آخر وہ کون سی 'گیدڑ سنگھی‘ تھی جس کی بدولت کوئٹہ جیت گیا؟یہ ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کی سرخی ہے جومارچ 2021ء کے پاکستان سپر لیگ کے ایک میچ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹر نے اپنا پہلا میچ جیت لیا، اور وہ بھی ہدف کا کامیابی سے دفاع کرتے ہوئے۔ اس واقعے کی حیرت کو دو آتشہ کرنے کے لیے ویب سائٹ نے ''گیدڑ سنگھی‘‘ کی اصطلاح کا تڑکا لگایا۔مگر ہمارے لیے سوال یہ ہے کہ یہ گیدڑ سنگھی کس بلا کا نام ہے اور اس کی طلسماتی خوبیوں کا کیا راز ہے؟ کچھ ہے بھی یا نہیں؟ لوک داستانوں کے مطابق گیدڑ سنگھی یا ''جیکال ہارن‘‘ ایک پراسرار شے ہے اور جنوبی ایشیا میں لوگ اس کے بارے بہت سے ا نوکھے تصورات رکھتے ہیںمثلاً یہ سمجھا جاتا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک طلسماتی قوت ہے اور خوش قسمت لوگوں کے ہاتھ لگتی ہے۔ ایک خیال جو سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے، یہ ہے کہ گیدڑ جب سو سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اس کے سر پر سامنے کی طرف بالوں میں ایک دائرہ سا نمودار ہو جاتا ہے جسے گیدڑ سنگھی کا نام دیا جاتا ہے، جسے حاصل کرنے کے بعد سندور میں محفوظ کر لیا جاتا ہے۔مگرگیدڑ کی سو سالہ زندگی کے اس تصور ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گیدڑ سنگھی کی حقیقت کیا ہو گی، تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ اتنا واضح ہونے کے باوجود ہمارے جیسے معاشروں میں اس قسم کے تصورات موجود رہتے ہیں اور لوگوں کے ذہن سے ان کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچنا چاہیے کہ گیدڑ سنگھی میں ایسا کیا راز چھپا ہے کہ یہ ہمارے ہاں کا عام محاورہ بن چکا ہے جو طلسماتی اور کرشماتی قوت کے ہم معنی ہے؟آپ جب کسی کی خلاف توقع کامیابی کو دیکھتے ہیں تو فوراً آپ کے ذہن میں بھی اس قسم کا خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ ''اس کے پاس کیا گیڈر سنگھی ہے؟‘‘ہمارا ماننا ہے کہ حقیقت میں گیدڑ سنگھی کی ایسی طلسمی صلاحیت کا کوئی وجود نہیں ، مگر سماجی تصور اور محاورے نے اسے باقی رکھا ہے اور لوگ واقعی گیدڑ سنگھی کو کوئی حقیقت سمجھنے لگ جاتے ہیں اور جب کوئی کسی شے کو حقیقت سمجھ بیٹھے تو پھر اس کی تلاش بھی شروع ہو جاتی ہے ، یہیں سے شعبدے بازوں کا کام آسان ہوجاتا ہے ۔چونکہ گیدڑ سنگھی کے ساتھ ایسا طلسماتی تصور باندھ دیا گیا ہے کہ جس کے ہاتھ یہ آ جائے اسے پھر کچھ کام کرنے کی ضرورت نہیں،جو چاہے گا بیٹھے بٹھائے حاصل کر لے گا؛چنانچہ کام چوراور راتوں رات چھپڑ پھاڑ دولت کے خواہاں گیدڑ سنگھی کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ بس ایک بار کہیں سے گیدڑ سنگھی ہاتھ لگ جائے تو وارے نیارے ہو جائیں۔ اس لالچ میں اکثر لوگ ایسے شعبدہ بازوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو چکنی چپڑی باتوں میں پھنسا کر انہیں بھاری قیمت پر ''گیدڑ سنگھی ‘‘فروخت کر دیتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ ان شاطروں نے گیدڑ سنگھیاں بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے ہوئے ہیں۔ کہیں گیدڑ کا سر کاٹ کر اس کے سر کی کچھ کھال اتار کر اس کے ماتھے کی ہڈی میں نقلی چھوٹے سینگ جیسا ابھار بنا کر کھال کو دوبارہ سر کے ساتھ چپکا دیا جاتا ہے اور اب اس کھال سے ابھرا ہوا نقلی سینگ بالکل اصلی معلوم ہوتا ہے اور لالچی نظروں کو گیڈر سنگھی دکھائی دیتا ہے۔ کہیں بالوں کے گچھے کی گیند سی بنا کر گیدڑ سنگھی کے نام پر فروخت کی جاتی ہے۔اگر کسی نے اصلی گیدڑ سنگھی دیکھی ہو تو چلو اس سے مقابلہ کر کے اصل نقل کی پہچان کر لے، جب ایک تصور ہے ہی بے بنیاد اور کوئی اس کے اصل سے واقف نہیں تو پہچان کیسے ہو؟ اس لئے لالچی لوگ با آسانی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کبھی کبھار جوگی اور سپیروں نے بھی لوگوں کو گیدڑ سنگھی کے نام پر چونا لگا جاتے ہیں۔ حالانکہ سوچنے کی بات ہے کہ اگر اُن کے پاس'' گیدڑ سنگھی‘‘ ہوتی تو وہ خود ہی خوشحال نہ ہوجاتے؟اس طرح عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط تصورات پائے جاتے ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں، کچھ لوگ اسے سرکے بالوں کا گچھا سمجھتے ہیں، کچھ جوگی اس کو گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے جس کو تلاش کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔یہ بھی سنا ہے کہ گیدڑ سنگھی ایک گلٹی سی ہوتی ہے جیسے گھنے بال اُگے ہوئے ہوں۔ یہ گلٹی گیدڑ کی ایک خاص نسل کی گردن پر حلقوم کے قریب کھال میں بنتی ہے اور پھر ایک خاص موسم میں جھڑ جاتی ہے۔ ہندوستان میں یہ چیز جادو ٹونے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتی تھی یا ہوتی ہے۔ایک جگہ یہ بھی لکھا تھا کہ جنگلوں کے باسیوں نے جعلی گیدڑ سنگھی بنانے کا فن بھی جان لیا تھا اور یہ گیدڑ سنگھیاں جو بھکاری لوگ لئے پھرتے ہیں یہ جعل سازی ہے۔مگرگیدڑ سنگھی اور اس جیسی دیگر طلسمی چیزوں کو عقلِ سلیم نہیں مانتی اور اسلام میں بھی ایسی چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے، لہٰذاعلما ء کرام کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں اختراعی عقائد رکھنا یعنی رزق میں برکت اور اپنی خوش قسمتی کا ذریعہ سمجھ کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف العقیدہ ہونے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔