عمالقہ قوم ،سفاکیت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے
تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ قوموں کو ان کے اعمال و کردار کے بل بوتے اگر سنبھالا ہے تو انہیں اپنے انجام تک پہنچایا بھی ہے۔ جو قومیں اللہ تعالیٰ کی مہلت سے فائدہ اٹھا گئیں وہی فائدے میں رہیں اور جو احکام الٰہی سے سرکشی کی مرتکب رہیں ان کے لئے پھر رب نے ذلت اور رسوائی ہی لکھ دی۔ تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سفاک اور جابر حکمرانوں کو ہی مسلط کیا۔ حضرت موسی ؑکے دور میں ایسی ہی ایک قوم عمالقہ تاریخ کی کتابوں میں سفاکیت کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
عمالقہ کون تھے؟
تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ قوم عاد اور ثمود کے بعد کے دور میں ظاہر ہوئے تھے۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ عمالقہ قوم کے لوگ انتہائی دراز قد ، خون خوار اور وحشی فطرت کے تھے۔ عمالقہ قوم کے لوگ بنیادی طور پر عراق کے آس پاس کے علاقوں سے اٹھے اور رفتہ رفتہ مصر سے شام اور فلسطین تک خون خرابہ کرتے کرتے چاروں طرف پھیل گئے۔ قرآن کریم میں اس گروہ کو ''جبارین ‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑکے دور میں یہ بحیرہ مردار کے مغرب میں آباد تھے۔ چونکہ یہ جہاں بھی گئے اپنی سفاکیت اور حرکتوں سے باز نہ آئے جس کی وجہ سے عراق کے اشوری بادشاہوں نے انہیں صحرائے سینا کی جانب دھکیل دیا تھا ، اس دور میں ان کی اکثریت بھیڑ بکریاں پالا کرتی تھی۔
بنی اسرائیل نے جب اپنے رب کے احکامات کو فراموش کر کے بتوں کی پوجا شروع کر کے سفاکی ، سرکشی اور بدفعلی کو اپنا شعار بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ''جالوت ‘‘ نامی ایک قوم جسے ''عمالقہ ‘‘ کہتے ہیں ، مسلط کر دی۔ جالوت جو عملیق بن عاد کی اولاد میں سے تھا ، ایک سفاک اور جابر بادشاہ کی شہرت رکھتا تھا۔ عملیق بنیادی طور پر انفر کا بیٹا ، عیص کا پوتا اور حضرت اسحاق ؑ کا پڑپوتا تھا۔ اور کون نہیں جانتا کہ حضرت اسحاق ؑ ، حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے۔ عمالیق اور دیگر اولاد ابراہیم ؑ ، کنعان میں شہ زوری کی شہرت بھی رکھتے تھے۔ یہی نہیں بلکہ عمالیق نسل فطرتاً خون خواری اور جنگجو خصلتوں کی حامل تھی۔ جالوت جو عمالقہ کا بادشاہ تھا۔ کہتے ہیں پندرہ فٹ طویل قد آور اس شخص کا سایہ ایک میل لمبا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قوم بر بر کا تعلق بھی عمالقہ قوم سے ملتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس کی فوج تین لاکھ گھڑ سواروں پر مشتمل تھی۔
عمالقہ نے اشوری بادشاہوں کے دورمیں فلسطین اور شام پر بزور بازو اپنا قبضہ جما لیا تو حضرت موسی ؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ارض مقدس کو عمالقہ کے قبضے سے آزادی دلاؤ۔ چنانچہ جب حضرت موسی ؑ فلسطین کے قریب پہنچے تو انہوں نے بنی اسرائیل کے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا،'' اے قوم بنی اسرائیل! ارض مقدس میں داخل ہو جاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے لکھ رکھی ہے،اور پیٹھ نہ دکھاؤ ورنہ خسارے میں رہو گے۔‘‘اس پر بنی اسرائیل کے یہ لوگ بولے، '' اے موسی ! تم اور تمہارا پرور دگار لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ وہاں تو ایک طاقتور قوم عمالقہ آباد ہے جس کا ہم مقابلہ کرنے کی قطعاً سکت نہیں رکھتے، صرف اس صورت ہم وہاں داخل ہو سکتے ہیں کہ وہ از خود اپنے وطن کو چھوڑ کر کہیں چلے جائیں۔ ‘‘چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سرکشی کی سزا کے طور پر بنی اسرائیل کو صحرائے تیہ میں قید کردیا اور یہ لوگ چالیس سال تک اسی مختصر سے صحرا میں بھٹکتے رہے۔
میدان ِتیہ کا پس منظر
میدان ِ تیہ بنیادی طور پر شام اور مصر کے درمیان پانچ چھ فرسخ ( لگ بھگ موجودہ تیس کلومیٹر) کا ایک کھلا میدان تھا جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت موسی ؑ بنی اسرائیل کے ایک لشکر کے ساتھ قوم عمالقہ سے بیت المقدس کو آزاد کرانے نکلے تھے۔ لیکن فلسطین پہنچ کر بنو اسرائیل عمالقہ کی دہشت کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اس گروہ کو جو سزا دی اس کے تحت یہ چالیس برس تک تقریباً تیس کلومیٹر کے میدان تیہ سے باہر نکلنے کے لئے صبح سے شام تک بھٹکتے لیکن باہر نہیں نکل سکتے تھے۔
اس وادی کا یہ عالم تھا کہ یہاں نہ تو کوئی سایہ دار درخت تھا اور نہ ہی کوئی عمارت ، نہ ہی پینے کا پانی اور نہ ہی کھانے کی کوئی چیز بلکہ یہاں انسانی ضرورت کی کسی بھی چیز کا وجود تک نہ تھا۔ اگرچہ حضرت موسی ؑ اپنی قوم سے ناخوش تھے لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس قوم کے کھانے کیلئے دعا فرمائی تو اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے آسمان سے من و سلوی نازل فرمایا، دھوپ سے بچاؤ کیلئے بادل بطور سائبان مہیا کئے اور پانی کی ضرورت کیلئے جب حضرت موسی ؑ نے پتھر پر عصا ماری تو آناًفاناً پانی کے بارہ چشمے پھوٹ پڑے۔
بنی اسرائیل کی تنظیم ِنو
حضرت موسی ؑ ، حضرت ہارون ؑ اور حضرت یوشع بن نونؑ بھی ان کے ہمراہ تھے۔اس طویل عرصے کے دوران بنی اسرائیل کے وہ تمام لوگ ، جنہوں نے جہاد سے انکار کیا تھا اس جہان فانی سے رفتہ رفتہ کوچ کرتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ حضرت موسی ؑ کو حکم خداوندی ہوا کہ بنی اسرائیل کو بارہ قبائل میں تقسیم کر کے ان کی تنظیم نو کر کے ہر قبیلے کا الگ الگ سربراہ مقرر کریں جو اپنے قبیلے کے لوگوں کو دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ جہاد کی تربیت کی ذمہ داری بھی سونپے۔ دراصل یہ ساری تیاری بیت المقدس کی عمالقہ قوم سے رہائی کی پیش بندی کے طور پر کی جارہی تھی۔ چنانچہ حضرت موسی ؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں بنی اسرائیل کو بارہ قبائل میں تقسیم کر کے حضرت یوشع ؑ کو ان بارہ قبائل کا سردار مقرر کر دیا۔ بنی اسرائیل کے لوگوں کی وادیٔ تیہ کی سزا ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ حضرت موسی ؑ رحلت فرما گئے۔ ان کی وفات کے بعد حضرت یوشع ؑ نے جہاد کے لئے اپنے زیر اثر تمام قبائل کی جنگی تربیت کا آغاز کیا۔ ویسے بھی چونکہ اس وادی میں اللہ کی طرف سے من و سلوی کی فراہمی کے باعث کسی قسم کی معاشی سرگرمیاں تو تھیں نہیں۔ جس کے سبب ان لوگوں نے خوب دل جمعی سے جنگی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بیت المقدس کی رہائی کا حکم
بنی اسرائیل کے صحرائے تیہ میں سزا کے جب چالیس سال پورے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع ؑ کو حکم صادر کیا کہ بنی اسرائیل کے لوگوں کو اکٹھا کرو اور بیت المقدس کو عمالقہ قوم کے غاصبوں سے آزاد کراؤ۔چونکہ بنی اسرائیل کی نئی نسل ماضی میں اپنے بزرگوں کی جہاد سے چشم پوشی کی غلطیوں سے آگاہ تھی اور اپنی مقدس سرزمین کی آزادی کیلئے بے تاب بھی ، اس لئے انہوں نے حضرت یوشع ؑ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
چنانچہ بارہ قبائل پر مشتمل جہاد کے جذبے سے سرشار بنی اسرائیل کے چھ لاکھ افراد نے حضرت یوشع ؑ کی سپہ سالاری میں '' اریحا ‘‘ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ بنی اسرائیل کا یہ محاصرہ چھ ماہ تک جاری رہا۔بالآخر ایک دن بنی اسرائیل کے جاں نثار عمالقہ کے قلعہ کی دیوار کو گرا کر شہر کے اندر داخل ہو گئے اور اریحا شہر میں اپنا پرچم لہرانے میں کامیاب ہو ئے۔اس کے بعد کنعان کے شہر فتح کرتے ہوئے آخر میں ارض فلسطین اور شام کا پورا علاقہ فتح کرلیا۔ یوں رب نے اس روئے زمین پر ایک جابر اور سفاک قوم کو اپنے انجام تک جا پہنچایا۔
(خاور نیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں۔تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں)