خواہش کا کنواں
کسی گاؤ ں میں پہاڑی کے نیچے ایک چشمہ بہتا تھا۔ اسی پہاڑی کی چوٹی پر ایک پرانا ٹوٹا پھوٹا سا کنواں تھا جس کی دیواریں لکڑی کی تھیں جوبوسیدہ ہوچکی تھیں۔اس کنوئیں کے ساتھ ہی ایک لکڑی کی بالٹی رکھی تھی۔ صرف ایک چیز جس نے اس پرانے کنوئیں کو سب کا مر کز نظر بنایا ہوا تھا۔ وہ اس کنوئیں کی دیوار پر کھدے ہوئے تین الفاظ تھے : خواہش کا کنواں۔
ایک دفعہ ایک لڑکے کا وہاں سے گزر ہوا اور اس کی نظر کنوئیں پر درج الفاظ پر پڑی۔ یہ شخص بہت اور لالچی تھا۔ اس نے ایک نظر کنوئیں کو دیکھا اور اسے آزمانے کا سوچا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں بند کر کے بہت سارا سونا حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
کچھ دیر بعداس نے آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔دل ہی دل میں اس نے کنوئیں کو برا بھلا کہا۔ جانے سے پہلے اس نے کنوئیں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران ہو ا کہ سونے سے بھرا ایک بڑا سا برتن کنوئیں میں تیر رہا ہے۔ وہ بہت خوش ہوا اور اس نے ہاتھ بڑھا کر برتن اٹھانے کی کوشش کی مگر ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکا۔ پھر اس نے قریب پڑے ایک ڈنڈے سے سونے کی ہانڈی نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔اس نے کئی بار مختلف انداز سے وہ برتن اٹھانے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ ناکام و نامراد رہا۔اسے بہت غصہ آیا اور بالآخر وہ تھک ہار کر کنویں کو برا بھلاکہتا واپس لوٹ گیا۔ اس کے جاتے ہی وہ سونے سے بھرا برتن بھی پانی کی سطح سے غائب ہو گیا۔
کچھ دن بعد ایک دوسرے لڑکے کا اسی کنوئیں سے گزر ہوا،اس نے بھی کنوئیں پر کھدے تین الفاظ (خواہش کا کنواں) پڑھے اور متجسس ہوا کہ میں بھی اس کنوئیں سے خواہش کر کے دیکھوں کہ یہ پوری ہوتی ہے یا نہیں ۔وہ لڑکا سوچنے لگا کہ آخر میں کیا مانگو؟اس وقت کون سی چیز میری زندگی میں سب سے زیادہ ضروری ہے ؟تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے ایک ہیرے کی انگوٹھی کی خواہش کی۔جب آنکھیں کھولیں اور ادھر ادھر دیکھا تو کچھ نہ پایا۔جب جھک کر کنویں میں دیکھا تو کنویں کی سطح پر ایک بہت قیمتی ہیرے کی انگوٹھی تیرتی ہوئی نظر آئی۔
پہلے والے لڑکے کی طرح اس نے بھی ہاتھ بڑھا کر انگوٹھی اٹھانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔پھر درخت کی ایک ٹہنی سے بھی انگوٹھی نکالنے کی کوشش کی مگر بے سود۔اب یہ نوجوان سوچنے لگا کس طرح اس انگوٹھی کو حاصل کیا جائے۔یکایک اس کے دما غ میں ایک خیال آیا اور وہ سمجھ گیا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔اس نے کنویں کے ساتھ رکھی بالٹی اٹھائی اور پہاڑ سے نیچے ندی کی طرف چل پڑا۔ ندی سے بالٹی میں پانی بھرا اور واپس پہنچ کر وہ پانی اس کنوئیں میں ڈال دیا اور دوبارہ ندی سے پانی بھرنے چل دیا۔اس طرح اس لڑکے نے کنوئیں کو پانی سے بھرنا شروع کیا۔جیسے جیسے کنوئیں میں پانی کی سطح بلندہوتی جا رہی تھی ویسے ویسے اس کی خواہش(ہیرے کی انگوٹھی) اس سے قریب ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ شام ہو گئی اور بالآخر وہ انگوٹھی پانی کے ساتھ اتنی اوپر آگئی کہ لڑکے نے باآسانی ہاتھ بڑھا کر وہ انگوٹھی اٹھالی اور واپس اپنے راستے پر چلا گیا۔
یہ '' خواہش کا کنواں ‘‘ ہم سب کی زندگی میں بھی موجود ہوتا ہے اور ہم سب اس میں موجود خواہشات کو حاصل کر سکتے ہیں۔جب ہم اپنا ہدف مقرر کر لیتے ہیں تو ہمارے مقصد کا حصول ممکن ہو جاتا ہے اور یہ مقصد کنوئیں میں نیچے کم پانی کے اوپر ہوتا ہے جسے ہم دیکھ تو سکتے ہیں مگر وہ ہماری پہنچ سے دور ہوتا ہے ۔ہم میں سے بہت سے لوگ پہلے والے لڑکے کی طرح جلد اور آسان راستے سے اپنا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جب اس میں ناکامی ہوتی ہے تو مایوس ہو کر اپنی خواہشات ختم کر دیتے ہیں اور واپس لوٹ جاتے ہیں ۔صرف وہی لوگ سچی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں جو اس حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں کہ زندگی کی خواہش کا کنواں کس طرح کام کرتا ہے اور کیسے اس کنویں سے اپنی خواہش کا حصول ممکن ہے۔ اپنی خواہش تک پہنچنے کے لئے پہلے ہمیں کنوئیں میں کچھ ڈالنا پڑتا ہے ،محنت کرنا پڑتی ہے، عقلمندی اور صبر سے کام لینا پڑتا ہے ۔تب ہی جا کر محنت کا پھل صحیح حقدار کو ملتا ہے ۔
زندگی کا بھی یہی اصول ہے ،لینے سے پہلے دینا پڑتا ہے ۔ اگر ہم زندگی کو مقصدیت، محنت، سچائی ،لگن اور مستقل مزاجی دیتے ہیں تو جواباً زندگی ہمیں بھی کامیابی، سکون اور خودتوقیری دیتی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے دوسرے لڑکے نے اس حقیقت کو سمجھا کہ اپنا مقصد اور خواہش حاصل کرنے کے لیے پہلے کچھ ہمت ،طاقت اور وقت صرف کرنا ہے ،تب ہی وہ اپنی محنت کا پھل حاصل کر سکے گا۔
(بینش جمیل پشاور کے ایک تعلیمی ادارے میں معلمہ ہیں اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ مندرجہ بالا مضمون ان کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے)