بیگم نصرت بھٹو : عزم و استقامت کا پیکر، جمہوریت کے لئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں
نصرت بھٹو مرحومہ کی زندگی صبر، حوصلہ، استقلال اور استقامت کا نادر نمونہ رہی ہے۔ ایک باوفا بیوی، مشفق ماں اور ایک مستقل مزاج رہنما کے طور پر انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ انھوں نے جس انداز میں آمریت کو للکارا، اس نے تاریخ میں جرات، ہمت اور اصول پرستی کا ایک نیا باب رقم کیا۔
جمہوریت کی علامت اور بہادری سے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کی مزاحمت کرنے والی اس خاتون کو بچھڑے آج دس سال ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ نصرت بھٹو کا 23 اکتوبر 2011 کو دبئی میں انتقال ہوا تھا۔
بیگم نصرت بھٹو 1929ء میں ایران کے شہر اصفہان میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا اور ان کے والد کراچی کی ایک بڑی کاروباری شخصیت تھے۔ نصرت بھٹو کی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے 1951ء میں کراچی میں شادی ہوئی۔ ان کے چار بچے ہوئے۔ جن میں بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور میر شاہنواز بھٹو شامل ہیں۔
نصرت بھٹو کی زندگی میں سکھ کم اور دکھ بہت نظر آتے ہیں۔ ان کے شوہر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 51 سال کی عمر میں 1979ء کو پھانسی ہوئی۔ ان کے جواں سال بیٹے شاہنواز بھٹو کی 27 برس کی عمر میں فرانس میں مشکوک حالات میں موت واقع ہوئی۔ ان کے بڑے صاحبزادے مرتضی بھٹو کو 1996ء میں 42 برس کی عمر میں ان کی اپنی بہن بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں مبینہ پولیس مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو کی بڑی صاحبزادی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں 2007ء کو دہشت گردانہ کارروائی میں 54 برس کی عمر میں قتل کیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو کے پائے کی اعلیٰ شخصیت شاید ہی کوئی ہوگی جس نے جمہوریت کے طویل سفر میں اپنے اتنے پیاروں کی لاشیں اٹھائی ہوں۔
بیگم نصرت بھٹو اپنے شوہر کی وزارت عظمیٰ تک سیاست میں سرگرم نہیں رہیں لیکن جیسے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو ضیاالحق نے قید کیا تو ان کا حادثاتی طور پر سیاسی سفر شروع ہوا اور جب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو وہ پاکستانی سیاست کا ایک نمایاں کردار بن چکی تھیں۔
5 جولائی 1977ء سے 4 اپریل 1979ء تک پونے دو برس کا عرصہ محترمہ نصرت بھٹو کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔وہ ایک طرف شوہر کی زندگی بچانے کے لیے وکلا کے ساتھ مشاورت اور سفارتی سطح پر روابط کر رہی تھیں، دوسری طرف پارٹی کے معاملات چلاتے ہوئے اسے طاغوتی قوتوں کی چیرہ دستیوں سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ اس کے ساتھ گھر کا انتظام اور بچوں کی دیکھ بھال کررہی تھیں۔ اس دوران وہ کئی بار گرفتار ہوئیں اور مختلف جیلوں میں قید و بند کی سخت صعوبتیں برداشت کرتی رہیں۔
جنرل ضیاء الحق کے ظلم و جبر کے تاریک ایام میں وہ بھٹو صاحب کیلئے امید کی کرن تھیں۔ اس آمرانہ دور حکومت میں بیگم نصرت بھٹو نے یادگار کردار ادا کیا۔ بیگم صاحبہ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے کارکنوں میں جرات و ہمت کی لوبجھنے نہیں دی۔ان کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی جبرو تشدد کے باوجود مستحکم ہو کر آمریت کیخلاف سینہ سپر رہی۔ بیگم نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کیخلاف ایک تاریخ ساز بیان میں اعلان کیا تھا کہ ''ہم پاکستان کیلئے نسل در نسل لڑیں گے اور کسی ڈکٹیٹر کے آگے نہیں جھکیں گے‘‘۔ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اپنے اس قول کو حرف بہ حرف صحیح ثابت کیا اور پارٹی کے کارکنوں نے بیگم صاحبہ کی قیادت میں جنرل ضیاء الحق کا جس جرات اور بہادری سے مقابلہ کیا وہ تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ بیگم نصرت بھٹو عزم و استقلال کا پیکر اور غیر جمہوری قوتوں کیخلاف مزاحمت کی علامت تھیں۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو جنرل ضیاء الحق کی کارروائیوں کیخلاف پیغام دیا تھا کہ ہمارے سر کٹ تو سکتے ہیں، لیکن جھک نہیں سکتے۔
یہ ایسی صورتحال تھی، جو کسی بھی شخص کے حوصلے کو شکستہ کر دینے کے لیے کافی تھے۔ مگر محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ نے اس دور ابتلا کو اپنی بصیرت، ہمت اور استقلال سے گزارا اور ان کے حوصلہ میں کوئی کمی نہیں آئی۔ گو وہ اپنے شوہر کو بچا نہیں سکیں، لیکن انھوں نے بھٹو کی نشانیوں (اولاد اور پارٹی) کو محفوظ رکھنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی۔
بیگم بھٹو کی زندگی میں جدوجہد کا دوسرا دور شوہر کی وفات کے بعد شروع ہوا۔ اس دور میں ان کے پیش نظر پارٹی کی تنظیم سازی کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کرنا تھی۔بلاشبہ بیگم نصرت بھٹو کا وہ عظیم کردار کیسے فراموش کیا جاسکتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کرنیوالے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اب ان کی پارٹی بھی بکھر جائیگی۔ یہ بیگم نصرت بھٹو ہی تھیں، جنہوں نے ایک طرف اس پہاڑ جیسے غم کو برداشت کیا اور دوسری طرف مایوس اور غمزدہ کارکنوں کو جمع کر کے جنرل ضیاء الحق کی نیندیں حرام کر دیں۔ بیگم نصرت بھٹو سر پر لاٹھیاں کھا کر بھی کارکنوں کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے ابتلا ء کے وقت میں ایک ماں، ایک رہنما اور زبردست قوت ارادی کی حامل سیاست دان کا کردار بیک وقت ادا کیا۔ ان کی دلیرانہ جدوجہد جنرل ایوب خاں کے دور سے شروع ہو کر جنرل ضیاء الحق کے دور تک محیط ہے۔وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی 1979ء سے 1983ء تک چیئرپرسن رہیں۔ کینسر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر وہ علاج کے لیے لندن چلی گئیں اور ان کی بڑی صاحبزادی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی۔
ایرانی نژاد پاکستانی بیگم نصرت بھٹو جس پائے کی شخصیت تھیں ان میں وہ غرور یا تکبر نہیں تھا جو عام طور پر سیاسی خاندانوں کے افراد میں نظر آتا ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو اپنے بچوں کی طرح پیار کرتی تھیں لیکن وہ اپنے کٹر سیاسی مخالفین سے سختی سے پیش آتی تھیں۔
بیگم بھٹو اپنے صاحبزادے میر مرتضی بھٹو کے قتل کے بعد دماغی بیماری ''الزائمر‘‘ میں مبتلا ہوگئی تھیں۔ اپنی زندگی کے آخری برس دبئی میں گزارے اور آخری ایام میں وہ کسی کو پہچاننے سے بھی قاصر تھیں۔23اکتوبر 2011ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ملک، آئین اور جمہوریت کیلئے ان کی خدمات رہتی دنیا تک یاد رہیں گی۔
(ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے موقر جریدوں
میں ان کے سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں)