اقتباسات
فقیر سے داتا
مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میرے مرشد سائیں فضل شاہ صاحب گوجرانوالہ گئے، میں بھی ان کے ساتھ تھا۔ہم جب پورا دن گوجرانوالہ میں گزار کر واپس آ رہے تھے تو بازار میں ایک فقیر ملا، اس نے بابا جی سے کہا ''کچھ دے اللہ کے نام پر‘‘۔
انہوں نے ایک روپیہ (یہ اس وقت کی بات ہے جب ایک روپیہ بہت ہوتا تھا)اس کو دیا۔ وہ ایک روپیہ لے کر بڑا خوش ہوا، دعائیں دیں۔
بابا جی نے فقیر سے پوچھا شام ہو گئی ہے کتنی کمائی ہوئی؟ فقیر ایک سچا آدمی تھا اس نے کہا 10روپے بنا لئے ہیں( اس وقت دس روپے بڑے ہوتے تھے)۔بابا جی نے فقیر سے کہا تو نے اتنے پیسے بنا لئے ہیں تو اس میں سے کچھ دے۔ اس نے کہا بابا میں فقیر آدمی ہوں، میں کہاں سے دوں؟۔انہوں نے کہا اس میں فقیر امیر کا کوئی سوال نہیں۔ جس کے پاس ہے اس کو دینا چاہئے ۔فقیر کے دل کو یہ بات لگی،کہنے لگا اچھا۔ وہاں دو مزدور کدالیں کندھے پر ڈالے گھر واپس جا رہے تھے۔ وہ فقیر بھاگا گیا، اس نے چار روپے کی جلیبیاں خریدیں، چار روپے کی ایک کلو جلیبیاں آیا کرتی تھیں۔ بھاگ کے لایا، اور آکر اس نے ان دو مزدوروں کو دے دیں۔کہنے لگا، لو آدھی آدھی کر لینا۔وہ بڑے حیران ہوئے، میں بھی کھڑا ان کو دیکھتا رہا ۔ مزدور جلیبیاں لے کے خوش ہوئے اور دعائیں دیتے ہوئے چلے گئے۔بڑی مہربانی بابا تیری، بڑی مہربانی۔ وہ جو فقیر تھا کچھ کھسیانا، کچھ شرمندہ سا تھا، زندگی میں پہلی مرتبہ اس نے خیرات دی تھی۔
وہ تو لینے والے مقام پر تھا اس لئے کچھ شرمندہ سا تھا۔میرے بابا جی نے کہا، ''اوئے کدھر جانا ایں تینوں فقیر توں داتا بنا دتا اے، خوش ہو نچ کے وکھا‘‘۔
انسان فقیر سے جب داتا بنتا ہے نا تواس کا رتبہ بلند ہو جاتا ہے،باہر نہیں تو اس کا اندر ضرور ناچنے لگتا ہے۔
(''زاویہ‘‘۔۔۔ از اشفاق احمد)
لوگوں کی اقسام
ایسے بھی محتاط لوگ ہیں جو پیکار و فشارِ زیست سے بچنے کی خاطر خود کو بے عملی کے حصارِ عافیت میں قید رکھتے ہیں۔ یہ بھاری و قیمتی پردوں کی طرح لٹکے لٹکے ہی لیر لیر ہو جاتے ہیں۔
کچھ گم صم گمبھیر لوگ اس دیوار کی مانند تڑختے ہیں جس کی مہین سی دراڑ جو عمدہ پینٹ یا کسی آرائشی تصویر سے با آسانی چھپ جاتی ہے، اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ نیو اندر ہی اندر کسی صدمے سے زمین میں دھنس رہی ہے۔
بعض لوگ چینی کے برتن کی طرح ٹوٹتے ہیں، کہ مسالے سے آسانی سے جڑ تو جاتے ہیں مگر وہ بال اور جوڑ پہلے نظر آتا ہے، برتن بعد میں۔
اس کے برعکس کچھ ڈھیٹ اور چپکو لوگ ایسے اٹوٹ مادے کے بنے ہوتے ہیں کہ چیونگ گم کی طرح کتنا ہی چباؤ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتے۔کھینچنے سے کھنچتے ہیں، آپ انہیں حقارت سے تھوک دیں تو جوتے سے اس بری طرح چپکتے ہیں کہ چھٹائے سے نہیں چھوٹتے۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ اس سے تو دانتوں تلے ہی بھلے تھے کہ پپول تو لیتے تھے۔ یہ چیونگ گم لوگ خود آدمی نہیں، پر آدم شناس ہیں۔ یہ کامیاب و کامران لوگ ہیں۔ یہ وہ ہیں جنہوں نے انسانوں کو دیکھا، پرکھا اور برتا ہے اور جب اسے کھوٹا پایا تو خود بھی کھوٹے ہوگئے۔
اور کچھ ایسے بھی ہیں کہ کار کے ونڈ اسکرین کی مانند ہوتے ہیں۔ ثابت و سالم ہیں تو سینہ عارف کی طرح شفاف کہ دو عالم کا نظارہ کرلو۔ اور یکا یک ٹوٹے تو ایسے ٹوٹے کہ نہ بال پڑا نہ دَر،کہ نہ تڑخے۔ یکبارگی ایسے ریزہ ریزہ ہوئے کہ ناعارف رہا، نہ دو عالم کی جلوہ گری، نہ آئینے کا پتا کہ کہاں تھا، کدھر گیا۔ نہ حذر رہا نہ خطر رہا، جورہی سوبے خبری رہی۔
اور ایک انا ہے کہ یوں ٹوٹتی ہے جیسے جابر سلطانوں کا اقبال یا حضرت سلیمانؑ کا عصا، جس کی ٹیک لگائے وہ کھڑے تھے کہ روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ لیکن ان کا قالب بے جان ایک مدت تک اسی طرح استادہ رہا اور کسی کو شبہ تک نہ گزرا کہ وہ رحلت فرما چکے ہیں۔ وہ اسی طرح بے روح کھڑے رہے اور ان کے اقبال اور رعب و دبدبے سے کاروبارِ سلطنت حسبِ سابق چلتا رہا۔ ادھر عصا کو دھیرے دھیرے گھن اندر سے کھاتا رہا، یہاں تک کہ ایک دن وہ چٹاخ سے ٹوٹ گیا اور حضرت سلیمان کا جسدِ خاکی زمین پر آرہا۔ اس وقت ان کی امّت اور رعیت پر کھلا کہ وہ دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔
(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ''آبِ گم ''کے مضمون ''حویلی ''سے اقتباس)