نوبیل انعام، کیا ہے اور کیسے شروع ہوا؟
نوبیل انعام رنگ و نسل اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہیں،
بین الاقوامی ماہرین کی ایک کمیٹی خوش نصیب کا انتخاب کرتی ہے
اکتوبر کا مہینہ اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ ہر سال اس ماہ کے پہلے ہفتے میں بین الاقوامی شہرت یافتہ نوبیل انعام کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ایسا کون ہو گا جس نے ''نوبیل انعام‘‘ بارے سن نہ رکھا ہو گا اور یقینا اکثر لوگ یہ بھی جانتے ہونگے کہ نوبیل انعام معاشیات، فزکس، کیمسٹری، ادب، میڈیسن یعنی طب میں ہر سال نمایاں کارکردگی یا کچھ نیا کر دکھانے والوں کو ملتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی انعام ہے جس کا انتخاب بہت چھان بین اور سخت مقابلے کے بعد ایک کمیٹی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ اس انعام کے نام سے ظاہر ہے اس کا بانی الفریڈ نوبیل تھا۔ الفریڈ نوبیل 21 اکتوبر 1833 کو اسٹاک ہوم، سویڈن میں پیدا ہوا۔ جب نوبیل کی عمر صرف نو سال تھی تو اس کے والدین سویڈن چھوڑ کر سینٹ پیٹر برگ منتقل ہو گئے۔ یہ شہر اس دور میں روس کا دارلحکومت ہوا کرتا تھا۔ اس کے والد نے یہاں آکر تارپیڈو بنانے اور پلائی ووڈ کا کام شروع کیا ۔ اس کے باپ کو پلائی ووڈ کا بانی بھی کہتے ہیں۔
الفریڈ نوبیل نے یہاں آکر اپنی تعلیم کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ فزکس اور کیمسٹری اس کے بنیادی مضامین تھے اس لئے اس نے پروفیسر نکولائی سے کیمسٹری پڑھی جو اپنے دور کے کیمسٹری کے مانے ہوئے معلم تھے۔ بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہ اٹھارہ سال کی عمر میں چار سال کے لئے کیمسٹری کی مزید تعلیم حاصل کرنے امریکہ چلا گیا۔
الفریڈ نوبیل نے سویڈن واپس آ کراپنے آپ کو محفوظ دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے مطالعے کے لئے وقف کر دیا۔ بنیادی طور پر اس کا مشن پہاڑوں اور چٹانوں کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعے پھاڑ کر معدنیات تلاش کرنے والے کارکنوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا تھا۔
الفریڈ نوبیل کی ایجادات:الفریڈ نوبیل جس کی وجہ شہرت ایک ماہر کیمیا دان، موجد اور انجینئر کی حیثیت سے ہے۔ اس کی عمر کا بیشتر حصہ سائنسی مطالعہ اور تجربات کی نظر رہا۔ اس کی کل ایجادات یوں تو 355 ہیں لیکن جس ایجاد نے اسے شہرت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا وہ '' ڈائنامائیٹ ‘‘ اور '' کارڈائیٹ ‘‘ ہیں۔ الفریڈ نے ان ایجادات کے ذریعے بے پناہ دولت کمائی۔ ایک تخمینے کے مطابق الفریڈ کی کل دولت 186ملین ڈالر سے زائد تھی۔
الفریڈ نوبیل کی زندگی میں اس وقت ایک نیا موڑ آیا جب اس کے بھائی لودویک کا انتقال اپنی فیکٹری میں دھماکہ خیز مواد کی تیاری کے دوران ہوا۔ چنانچہ اگلے دن کے اخبارات نے اس کے بھائی کی جگہ الفریڈ نوبیل کے انتقال کی خبر شائع کر ڈالی۔ اس خبر کو '' موت کے سوداگر کی موت ‘‘ کے نام کا عنوان دیا گیا۔ اس خبر نے الفریڈ کو ذہنی اور جذباتی طور پر انتہائی متاثر کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے آپ کو فلاحی کاموں کے لئے وقف کر دیا۔
اس صورت حال کے بعد اپنی موت سے ایک سال قبل یعنی 1895 میں اس نے پیرس میں '' سویڈن ناروے کلب ‘‘ کی ایک تقریب میں اپنی آخری وصیت کا اعلان کرتے ہوئے اپنی کل دولت کا 94فیصد مختلف مضامین میں قابل قدر اور فلاحی کام کرنے والے افراد کے لئے مختص کرنے کا اعلان کیا۔جس کے لئے فزکس، کیمسٹری، ادب، عالمی امن اور میڈیسن کے شعبوں کا انتخاب کیا گیا جبکہ اس کی وفات کے بعد معاشیات کے شعبے کو بھی اس فہرست میں شامل کر لیا گیا۔
نوبیل انعام کا آغاز : الفریڈ کی وصیت کے فورا ً بعد ایک فنڈ قائم کر دیا گیا،جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم ہوتا آ رہا ہے۔
وصیت کے ایک سال بعد دسمبر 1896میں الفریڈ نوبل کا دماغی شریان پھٹ جانے سے انتقال ہو گیا۔ بعض وجوہات کے باعث اس کی وصیت کے تحت 1897ء میں'' دی نوبل پرائز‘‘ کا باقاعدہ طور پر ایک فاؤنڈیشن کے تحت آغاز کیا گیا۔
ابتدائی طور پر ریجنر سوہلمین اور روڈولف کو '' نوبل فاؤنڈیشن ‘‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔اس فاؤنڈیشن کے کل چھ ڈائریکٹر ہوتے ہیں جن کا تقرر دو سال کے لئے ہوتا ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان ڈائریکٹرز کا تعلق سویڈن اور ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔اس فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹرز کا کام نوبل فاؤنڈیشن کے اثاثہ جات کی دیکھ بھال، نوبل انعامات کا انعقاد کرنا ہوتا ہے۔ڈائریکٹرز کی منظوری کے بعد فزکس اور کیمسٹری کے مضامین کے انعام کے لئے '' رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے تحت فزکس اور کیمسٹری کے شعبوں میں اہم ترین دریافت کرنے والے کو فزیا لوجی اور میڈیسن کے شعبے میں اہم ترین علاج کی دریافت پرایسے شخص کو انعام کا حق دار ٹھہراتی ہے جس نے اقوام کے درمیان دوستی، افواج کی تعداد میں کمی اور امن کی تشکیل میں موثر کردار ادا کیا ہو۔ اسی طرح ادب کے شعبے میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے کو '' سویڈیش اکیڈمی‘‘کے تحت انعام دیا جاتا ہے۔ چنانچہ 1901ء سے مندرجہ بالا شعبہ جات میں باقاعدگی سے نوبل انعام تقسیم کئے جا رہے ہیں، ما سوائے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے چند سالوں کے۔جبکہ 1968ء سے سویڈن کے سنٹرل بنک کے تعاون سے معاشیات کے شعبے میں اہم خدمات سرانجام دینے والوں کو بھی نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ انعام چونکہ نوبیل فاؤنڈیشن کی سفارش پر عمل میں نہیں لایا گیا تھا، اس لئے اسے باضابطہ طور پر الفریڈ نوبیل یادگاری کہا جاتا ہے۔جس کا اہتمام ''رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنسز‘‘ کرتی ہے۔
نوبیل انعامات کا اعلان ہر سال اکتوبر کے مہینے کے پہلے ہفتے میں کیا جاتا ہے۔ انعام دینے کی تقریب کا اہتمام ہر سال 10 دسمبر کو الفریڈ نوبیل کے یوم وفات کے موقع پر سٹوخوم میں جبکہ امن کے نوبیل انعام کا اہتمام اسی روز اوسلو ناروے میں کیا جاتا ہے۔انعام جیتنے والے ہر شخص کو سونے کے ایک تمغے کے علاوہ گیارہ لاکھ دس ہزار ڈالر کی خطیر رقم بھی دی جاتی ہے۔
ایک تاریخی الزام کی وضاحت: ۔ تاریخ میں ڈائنامائٹ کو انسانی ہلاکتوں کو سہل بنانے کے لئے ایجاد کئے جانے کا جو الزام الفریڈ نوبیل پر عائد کیا جاتا ہے مورخین اور محققین نے اسے یکسر مسترد کر دیا تھا۔ حقیقت میں ڈائنامائٹ کی ایجاد کا تصور پہاڑوں سے پتھر پھاڑ کر معدنیات نکالنے کے عمل کو سہل بنانا تھا۔بلاشبہ ڈائنامائیٹ جنگی سامان بنانے میں بھی استعمال ہوتا رہا لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ اس کے پیچھے اس کے انسان دشمن عزائم کار فرما تھے۔ بنیادی طور پر الفریڈ نوبیل کو جنگ سے شدید نفرت تھی۔ بلکہ یہ امن کا داعی تھا۔ اس کی زندگی کا مشن ہی یہ تھا کہ دنیا کی تمام قومیں آپس میں مل جل کر امن اور صلح کے ساتھ رہیں۔
متنازع نوبیل انعامات:نوبیل انعامات اگرچہ رنگ و نسل اور ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہوتے ہیں جن کا اعلان بین الاقوامی طور پر ماہرین کی ایک کمیٹی چھان پٹھک کے بعد کرتی ہے لیکن ایک جائزے کے بعد کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جنہیں بعد کے حالات نے غلط ثابت کر دکھایا۔ ان کی مختصر تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
1926ء کا میڈیسن کا نوبیل انعام جوہانس فیبا ئگر کو اس تحقیق کے نتیجے میں دیا گیا جس کا وعویٰ تھا کہ کینسر Spiroptera Carcinoma نامی ایک کیڑے کے ذریعے ہوتا ہے جبکہ بعد کی تحقیقات نے اسے یک سر غلط ثابت کر دکھایا۔
1927ء میں میڈیسن کے شعبے کا انعام آسٹریا کے ایک ڈاکٹر جولئیس ویگنر کو ملا تھا جس کا وعویٰ تھا کہ آتشک کے مریضوں میں ملیریا کے مریضوں کا خون داخل کرنے بعد انہیں کونین کھلا دینے سے مریض صحت یاب ہو سکتا ہے جبکہ بعد کی تحقیقات نے اس دعویٰ کو مضحکہ خیز قرار دے کر رد کر دیا تھا۔
1947ء میں انگریز کیمیا دان سر رابرٹ روبنسن کو آرگینک کیمسٹری کی جس تخلیق پر نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا بعد میں پاکستانی پروفیسر عطا الرحمان نے اسے غلط ثابت کر دکھایا تھا۔