اقتباسات
رکوع کا راز
میں نے ندی کنارے لڑکیوں کو پانی بھرتے دیکھا اور میں دیر تک کھڑا ان کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ پانی بھرنے کے لیے جھکنا پڑتا ہے اور رکوع میں جائے بغیر پانی نہیں بھرا جا سکتا۔ ہر شخص کو رکوع میں جانے کا فن اچھی طرح سے آنا چاہیے تا کہ وہ زندگی کی ندی سے پانی بھر سکے، اور سَیر ہو سکے۔لیکن افسوس کی بات ہے کہ انسان جھکنے اور خم کھانے کا آرٹ آہستہ آہستہ بھول رہا ہے اور اس کی زبردست طاقتور انا اس کو یہ کام نہیں کرنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ ساری دعائیں اور ساری عبادت اکارت جا رہی ہے اور انسان اکھڑا، اکھڑا سا ہو گیا ہے۔
اصل میں زندگی ایک کشمکش اور جدوجہد بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں وہ مٹھاس، وہ ٹھنڈک اور شیرینی باقی نہیں رہی جو حسن اور توازن اور ہارمنی کی جان تھی۔ اس وقت زندگی سے جھکنے اور رکوع کرنے کا پراسرار راز رخصت ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ محض جدوجہد باقی رہ گئی ہے۔
لیکن ایک بات یاد رہے کہ یہ جھکنے اور رکوع میں جانے کا آرٹ بلا ارادہ ہو ورنہ یہ بھی تصنع اور ریاکاری بن جائے گا۔ اور یہ جھکنا بھی انا کی ایک شان کہلائے گا۔
(اشفاق احمد : ''بابا صاحبا‘‘سے اقتباس)
خبر نہ تھی
دنیا بھر کی سیاحتی منزلوں کے راستے طے ہوتے ہیں، وہ وہاں موجود ہیں یہ طے ہوتاہے۔ پیرس، روم، دمشق یا قرطبہ، بہر طور وہاں ہیں تو ان کی جانب سفر کا آغاز کرتے ہوئے آپ کے بدن میں ایک پر اشتیاق سنسنی پھیلتی ہے، خون میں شیمپیئن ایسے پر خُمار گلابی بلبلے پھوٹتے ہیں لیکن یہ جو دنیا جہان کے پار الاسکا ہے، تو یہ طے نہیں ہو پا رہا کہ وہاں ہے بھی کہ نہیں۔ صرف نقشے ہماری ڈھارس بندھاتے ہیں کہ وہاں ہونا چاہئے۔
بے شک میری کوہ نوردیوں کا آغاز سولہ برس کی عمر میں ہوا جب میں گورنمنٹ ہائی کالج کی کوہ پیمائی کی ٹیم میں شامل ہو کر رتی گلی کی چوٹی تک پہنچا تھا لیکن میں بلندیوں کا تب اسیر ہوا، پہاڑوں کے جاہ و جلال کے اژدھے نے بھی مجھے ڈس کر ایک خمار آلود زہر میرے بدن میں تب داخل کیا جب میں درمیانی عمر کے زوال سے آشنا ہو رہا تھا۔اس کے باوجود میں پہاڑوں کی گوری شاہ گوری کی کنواری برفوں تک جا پہنچا تھا جو ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ اس خُمار آلود زہر کی سیاہ طاقت کے سہارے میں جھیل کرومبرکے بلند اور تنہا خواب میں چلا گیا،دنیا کا طویل ترین برفانی راستہ طے کر کے سنو لیک کے راستے عافیت سے ہیسپر کے گاؤں میں جا نکلا لیکن تب مجھ میں کچھ ہمت اور سکت تھی، ڈھٹائی تھی اور اب نہ ہمت تھی اور نہ سکت البتہ ڈھٹائی جوں کی توں موجود تھی۔ مجھے کونج پر انحصار کرنا تھا کہ وہ مجھے اپنے پروں کے سہارے الاسکا تک لے جائے،وہ میری بیساکھی تھی۔
الاسکا کے سفرکی منصوبہ بندی کرتے ہوئے ایک اور''ٹریجڈی‘‘ ہو گئی۔
مجھے خبر ہی نہ تھی۔
جیسے شمس تبریز نے مولانا روم کو کتابوں کے انبار میں محو مطالعہ دیکھ کر اپنی دیوانگی میں سوال کیا تھا کہ یہ کیا ہے؟
مولانا نے اپنے سرکاری درباری تکبر کے زعم میں نخوت سے کہا تھا کہ یہ وہ ہے جس کی تمہیں خبر نہیں۔ تو اسی ساعت ان کتابوں میں آگ لگ گئی اور مولانا ہراساں ہو کر بولے، یہ کیا ہے تو شمس تبریز نے بے اعتنائی میں کہا یہ وہ ہے جس کی تمہیں خبر نہیں۔تو میں بھی وہ تھا جسے خبر نہ تھی۔
(مستنصر حسین تارڑ۔ سفرنامہ ''الاسکا ہائی وے‘‘ سے اقتباس)