دلچسپ حقائق

دلچسپ حقائق

اسپیشل فیچر

تحریر :


ظاہر اور باطن
ایک اسلامی ملک کی اہم شخصیت علامہ اقبال کی مہمان تھی۔ اس کے اعزاز میں دعوت کے موقع پر چوہدری صاحب نے علامہ اقبال سے سرگوشی کے انداز میں کہا: ''آج مذاق سے باز رہنا‘‘۔
جب معزز مہمان کا حاضرین سے تعارف کروایا جانے لگا تو چوہدری شہاب الدین کی باری پر علامہ اقبال نے کہا: ''یہ ہیں ہمارے دوست چوہدری شہاب الدین، منافقت کے اس دور میں مخلص اور صاف باطن کے مسلمان ہیں۔ ان کا ظاہر اور باطن ایک جیسا ہے‘‘۔ یہ سُننا تھا کہ تقریب میں شریک تمام لوگ بے اختیار ہنس پڑے۔
سکندراعظم کی لات
ڈیماستھز یونان کا مشہور خطیب تھا۔ جب سکندراعظم نے ایتھنز فتح کیا تو دیکھا کہ ڈیماستھز کہیں دور پڑا ہوا ہے۔ سکندراعظم نے اُسے ایک لات ماری۔ اس نے سکندراعظم سے پوچھا:
''تم کون ہو؟‘‘
سکنداعظم نے فخر سے کہا: ''میں بادشاہ یونان ہوں‘‘۔
ڈیماستھز نے کہا: ''ہاں ممکن ہے کہ آپ یونان کے بادشاہ ہوں مگر لات مارنا تو گدھے کا کام ہوسکتا ہے‘‘۔
کم عمر ترین گوریلا لیڈر
میانمار (برما) کے گوریلا نسلی گروپ ''خدا کی فوج‘‘ (God's Army) کے لیڈر 12 سالہ جڑواں بھائی ہیں۔ یہ دونوں جڑواں بھائی جانی (Johnny) اور لوتھر ہتو (Luther Htoo) میانمار حکومت کو مطلوب ہیں۔ 24 جنوری 2000ء کو ان دونوں بھائیوں نے رچابوری (تھائی لینڈ) کے ایک ہسپتال میں 700 افراد کو 24 گھنٹے تک یرغمال بنائے رکھا۔
سول نافرمانی کا سب سے لمبا مارچ
سول نافرمانی کا سب سے لمبا مارچ 12 مارچ 1930ء کو موہن داس کرم چند گاندھی نے انگریز سرکار کے خلاف شروع کیا۔ اس کا مقصد انگریزوں کی طرف سے نمک پر ٹیکس عائد کرنے کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔ گاندھی نے اپنے 78 حامیوں کے ساتھ 241 میل لمبا پیدل مارچ کیا۔ یہ مارچ سابرمتی آشرم سے شروع ہوا اور 5 اپریل 1930ء کو ڈانڈی (گجرات) میں ختم ہوا۔
دُنیا کے مقبول ترین قوال
نصرت فتح علی خان کو قوالی کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے۔ 1997ء میں اپنی وفات تک نصرت فتح علی خان کے قوالی کے 125البم مارکیٹ میں آچکے تھے۔ اُنھوں نے دُنیا کے متعدد ممالک میں فن کا مظاہرہ کر کے غیرملکیوں کو اپنا گرویدہ بنالیا۔ جاپانی خاص طور پر ان کے زبردست مداح تھے۔ 1995ء میں امریکہ کے ایک کنسرٹ میں انھیں زبردست پذیرائی ملی۔
برائے نام 4لاکھ سرکاری ملازم
جنوری 1985ء میں افریقی ملک کینیا کے سرکاری تحقیقاتی کمیشن نے ایک عجیب انکشاف کیا کہ ملک کے 4لاکھ سرکاری ملازمین کوئی وجود نہیں رکھتے مگر ان کی تنخواہ ہر ماہ باقاعدگی سے سرکاری خزانے سے وصول کی جاتی ہے۔ کینیا میں اکائونٹنگ کے پیچیدہ نظام کے باعث ان جعلی ملازمین کو نہ پکڑا جا سکا حالانکہ اس سلسلے میں پولیس کی طرف سے کئی کوششیں کی گئیں۔
سانپوں کی اقسام
دُنیا میں سانپ کی تین ہزار نسلیں پائی جاتی ہیں، جن کو دس بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ''اندھا سانپ‘‘ یا ''کیچوا سانپ‘‘ کی ایک سو اسّی قسمیں ہوتی ہیں۔ یہ سانپ کیچوے کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے جسم کی لمبائی دس سے پندرہ سینٹی میٹر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کا جسم ملائم، چمکدار چانوں سے ڈھکا ہوتا ہے۔ اس کا رنگ سُرخی مائل بھُورا یا کالا ہوتا ہے۔ یہ سانپ اندھے ہوتے ہیں اور صرف روشنی اور اندھیرے میں تمیز کر سکتے ہیں۔ یہ ساری زندگی زیرزمین رہتے ہیں اور چیونٹی کے انڈے، دیمک کے انڈے اور کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں۔ اس سانپ کی مادہ اپریل سے لے کر مئی تک تین سے آٹھ انڈے دیتی ہے۔ ڈیڑھ سے دو ماہ میں ان انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں۔ یہ زمین میں سوراخ بنا کے اس میں رہتا ہے۔ یہ سانپ نوانچ سے لے کر دو فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے اور خاص طور پر دیمک کھاتے ہیں۔ یہ دُنیا کے گرم علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے تمام دانت اُوپر والے جبڑے میں ہوتے ہیں۔ اس سے ملتے جلتے سانپ ''ڈوری سانپ‘‘ کی چالیس قسمیں ہوتی ہیں۔ ان کے دانت فقط نچلے جبڑے میں ہوتے ہیں اور یہ بھی دُنیا کے گرم ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔
دلچسپ مقدمہ
دسمبر 1985ء میں لاہور ہائی کورٹ کے ایک ڈویژنل بنچ نے ایک مقدمہ قتل میں 19سال قبل بری ہونے والے ملزم شہریار کے خلاف حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے اسے سزائے عمر قید کا حکم سنایا۔ ملزم شہریار کے خلاف 1966ء میں ایک شخص عبدالعزیز کو قتل کرنے کے الزام میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ 1967ء میں ایڈیشنل سیشن جج جھنگ نے ملزم کو اس مقدمہ سے بری کر دیا تھا جس کے خلاف حکومت کی جانب سے اپیل دائر کی گئی جس کی سماعت فاضل عدالت عالیہ میں دسمبر 1985ء میں 19سال بعد ہوئی۔ ملزم کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ فاضل عدالت نے مقدمہ کے مدعی محمد طفیل کے وکیل اور سرکاری وکیل کی سماعت کے بعد 19سال قبل بری ہونے والے ملزم کو سزائے عمرقید کا حکم سنا دیا۔
بنچ پر نام لکھنے کی سزا
مارچ 2003ء میں رڈنگ (برازیل) کی عدالت میں ضمانت کے لئے آنے والے 43 سالہ شخص کو بنچ پر اپنا نام کھودنے پر جیل بھیج دیا گیا۔ آوارڈو ریویرا پر چوری کا مال خریدنے کا الزام تھا اور وہ اپنی ضمانت کے لئے کمرہ عدالت میں اپنی باری کا منتظر تھا۔ ریویرا کو ہر جگہ اپنا نام لکھنے کی بری عادت تھی چنانچہ وہ عدالت میں بھی فارغ نہ بیٹھ سکا اور اپنے سامنے پڑے بنچ پر اپنا نام کھودنا شروع کر دیا۔ عدالت میں موجود پولیس افسر نے جب اسے کام میں مصروف دیکھا تو چپکے سے اس کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ پولیس افسر نے وہیں جج کو بتایا کہ پہلے مقدمے میں ضمانت کے لئے آنے والا کمرئہ عدالت میں جرم کا مرتکب ہو رہا ہے جبکہ جرم کا ثبوت بھی موجود ہے جس پر جج نے حکم دیا کہ ضمانت کی بات تو بعد میں ہو گی پہلے ریویورا کو سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے جرم میں پیش کیا جائے۔ لہٰذا پولیس نے ریویرا کو ہتھکڑی لگائی اور جیل بھیج دیا۔
سب سے پہلا پاکستانی بینک
قیام پاکستان کے بعد پہلا کاروباری بینک ''مسلم کمرشل بینک‘‘ (MCB) تھا، جس کا قیام 9جولائی 1947ء کو کلکتہ (بھارت) میں عمل آیا۔ قیام پاکستان کے بعد 17اگست 1948ء کو اسے ڈھاکہ (مشرقی پاکستان) منتقل کر دیا گیا۔ اس اعتبار سے پاکستان میں قائم ہونے والا یہ پہلا بینک ہے۔ 23اگست 1956ء کو اس کا مرکزی دفتر کراچی میں قائم کیا گیا۔ یکم جنوری 1974ء کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی عوامی حکومت نے بینکوں کو قومی تحویل میں لینے کا اعلان کیا تو یہ بینک بھی حکومتی تحویل میں آگیا۔ نیز اس میں پریمیئر بینک لمیٹڈ کو بھی ضم کر دیا گیا۔ جنوری 1991ء میں نجکاری کے بعد اسے نجی شعبے میں دے دیا گیا۔
تین پائوں والا شخص
میکسیکو کے ایک شخص جوزلوپیز (Jose Lopez) کے تین پائوں تھے۔ اس کا ایک ہی ٹخنہ اور چار انگلیاں تھیں۔ یہ تیسرا پائوں اس کی بائیں ٹانگ کے ٹخنہ کے ساتھ ہی قدرت نے جوڑ رکھا تھا۔
معمر ترین میراتھن کھلاڑی
٭ مردوں میں عمر رسیدہ ترین میراتھن کھلاڑی ہونے کا اعزاز یونان کے ڈائمٹر یون یور داندس (Dimitrion Yordandis) کے پاس ہے۔ اس نے 98 برس کی عمر میں 10 اکتوبر 1976ء کو ایتھنز (یونان) میں یہ ریکارڈ قائم کیا اس کا دورانیہ 7 گھنٹے 33 منٹ تھا۔
٭ عورتوں میں دنیا کی عمر رسیدہ ترین میراتھن کھلاڑی ہونے کا اعزاز جینی وڈایلن کے پاس ہے جس کا تعلق ڈونڈی (سکاٹ لینڈ) سے تھا۔ 1999ء میں جب جینی نے انگلینڈ میراتھن ختم کی تو اس کی عمر 87 سال جبکہ دورانیہ 7 گھنٹے 15 منٹ تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
گیدڑ سنگھی

گیدڑ سنگھی

آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ 

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس کی جھوٹی پیشگوئیاں

بل گیٹس مائیکروسافٹ کمپنی کے چیئر مین اور دنیا کے امیر ترین شخص ہیں۔ان کا پورا نام ولیم ہنری گیٹس ہے۔ بل گیٹس 1955ء میں واشنگٹن،امریکہ کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔اس دور میں آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا۔ محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامنگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ آج بل گیٹس کا شمار دنیا کی ان شخصیات میں ہوتا ہے جنہیں سننا لوگ پسند کرتے ہیں اور جن کی کہی باتیں دنیا پر اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس وقت دنیا کے امیر ترین انسان ہونے کا اعزاز مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس کے پاس ہے۔ عام طور پر انہیں بہت ذہین، زیرک اور دانشمند سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز بھی آپ کی بات کو غلط ثابت کرنے سے نہیں روک سکتے۔ آپ نے گیٹس کے اقوال زریں تو بہت پڑھے ہوں گے، آئیے آپ کو ان کی وہ باتیں بھی بتاتے ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں اور ظاہر کیا کہ دنیا کا امیر ترین شخص بھی غلط بات کر سکتا ہے۔بل گیٹس نے 1994ء میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بات کہی تھی کہ ''مجھے اگلے 10 سالوں تک انٹرنیٹ میں کوئی کمرشل صلاحیت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کا ذکر 2005ء کی ایک کتاب میں کیا گیا ہے۔آج دیکھ لیں انٹرنیٹ کیا اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ کوئی بھی شخص اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کمرشل کے ساتھ ساتھ گھریلو طور پر بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔''جدید سافٹ ویئر میکنٹوش پر آئیں گے، آئی بی ایم پی سی پر نہیں‘‘ بل گیٹس نے یہ بات 1984ء میں بزنس ویک کیلئے ایک مضمون میں لکھی تھی۔اس وقت بل گیٹس اور ایپل کے اسٹیو جابز کے درمیان بڑی یاری تھی، لیکن جیسے ہی مائیکروسافٹ نے آئی بی ایم پی سی کیلئے ونڈوز جاری کی، اس تعلق کا خاتمہ ہو گیا۔ونڈوز کے مشہور ہونے سے پہلے مائیکرو سافٹ نے آئی بی ایم کے ساتھ مل کر ایک آپریٹنگ سسٹم او ایس2 تخلیق کیا تھا۔ اس وقت، یعنی 1987ء میں، گیٹس نے کہا تھا کہ ‘‘میرے خیال میں او ایس2 سب سے اہم آپریٹنگ سسٹم ہوگا اور تاریخ کا سب سے شاندار پروگرام بھی‘‘۔لیکن یہ آپریٹنگ سسٹم نہ چلا۔ جب 1990ء میں ونڈوز 3.0 نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا تو مائیکروسافٹ کو آئی بی ایم کی ضرورت بھی نہیں رہی اور وہ او ایس2 کو یتیم چھوڑ گیا۔ آئی بی ایم اس آپریٹنگ سسٹم کو استعمال کرتا رہا یہاں تک کہ 2006ء میں اس کی باضابطہ ''موت‘‘ کا اعلان کردیا گیا۔''ہمارے جاری کردہ سافٹ ویئر میں کوئی بگز نہیں، کہ صارفین کی ایک بڑی تعداد کو انہیں فکس کرنے کی ضرورت پڑے‘‘۔ گیٹس نے یہ بات 1995ء میں فوکس میگزین میں کہی تھی۔اپنی 1995ء کی کتاب ''دی روڈ اہیڈ‘‘ میں بل گیٹس نے اپنی سب سے مشہور غلطیاں کیں: انہوں نے لکھا انٹرنیٹ ایک انوکھی چیز تھا جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ یہ بہتر سے بہترین کی جانب ہماری رہنمائی کرے گا ''آج کا انٹرنیٹ میرے تصور والی انفارمیشن ہائی وے نہیں ہے، البتہ آپ اسے کسی ہائی وے کا آغاز سمجھتے رہیں‘‘۔ کچھ ہی عرصے میں گیٹس کواندازہ ہوگیا کہ یہ بات غلط ثابت ہو رہی ہے، اس لیے انہوں نے مائیکرو سافٹ کی مشہور ''دی انٹرنیٹ ٹائیڈل ویو‘‘ یادداشت جاری کیے اور ادارے کو اس سمت میں چلایا۔ 1996ء میں انہوں نے اپنی کتاب کا نظرثانی شدہ ایڈیشن جاری کیا جس میں انٹرنیٹ کے بارے میں کافی باتیں شامل کی گئیں۔2004ء میں گیٹس نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ای میل سپیم دو سالوں میں ماضی کی چیز بن جائے گی‘‘۔آج 20 سال بعد بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ سکیورٹی کمپنی سیمنٹیک کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں بھیجی گئی تمام ای میلز کی نصف سپیم پر مشتمل تھی۔گیٹس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1981ء میں کہا تھاکہ ''640 کے کمپیوٹر میموری کسی بھی شخص کیلئے کافی ہوگی‘‘۔ اگر یہ واقعی سچ ہے تو پھر یہ بات واقعی وہ چھپانا چاہتے ہوں گے کیونکہ اب عام صارف سینکڑوں گیگابائٹس تک پہنچ گیا ہے۔ 1996ء میں ایک انٹرویو میں گیٹس نے کہا تھا کہ میں نے بہت ساری بے وقوفانہ اور غلط باتیں کی ہوں گی لیکن یہ بات مکمل طور پر غلط منسوب کی گئی ہے، کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ کبھی کوئی شخص یہ بات نہیں کہے گا کہ ایک مخصوص میموری مقدار ہمیشہ کیلئے کافی ہوگی‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

فرٹیلائزر کمپنی میں دھماکہ17 اپریل، 2013 کو امریکہ کی ریاست ویسٹ، ٹیکساس میں ویسٹ فرٹیلائزر کمپنی کے اسٹوریج اور ڈسٹری بیوشن کی سہولت میں ایک امونیم نائٹریٹ دھماکہ ہوا ۔دھماکے کے فوراً بعدریسکیو کیلئے اقدامات شروع کر دئیے گے لیکن اسی دوران پندرہ افراد ہلاک، 160 سے زائد زخمی اور 150 سے زائد عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔حادثے کے بعد تحقیقاتی ٹیموں نے اس بات کی تصدیق کی کہ دھماکہ اسٹوریج میں موجود امونیم نائٹریٹ کہ وجہ سے ہی ہوا۔ اس کے بعد 11 مئی 2016 کو، بیورو آف الکحل، ٹوبیکو، آتشیں اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد نے کہا کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔کمبوڈیا میں خانہ جنگیکمبوڈیا کی خانہ جنگی کمیونسٹ اور حمیر روج کے درمیان ہونے والی جنگ تھی۔اس جنگ کو محققین نے کمبوڈین قتل عام بھی کہا ہے،اکثر مورخین کا ماننا ہے کہ یہ ہٹلر کے کئے گئے قتل عام سے زیادہ بھیانک اور خطرناک تھا۔ خمیر روج کو شمالی ویتنام اور ویت کانگ کی بھی حمایت حاصل تھی۔یہ جنگ دونوں گروہوں کے درمیان لڑی گئی جس میں لاکھوں بے گناہ افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔ اکتوبر 1970ء کے بعد اس میں شدت آتی گئی اور بہت بڑے قتل عام کے بعد آخر کا ر آ ج کے دن 1975ء میں اس خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔لینا قتل عاملینا قتل عام یا لینا پھانسی سے مراد 17 اپریل 1912ء میں شمالی سائبیریا میں دریائے لینا کے قریب ہڑتال پر بیٹھے گولڈ فیلڈ کے کارکنوں پر فائرنگ ہے۔گولڈ فیلڈ کے کارکنان اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج تھے جب حکومتی حکام کی جانب سے ان پر گولیوں کی برسات کر دی گئی۔اس کے قبل ہڑتالی کارکنان کو کہا گیا کہ وہ ہڑتال ختم کر دیں لیکن ہڑتالی کمیٹی نے حکام کی بات ماننے سے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں ہڑتالی کمیٹی کو گرفتار کر لیا گیا۔ گرفتاری کی وجہ سے بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا،حالات کو بے قابو ہوتا دیکھ کر امپیریل روسی فوج کے سپاہیوں نے ہجوم پر فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں سیکٹروں افراد ہلاک ہوئے۔ اس واقع نے روس میں انقلابی آگ کو بہت ہوا دی۔فرانسیسی افواج کاشام سے انخلاء17اپریل کو شام میں بطور قومی دن منایا جاتا ہے۔اسے انخلا کا دن بھی کہا جاتا ہے کیونکہ 1941ء میں شام کی مکمل آزادی کے بعد17اپریل1946ء کو شام سے آخری فرانسیسی فوجی کے انخلاء اور فرانسیسی مینڈیت کے خاتمے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے بعد، سلطنت عثمانیہ کو کئی نئی قوموں میں تقسیم کیا گیا، جس سے جدید عرب دنیا اور جمہوریہ ترکی وجود میں آئے۔ 1916 میں فرانس، برطانیہ اور روس کے درمیان سائیکس پیکوٹ معاہدے کے بعد، لیگ آف نیشنز نے 1923 میں فرانس کو موجودہ شام اور لبنان پر مینڈیٹ دیا۔ 

انسانی آنکھ کی پتلی

انسانی آنکھ کی پتلی

دور ِ جدید میں سائنس کی ترقی جہاں انسانی زندگی کیلئے دیگر بہت سی آسانیاں پیدا کر رہی ہے، وہاں صحت کے شعبے میں بھی کئی قابل قدر جدتیں ہوئی ہیں اور کئی ایسی تحقیقات جاری ہیں جن کی کامیابی انسانی اعضاء کی کارکردگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنے گی۔ آنکھ ہی کولے لیں، جو انسانی جسم کا ایک حساس ترین عضو ہے مگر کچھ جدید تحقیقات کی مدد سے ہماری آنکھ کی کارکردگی میں نمایاں بہتری کا امکان نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں آسڑیلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز اور امریکہ کی شہرہ آفاق سٹینفورڈ یونیورسٹی کی تحقیقات قابل ذکر ہیں جن سے انسانی بینائی میں انقلابی تبدیلی کا امکان ہے۔نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے سائنسدان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں جس کی مدد سے انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردۂ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکے گا۔''نیورو پروستھیٹکس‘‘ (Neuro prosthetics)دنیا بھر میں ایک ابھرتا ہوا سائنسی میدان ہے، جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصاب سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضا ء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔ اس کی ایک اہم مثال ''کوکلیئر امپلانٹ‘‘(cochlear implant) ہے جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کیلئے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔ اسی تصور سے متاثر ہو کر یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد کی بصارت کو بحال کیا جا سکے گا، تاہم آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنسدان ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔ اس تحقیق سے امید پیدا کی جارہی ہے کہ جلد ہی نابینا اور معمر افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہو جائے گا۔ڈاکٹر اوڈو رؤمر نے اس تحقیق کے بارے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردۂ چشم میں کچھ خاص سیل ہوتے ہیں جنہیں ''فوٹو ریسیپٹرز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ '' فوٹو ریسپیٹرز‘‘ بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ڈاکٹر رؤمر کے مطابق ان ہی ''ریسیپٹرز‘‘ کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں۔ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسا کہ عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ کان میں سماعت کیلئے لگائے جانے والے آلے کی سرجری'' کوکلیئر امپلانٹ‘‘ کئی عشروں سے کی جا رہی ہے، اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کیلئے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنسدان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کیلئے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں، لیکن اس کیلئے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہو گی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پَلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ایسا سگنل پیدا کرتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رؤمر کا کہنا ہے کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کیلئے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنسدان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کیلئے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے محقق ڈاکٹر رؤمر بتاتے ہیں کہ یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کیلئے زیادہ وولٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی تحقیق سے سامنے آیا ہے کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریبا ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ڈاکٹر رؤمر کا مزیش کہنا تھا کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کیلئے درکار پکسل سائز میں لانا ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کیلئے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہو گی۔ڈاکٹر رؤمر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کر لے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کیلئے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہو گا۔ اس سے قبل امریکہ میں بھی سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو سولر پینل کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسدان پہلے بھی مصنوعی یا مشینی آنکھ تیار کر چکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کر کے مریض کی قوتِ بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی سٹینفوڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی تیار کردہ اس ''بائیونک آئی‘‘ کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے ''نیچر فوٹونکس‘‘ میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ جس میں بتایا گیا ہے کہ اس آنکھ میں خصوصی شیشوں کی جوڑی کی مدد سے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے جس سے ٹرانسپلانٹ کیے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے ایسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن سے وہ خلیے مر جاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔تاہم اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو دیکھنے میں مدد ملتی ہے ۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین کے مطابق اس طریقہ میں ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا سولر پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونے والی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعاؤں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پر اس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

اکثر طالب علموں کا شکوہ اونگھ اور نیند پڑھنے نہیں دیتی !

''جب بھی میں کتاب کھولتا ہوں فوراً سستی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا بدن تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے‘‘۔ اکثر طالب علم اس بات کی شکایت کرتے ہیں اور ڈاکٹروں اور حکیموں کے پاس اس کے مداوے کیلئے حاضر ہوتے ہیں اور پوچھتے ہیں!علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں......وجوہاتموقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت ہوتا ہے جب آدمی کو ایسا کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے جس میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگائو اور ذہنی و جسمانی طور پر وہ اس سے رتی بھر مطمئن نہ ہو۔اس کے علاوہ موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں مثلاً ذیابیطس وغیرہ میں بھی بندہ ہر وقت بہت سستی محسوس کرتا ہے اور سویا سویا رہتا ہے۔ نوجوانوں میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب انہیں ان کی پسند کا کام نہ ملے۔ انہیں ایسے مضامین پڑھنے پر مجبور کر دیا جائے جن میں ان کی ذرا دلچسپی نہ ہو۔ اس کے علاوہ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے اپنا کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افراتفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکایت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت بندہ سست اور پژمردہ ہو تا ہے اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی نیند آ جاتی ہے۔علاج اور بچائوجو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے کے مسئلہ کا شکار رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ذیل باتوں پہ عمل کریں۔ اس سے اس طرح کے مسائل پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔(1)۔ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کیلئے تازہ ہوا، مناسب آرام، باقاعدہ ورزش وغیرہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ جسم صحت مند ہوگا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور آپ جو کام کریں گے آپ کا ذہن آپ کا پورا ساتھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کیلئے مندرجہ بالا امور کا خیال رکھا جائے۔ ان میں کوئی چیز کم ہے تو اس کمی کو پورا کر نے کی کوشش کریں۔(2)۔روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔ جو اپنا کام باقاعدگی سے کرتے ہیں وہ بہت کم پریشانیوں اور ناکامیوں کا شکار ہوتے ہیں، اس لیے ضروری ہے کہ باقاعدگی کو زندگی کا شعار بنائیں۔ جو کام آج کرنا ہے اسے آج ہی کریں۔ اس سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوں گے اور کامیابیاں آپ کا مقدر بنیں گی اور کبھی بھی پڑھائی کرتے وقت اونگھ یا نیند آپ کو تنگ نہیں کرے گی۔(3)۔بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ''سٹڈی فوبیا‘‘ ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی میں لگ جائیں۔ انشاء اللہ کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوگا۔ (4)۔ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی بھی آپ بہت زیادہ پریشانی اور ذہنی دبائو کا شکار ہوں تو اس دوران ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ اپنے آپ کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کیلئے آرام کریں، باہر گھومیں پھریں۔ چائے کا ایک کپ نوش کریں اور اس کے بعد جسم کو بالکل ڈھیلا چھوڑ کر Relax کریں اور اب ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف لگیں۔(5)۔بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کیلئے بعض دوائوں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا الٹا اثر ہوتا ہے۔ اصل میں تمام دوائیں کیمیکل اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اور جب یہ جسم میں داخل ہوتی ہیں تو جسم پر کوئی نہ کوئی مضر اثر ضرور چھوڑتی ہیں اس لیے ان سے پرہیز بہت ضروری ہے۔(6)۔اس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں اور فکر و پریشانی کی صورت میں زیادہ کھا یا پی کر سکون اور فرار ڈھونڈتے ہیں اور یوں ہر وقت سسترہتے ہیں اور اونگھتے رہتے ہیں۔(7)۔امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم اپنی خوراک کو صحیح رکھیں۔ زیادہ چٹ پٹے اور مصالحہ دار کھانوں سے پرہیز کریں۔ ہمیشہ بھوک رکھ کر کھائیں۔ اس سے آپ تندرست اور توانا اور فریش رہیں گے اور اونگھ یا نیند کبھی تنگ نہیں کرے گی۔٭...٭...٭ 

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً 2 ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔