گم شدہ اشیاء ڈھونڈنے والا روبوٹ
کمال ہوگیا۔ سائنس دانوں نے ایک ایسا روبوٹ بنالیا ہے جو بڑی تیزی سے گم شدہ چیزوں کے مقام کا تعین کرسکتا ہے اور اس طرح گم شدہ اشیاء دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یہ روبوٹ بکھری ہوئی چیزوں کے ڈھیر سے گم شدہ اشیاء کو ڈھونڈ کر باہر نکال سکتا ہے۔ یہ بھی بڑی حیران کن بات ہے۔ میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) کے ماہرین نے ایک ماڈل تیار کیا ہے جس کے روبوٹک بازو ہیں جس کے ہاتھ پر ایک کیمرہ ہے اور اس کے ساتھ ریڈیو انٹینا فریکویسی ہے ۔یاد رہے کہ ریڈیو فریکونسی ہر قسم کی سطح پر سفر کرسکتی ہے۔مال چوری ہونے سے بچنے کے لیے ایئر لائنز بھی انہیں استعمال کرتی ہیں تاکہ مسافروں کے سامان کی گزر گاہ کا پتہ چل سکے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ اس افراتفری کی دنیا میں اشیاء کی تلاش کسی مسئلے سے کم نہیں۔ ایم آئی ٹی کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر کا کہنا ہے کہ ایسے روبوٹس کا ہونا جو بکھری ہوئی چیزوں کے ڈھیر سے نیچے گم شدہ اشیاء کو تلاش کرلے، آج کی صنعت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ محققین کے مطابق ایک دن ان کا نظام ایک ویئر ہائوس میں بھی چیزوں کے ڈھیر سے بہت کچھ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگا۔ کار بنانے والے پلانٹ میں ضروری اجزا نصب بھی کیے جاسکیں گے۔ اس کے علاوہ ان ضروری اجزا کی شناخت بھی ممکن ہوگی۔ مزید برآں ایک ضعیف آدمی کی گھر کے کاموں میں مدد بھی کی جاسکتی ہے۔
محققین نے روبوٹ کو سکھانے کے لئے اعصابی نیٹ ورک کو استعمال کیاجس کا مقصد روبوٹ کی رفتار کو بہتر بنانا تھا۔ مختلف ہدایات کی روشنی میں اس کی تربیت کی جاتی ہے۔اس سے ہمارا دماغ بھی بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ہمیں اپنے والدین اور اساتذہ کی طرف سے تحسین کی شکل میں بہت کچھ ملتا ہے۔ اسی طرح ہمیں کمپیوٹر گیمز بھی ''انعامات‘‘ دیتی ہیں۔ سیکھنے میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ MIT کے ایک اور پروفیسر کا کہنا تھا ''ہم ایجنٹ کو غلطیاں کرنے دیتے ہیں یا پھر کوئی کام درست کرنے دیتے ہیں پھر اس کے بعد ہم نیٹ ورک کو سزا دیتے ہیں یا انعام۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے نیٹ ورک کچھ سیکھتا ہے۔ آر ایف یوزٹن سسٹم کے لیے پیش کارکردگی ایلگورتھم کو انعام دیا گیا جب اس نے ان حرکات کو محدود کردیا جو اسے کسی گم شدہ شے کے مقام کا تعین کرنے میں کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس فاصلے کو بھی محدود کردیا جو اسے اس چیز کو اٹھانے کیلئے طے کرنا پڑا۔ جب ایک دفعہ سسٹم درست جگہ کی شناخت کرلیتا ہے تو پھر اعصابی نیٹ ورک آ رایف اور تصویری معلومات کو اکٹھا کرکے استعمال کرتا ہے۔ اس سے اسے اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ روبوٹک بازو کو کب چیز کو اپنے قابو میں کرنا ہے۔ یہ نظام گم شدہ چیز کے لیبل کو بھی جانچ لیتا ہے تاکہ یہ یقین ہوجائے کہ اس نے درست شئے کو اٹھایا ہے۔
محققین نے اس سسٹم کو کئی بار ٹیسٹ کیا اور ان کے مطابق انہیں 96 فیصد کامیابی ملی۔ انہوں نے اس سسٹم کے ذریعے ان چیزوں کو ڈھونڈ نکالا جو بکھری ہوئی اشیاء کے ڈھیر کے نیچے چھپی ہوئی تھیں یا جنہیں چھپایا گیا تھا۔
محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کبھی کبھی جب آپ صرف آ رایف کی پیمائشوں پر انحصار کرتے ہیں تو اس سے یہ ہوتا ہے کہ بیرونی حصوں کی پیمائش ہوتی ہے اور اگر آپ صرف تصویر پر بھروسہ کرتے ہیں تو اس میں یہ خدشہ موجود رہتا ہے کہ کیمرے سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔ لیکن اگر آپ ان دونوں کو اکٹھا کردیں تو پھر یہ ہوگا کہ دونوں ایک دوسرے کو ٹھیک کردیں گے۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ سسٹم کتنا مضبوط ہے۔ محققین کو امید ہے کہ مستقبل میں اس نظام کی رفتار بڑھا دی جائے گی تاکہ یہ آسانی سے حرکت کرے۔ اب یہ ہوتا ہے کہ یہ سسٹم وقتاً فوقتاً پیمائشیں لینے کیلئے رک جاتا ہے۔ اس کیلئے مناسب یہی ہے کہ اس سسٹم کو وہاں نصب کیا جائے جہاں اشیاء کی پیداوار کے عمل کی رفتار بہت تیز ہو یا پھر اس مقصد کیلئے کسی ویئر ہائوس کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
(عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اور انہوں نے اردو کے افسانوی ادب کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے۔ دوکتابوں کے مصنف بھی ہیں)