھا۔ برف سے متعلق امریکی ادارے '' نیشنل آس سینٹر ‘‘نے بھی خلائی ادارے کی مدد سے لی جانے والی تصاویر کے حوالے سے اس کی تصدیق کی ہے۔
ویڈیل کے سمندر میں ہی اے 23(A23) نامی ایک برفانی تودہ پہلے سے ہی تیر رہا ہے۔ تاہم برف کا یہ نیا جہازی سائز ٹکڑا اس سے کئی گنا زیادہ بڑا ہے۔اے 23 حجم کے اعتبار سے تقریباً 3380 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ اس نئے برفانی تودے کا سائز 4250 مربع کلومیٹر سے بھی بڑا ہے۔
اس سمندری علاقے میں متعدد بہت بڑی تیرتی ہوئی برف کی چادروں میں سے '' رون آئس شیلف ‘‘ ایک ہے جو براعظم انٹارکٹیکا کی سرزمین سے ملتی ہیں اور اس کے آس پاس کے سمندروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔اس علاقے میں بڑے برفانی ٹکڑوں کا اپنی شیلف سے الگ ہونا اگرچہ معمو ل کا عمل ہے تاہم بعض شیلف کے اندر گزشتہ چند برسوں کے دوران اس طرح کی ٹوٹ پھوٹ میں اضافہ معمول سے ہٹ کر دیکھا گیا ہے۔
انٹارکٹیکا بارے بنیادی معلومات : انٹارکٹیکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے جہاں قطب جنوبی واقع ہے۔ یہ دنیا کا سرد ترین , خشک ترین اور ہوادار براعظم ہے۔ اس کی اوسط بلندی تمام براعظموں سے زیادہ یعنی 14425 ملین مربع کلو میٹر ہے۔انٹارکٹیکا کا 98 فیصد حصہ مسلسل برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ جس کے باعث وہاں کوئی باقاعدہ آبادی یا انسانی بستی نہیں بس سکی۔ بلکہ صرف سائنسی مقاصد کے لئے وہاں مختلف ممالک کے سائنس دان قیام پذیر ہوتے ہیں۔ پاکستان نے بھی مشرقی انٹارکٹیکا میں تحقیق کی غرض سے 1991 سے ایک تحقیقاتی اسٹیشن " جناح انٹارکٹیکا اسٹیشن " قائم کر رکھا ہے۔سائنسدانوں کی تعداد موسم گرما میں 5 ہزار سے کچھ زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ سردیوں میں یہ تعداد لگ بھگ ایک ہزار رہ جاتی ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہاں بیس لاکھ سالوں سے بارش ہی نہیں ہوئی۔اس کے باوجود بھی دنیا کے میٹھے پانی کے 80 فیصد ذخائر اسی براعظم میں پائے جاتے ہیں۔ماہرین کہتے ہیں اگر یہ سب پگھل جائیں تو سطح سمندر 200 فٹ تک بلند ہو جائے گی۔
انٹارکٹیکا کی بلند ترین چوٹی کا نام ونسن ماسف ہے۔اور اس کی بلندی 16ہزار فٹ سے زائد ہے۔ یہ دنیا کے سرد ترین مقام کی شہرت بھی رکھتا ہے۔یہاں کم سے کم درجہء حرارت منفی 80اور منفی 90 ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔جبکہ موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ درجہء حرارت 5 اور 15 ڈگری کے درمیان رہتا ہے۔