داستان سرائے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی محبت کا امین
پچھلے چند برسوں سے میری اور میرے دوست ڈاکٹر حبیب الرحمن کی ملاقات بہت کم ہوتی ہے کیونکہ وہ 2000ء سے جہلم منتقل ہوچکے ہیں۔ اُن کا پروفیشن بھی میڈیکل کا ہے، جس میں اِنہیں تقریباً 13،13گھنٹے مسلسل کام کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ اسلام آباد میں ہوتے تھے تو ہم ہفتے میں ایک دو بار ضرور مل لیا کرتے تھے اور اپنے دکھڑے ایک دوسرے سے شیئر کیا کرتے تھے۔ پھر نوکری کے سلسلے میں وہ جہلم شفٹ ہو گئے، میں راولپنڈی گجرات، کنجاء اور جلال پور جٹا میں بٹ کر رہ گیا۔ اِس ساری تمہید کا مقصد آپ کو صرف یہ بتانا ہے کہ جب سے وہ جہلم گیا ہم دونوں میں رابطہ، پہلے خط کے ذریعے ہوا کرتا تھا، میرے پاس موبائل تھوڑا لیٹ آیا، اُس کے پاس تو پہلے سے تھا۔ پھر ہم دونوں فون پر بات کر لیا کرتے مگر فون پر بھی اتنی لمبی بات نہیں ہو پاتی اور نہ ہی کھل کر ایک دوسرے کے ڈپریشن شیئر ہو سکتے تھے۔ ایک دن چند برس پہلے مجھے حبیب نے فون کیا تو ہم دونوں نے یہ طے کیا کہ ہر دو تین ماہ کے بعد مہینہ کے پہلے ہفتے میں ہم لاہور جایا کریں گے۔ 05جولائی کو ہمیں ڈاکٹر کا فون آیا اور اُس نے اپنے روایتی انداز میں کہا لاہور جانا ہے، میں نے کہا ہاں ضرور جانا ہے، اُس نے کہا جمعہ کی شام جہلم آجائو، ہم دونوں اکٹھے ہفتے کی صبح لاہور نکل جائیں گے۔
لاہور جانے کا ہم دونوں کا اصل مقصد صرف یہ ہوتا کہ ہم جب ایک دوسرے کے ساتھ کار میں بیٹھتے ہیں تو بے مقصد بات چیت کرنے لگ جاتے، جس کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ راستے میں بھوک لگتی ہے تو کسی ڈھابے سے ناشتہ کر لیتے ہیں یا کسی بیکری سے جوس وغیرہ پی لیتے۔ لاہور جانے کا مقصد، ادبی دوستوں سے ملنا ملانا ہوتا ہے۔ اِس دفعہ میرا خاص مقصد یہ تھا کہ داستان سرائے ماڈل ٹائون جانا ہے۔ میں نے حبیب کو بتا دیا تھا، اِس نے کہا ٹھیک ہے، میں ہوٹل جا کر سو جائوں گا، تم داستان سرائے چلے جانا۔ داستان سرائے اس لئے جانا تھا کیونکہ وہاں اشفاق احمد بابا جی، قدسیہ ماں جی کے حوالے سے میری بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ میں نے اس داستان سرائے سے بڑا فیض پایا ہے۔ اس کا داستان گو اثیر احمد خان میرا بہت اچھا دوست ہے، اُس کا اور میرا مینٹل لیول ایک جیسا ہے، گو کہ میں عمر میں اُس سے بڑا ہوں۔ وہ 15جون 1963ء کو داستان سرائے میں وارد ہوا، اثیر احمد خان اشفاق بابا جی اور بانو ماں جی کے تین بیٹوں میں سے سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔ انیق احمد خان، انیس احمد خان اور اثیر احمد خان۔ انیق امریکہ میں ہے، انیس ابھی چند ماہ پہلے ہمیں چھوڑ کر اس دُنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں تو اثیر کو سجادہ نشین کہتا ہوں کیونکہ اب داستان سرائے میں داستان گوئی کا کام اثیر کے حصے میں آگیا ہے۔
لاہور پہنچا تو حبیب کو چھوڑا اور ٹیکسی کرا کر داستا ن سرائے پہنچ گیا۔ اثیر کمرے میں داخل ہوا، کالی شلوار قمیض پہنے ہوئے تھا، وزن بھی زیادہ لگ رہا تھا، مجھے آواز دی، امین آ گیا ہے ۔ سب سے پہلے اُس نے مجھ سے پوچھا ''ناشتہ کیتا ای‘‘، پھر ملازم کو آواز دی اور کہا کہ آملیٹ بنا لے،پراٹھا اور اچار چائے کے سا تھ لے آ، اور اپنے پینے کے لئے ایک چائے کا کپ منگوایا۔ پھر ہم دونوں باتیں کرنے لگے، ناشتہ آگیا، اور میں نے ناشتہ کرنا شروع کیا۔ جب میں ناشتہ کر رہا تھا تو اثیر مجھے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاید اثیر محسوس کر رہا تھا کہ میں بہت زیادہ بھوکا ہوں۔ میں جلدی جلدی کھا رہا تھا، میری یہ حالت دیکھ کر اثیر نے کہا، ایک پراٹھا اور منگوائوں؟ میں نے کہا نہیں یار میری عادت ہے ہر کام جلدی کرنے کی ۔ پھر میں نے اُس سے پوچھا ، تیری کوئی اور مصروفیت تو نہیں ہے آج؟ اُس نے کہا نہیں،شام 5بجے ایک قل پر جانا ہے۔ میں نے کہا چل ٹھیک ہے باقی ٹائم میں تیرے سر پر ہوں۔ ہم دونوں مسلسل تقریباً چار، ساڑھے چار گھنٹے باتیں کرتے رہے۔
میں اثیر کی شخصیت سے پہلے ہی بہت زیادہ متاثر تھا، متاثر ہوں، اور ہمیشہ متاثر رہوں گا۔ میں نے اثیر کو یہ بات بتائی بھی، بابا میں تیرے سے فیض پانا چاہتا ہوں۔ تو اُس نے کہا رب کے ساتھ بات کیا کر، اکیلا بیٹھ کر حقوق اللہ تو اپنی جگہ، اُس کے علاوہ بھی یہ بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے ہمارا چینل آن نہیں ہوگا۔ میں نے کہا، میں تو ہر کام 33نمبروں والا کرتا ہوں کہ بس پاس ہوجائوں۔ میرے پاس فرسٹ آنے کا کوئی گر اور طریقہ نہیں۔اثیر نے ہنس کر کہا کہ میں بھی 33نمبروں والوں میں سے ہوں۔ پتا نہیں وہ مجھے حوصلہ دے رہا تھا، یا میرا دل رکھ رہا تھا۔ ڈھائی تین بجے مجھے پوچھا بھوک تو نہیں لگی ہے، کھانا کھائے گا؟ میں نے کہا میں نے کچھ نہیں کھانا۔ پھر بے شمار باتیں ہم نے کیں، تصوف کے حوالے سے، دُنیاوی حوالے سے باطنی حوالے سے ظاہری حوالے سے۔میں نے ٹائم دیکھا اور کہا اثیر یار اِس سے پہلے مجھے تو کہے کہ اب تو جا، میری جان چھوڑ، یا ہماری گفتگومیں یہ موضوع شروع ہو جائے ''اور سُنائو کیا حال ہے‘‘، ''یار موسم بڑا گرم ہوگیا ہے‘‘۔ میں نہیں چاہتا اس طرح کی گفتگو ہو۔ میں نے اثیر سے اجازت لی اور دوبارہ ملنے کا کہا۔ اُس نے کہا کل صبح آجا مگر اچانک پھر مجھے اُسی رات واپس آنا پڑا اور میں نے اثیر کو واٹس ایپ کر دیا کہ یار یہاں بھی 33نمبروں والا مسئلہ آگیا ہے۔
امین کنجاہی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ
رہ چکے ہیں،ملک کے موقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔