باؤلی :یہ کس بلا کا نام ہے۔۔۔؟
لفظ '' باؤلی‘‘ جو اُردو میں اکثر استعمال ہوتا ہے اس کا مطلب '' پاگل عورت‘‘ کے ہیں جبکہ باؤلی ایک ایسے لمبے چوڑے کنوئیں (Step well)کو بھی کہتے ہیں جس میں پانی کی تہہ تک سیڑھیاں بنی ہوتی ہیں۔ حسبِ ضرورت ان سیڑھیوں کی مدد سے کنوئیں کی تہہ تک بھی پہنچا جا سکتا ہے۔
آ ج ہم اسی پہ بات کریں گے۔
'' باؤلی‘‘ راجپوت دور میں استعمال ہونا شروع ہوئیں۔
شیر شاہ سوری نے بھی کافی باؤلیاں بنوائیں۔ خاص طور پر جی ٹی روڈ کے آس پاس شیر شاہ سوری کے زمانے کی باؤلیاں اب بھی کہیں کہیں نظر آتی ہیں۔ماضی میں باؤلی صرف مذہبی حیثیت کے تالابوں کے لئے مختص تھیں۔رفتہ رفتہ بر صغیر پاک و ہند میں باؤلیاں مذہبی مقامات سے ہٹ کر بھی رواج پاتی چلی گئیں۔ تاریخ کی کتابوں میں چھٹی صدی عیسوی میں برصغیر پاک و ہند کے ایسے علاقے جہاں خشک سالی کا سامنا رہتا تھا وہاں باؤلیاں تیزی سے رواج پاتی چلی گئیں۔
ایک سروے کے مطابق گجرات کے علاقے میں 120سے زیادہ باؤلیوں کا سراغ ملا ہے۔ٹیکسلا ،گوجر خان ،کلر سیداں ،کہوٹہ ،بھمبر آزاد کشمیر،پلندری اورکھاریاں میں کچھ کچھ باؤلیوں کا سراغ بھی ملا ہے۔ مغلیہ دور میں باؤلیوں نے تیزی سے رواج پایا۔ان میں اکثر باؤلیاں تو اتنی بڑی ہوتی تھیں کہ ان میں براہ راست ہاتھی اور گھوڑے بھی پانی پینے کی غرض سے اتارے جا سکتے تھے۔ ان باؤلیوں کی یہ خاصیت تھی کہ جانوروں اور انسانوں کیلئے پانی کا الگ الگ انتظام ہوا کرتا تھا۔ اکبر بادشاہ اور ان کے جانشینوں نے تو مغلیہ دورِ حکومت میں جتنے بھی قلعے تعمیر کرائے وہاں باؤلیاں ضرور ملتی تھیں۔ تاریخی عمارتوں خاص طور پر قلعوں میں پانی کے وسیع تر ذخائر کو محفوظ کرنے کیلئے عمارتوں کے احاطے میں سیڑھیوں والے کنوئیں یعنی باؤلیاں ضرور بنتی تھیں۔ کسی زمانے میں پانی کی رات کی ضرورت کے پیش نظر جن میں تعمیری کام بھی شامل تھے، باؤلیاں استعمال ہوا کرتی تھیں۔گئے وقتوں میں جب جی ٹی روڈ رابطے کیلئے مرکزی شاہراہ کا درجہ رکھتی تھی، اس کے اطراف ہر کچھ فاصلے پر باؤلیاں پائی جاتی تھیں۔اکثر باؤلیاں اتنی بڑی ہوتی تھیں جن میں کئی گنا زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ ان کی تہہ تک سیڑھیاں بنی ہوتی تھیں ۔یہ اپنی وسعت کے لحاظ سے تالاب سے کافی مشابہت رکھتی تھیں، اِن کا مقصد ہی لمبے عرصے تک پانی ذخیرہ کرنا ہوتا تھا۔
پاکستان کے اکثر شہروں جن میں لوسر (واہ کینٹ)ہٹیاں ضلع اٹک اور قلعہ روہتاس میں تین باؤلیاں اب بھی باقی ہیں۔ان میں اکثر اتنی بڑی ہیں کہ ان کے ارد گرد راہداریاں اور کمرے بھی بنے ہوئے ہیں جو شدید گرمی کے موسم میں انتہائی ٹھنڈے ہوتے تھے۔ ماضی میں یہ پانی ذخیرہ کرنے کا نعم البدل ہوتی تھیں موسم گرما میں یہ گرمی سے ستائے لوگوں کے لئے کسی نعمت سے کم بھی نہیں ہوتی تھیں۔ چنانچہ گرمیوں کے موسم میں امراء اور اعلی حکومتی عہدیدار اپنے دفاتر عارضی طور پر یہاں منتقل کر لیا کرتے اور یوں وہ ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر دفتری کام بھی سرانجام دیتے تھے۔
بعض باؤلیاں تواتنی بڑی ہوا کرتی تھیں کہ ان کے اندر زیر زمین رستے بھی بنے ہواکرتے تھے جو کئی کئی کلومیٹر لمبے ہوتے تھے۔ بعض جگہوں پر تو ایسی باؤلیاں بھی دریافت ہوئی ہیں جنکے اندر خفیہ رستے بھی بنے ہوتے تھے۔ ان کے بارے قیاس کیا جاتا ہے یہ ہنگامی رستے کے طور پر استعمال ہوتی ہوں گی۔
بعض روایات کے مطابق باؤلیوں کی تعمیر کا آغاز قدیم راچپوت دور سے ہوا تھا لیکن اس کو رواج دینے میں کافی حد تک شیر شاہ سوری کی کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ اپنے زمانے کی اس بے مثال ایجاد کی روح کو ایک مدت تک زندہ رکھنے کا اعزاز شیر شاہ سوری کو ہی جاتا ہے۔ دراصل شیر شاہ سوری نے جہاں جہاں سڑکیں بنوائیں اور نئے شہر آباد کئے وہاں سب سے پہلے پانی کا مسئلہ حل کیا۔ اس نے جب جرنیلی سڑک تعمیر کرائی تو ہر تین کلومیٹر کے فاصلے پر سرائیں تعمیر کرائیں جہاں ہمہ وقت صاف اور ٹھنڈے پانی کے مٹکے موجود ہوتے تھے۔ جہاں پانی کی طلب زیادہ ہوتی وہاں مستقل کنوئیں اور باؤلیاں تعمیر کرائیں۔ غرضیکہ اُس کی فوجیں جہاں سے گزرتیں وہاں بھی باؤلیاں بنواتا جاتا۔ اس زمانے کی جنگیں آج کی جنگوں کی طرح مختصر دورانئے کی نہیں ہوتی تھیں بلکہ فوجوں کا پڑاؤ بعض اوقات سالوں پر محیط ہوتا تھا۔ایسے میں جب اس کی فوجیں ایک گمنام علاقے لیکن آج کے ایک پر رونق شہر واں بھچراں سے گزریں تو اُنہیں یہاں پڑاؤ ڈالنا پڑا۔ اس وجہ سے اس نے یہاں ایک بہت بڑاکنواں کھدوایا۔یہ کنواں اپنے وقتوں کا ایک لازوال شاہکار تھا۔ اس کے کھنڈرات کو میانوالی سے لاہور جانے والے آج بھی حسرت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔
واں بھچراں میانوالی شہر سے بیس بائیس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس منفرد کنوئیں کی تہہ تک جانے کیلئے لگ بھگ چار سو سیڑھیاں ہیں۔اس کنوئیں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں ہاتھی اور گھوڑے براہ راست نیچے پانی پینے یا آرام کی غرض سے آسانی سے جا سکتے تھے۔ اس باؤلی کے پہلو میں دو بلند مینار ہیں جو حکومتی عدم توجہی کے باعث کھنڈرات میں بدلتے جا رہے ہیں۔
کتنا خوبصورت اتفاق ہے کہ ایک گمنام قصبے کے ایک کنوئیں نے ایک تاریخی شہر کو جنم دیا جسے بعد میں '' واں بھچراں ‘‘ کہا گیا۔
'' واں ‘‘ دراصل کنوئیں کا مخفف ہے اور
'' بھچراں ‘‘ یہاں ایک قدیم قبیلے '' بھچر‘‘ سے ماخوذ ہے جو پانی کی کشش کے سبب اس کنوئیں کے ارد گرد آباد ہو گیا ۔ یوں اس قصبے کا نام واں بھچراں پڑ گیاجو اب ایک بارونق شہر کا روپ دھار چکا ہے۔ مغلیہ دور ہو یا شیر شاہ کا دور، اُنہوں نے جس کمال مہارت سے لازوال شاہکار عمارتیں تعمیر کرائیں ہم ان کی حفاظت نہیں کرسکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اس عظیم قومی ورثے کو محفوظ کرنے کے لئے خاطر خواہ انتظامات کرے۔