مادام تساؤ میوزیم ،دنیا کی تاریخ کا عینی شاہد مومی عجائب گھر
لندن کے مادام تسائو میوزیم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ تو نہیں کہا جا سکتا مگر جو کوئی بھی اس عجیب و غریب میوزیم کو ایک بار دیکھ آتا ہے اسے یہ تاریخی عمارت عجوبے سے بھی کوئی آگے کی چیز لگتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس میں کسی قسم کا مبالغہ بھی نہیں ہے۔ مادام تسائو میوزیم دراصل اس بچی کی کہانی ہے جس کا اصل نام ''میری گروشولز‘‘تھا۔1761ء میں اس کا باپ یورپ کی سات سالہ جنگ میں مارا گیا۔ تب وہ اپنی ماں کے ساتھ پارسی ڈاکٹر فلیس کریٹس کے گھر چلی گئی اور گھریلو کام میں اس کا ہاتھ بٹانے لگی۔
ڈاکٹر فلیس کریٹس خود بھی عجیب و غریب مومی چیزیں اور مجسمے بنا کر ان کی نمائش کیا کرتا تھا اور اس سے اچھے خاصے پیسے کماتا تھا۔ اس نے اپنے گھر میں جو آرٹ گیلری بنا رکھی تھی اس میں اپنے وقت کے معروف اساتذہ، ماہر تعمیرات، کھلاڑیوں حتیٰ کہ چوروں، ڈاکوئوں اور لٹیروں کے مجسمے بھی موجود تھے۔ اس کی یہ آرٹ گیلری کسی قدیم زمانے کا ایک غار معلوم ہوتی تھی۔ یہاں ڈاکٹر کریٹس سے مومی چیزیں بنانے کی مہارت حاصل کرنے کے بعد میری اس قابل ہو گئی تھی کہ وہ یہ تعلیم مزید کسی دوسرے کو دے سکے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مادام تسائو (میری) فرانس کے شاہ لوئس XVIکی چھوٹی بہن کو آرٹ کی تربیت دینے پر مامور ہو گئی۔
دلچسپ و حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس وقت میری بمشکل 9برس کی تھی جب وہ شاہ لوئس کی بہن کو آرٹ کی تربیت دے رہی تھی۔ اسی دوران انقلاب فرانس رونما ہوا جس میں میری (مادام تسائو) کو بھی قید کر دیا گیا۔ اسے فرانس کی شہزادی کے برابر والا سیل (کمرہ) دیا گیا چونکہ میری کی مجسمہ سازی کی مہارت سے انقلابی گروپ بھی واقف تھا اس لئے اس ننھی قیدی بچی سے کہا گیا کہ وہ انقلاب فرانس میں ہلاک ہونے والی اہم شخصیات کے ماسک تیار کرے۔
9سالہ میری کیلئے یہ ایک بہت ہی خوفناک بلکہ ہولناک تجربہ تھا کہ ایسے لوگ جن کے چہرے جنگی ہلاکت کے بعد بری طرح سے مسخ اور ڈرائونے ہو چکے تھے جن کے کٹے ہوئے سر بھی لا کر باقاعدہ اسے دکھائے گئے تھے۔ اسے کہا گیا کہ وہ ان چہروں کو سامنے رکھ کر ایسے ہی ہو بہو ماسک تیار کرے۔ لہٰذا میری نے سب سے پہلے فرانس کے ہلاک ہونے والے بادشاہ اور اس کی ملکہ کے چہرے کے ماسک بنائے۔ جسے انقلابیوں نے بہت پسند کیا اور پھر میری کو اس کام کیلئے ہی مخصوص کر دیا گیا۔
اسی طرح وقت تیزی سے گزرتا رہا۔ میری کی مجسمہ سازی کی شہرت اور مہارت دور دور تک چلی گئی۔ اسی دوران ایک فرانسیسی باشندہ فرانسکو تسائو میری کی شخصیت اور فن کا اس قدر مداح ہو گیا کہ اس نے اس مجسمہ ساز لڑکی کو شادی کی پیشکش کی جو میری نے بہت سوچ سمجھ کے بعد قبول کر لی۔ 1807ء میں مادام تسائو نے شوہر سے قانونی طور پر علیحدگی حاصل کر لی اور پیرس کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر لندن آ گئی۔ وہ اپنے ساتھ اپنے بیٹے کو بھی برطانیہ لے آئی۔1802ء میں مادام تسائو نے لندن آکر ''مادام تسائو میوزیم‘‘ کی بنیاد رکھی۔
برطانیہ آکر مادام تسائو کو پتہ چلا کہ برطانوی حکومت اور یہاں کے باشندے تو پہلے ہی اس کے فن کے شیدائی ہیں۔ اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے خصوصی طور پر مادام تسائو سے رابطہ کیا اور اسے کہا گیا کہ وہ منہ مانگے داموں پر انقلاب فرانس کے بارے میں نہ صرف ہلاک ہونے والوں بلکہ جنگی عمل کو بھی اپنے فن کی صورت میں محفوظ کر لے۔ اپنی انہی کوششوں اور جدوجہد میں مصروف رہنے کے بعد 15اپریل 1850ء کو مادام تسائو اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
مادام تسائو جب برطانیہ آئی تو وہ برطانیہ کے شاہی خاندان اور اس کے افراد سے بے حد متاثر تھی۔ تب اس نے کئی برطانوی بادشاہوں کے مجسمے بھی بنائے تھے۔ آج میوزیم میں ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان کی تمام شخصیات کے مجسمے موجود ہیں۔مادام تسائو نے 33برس تک اپنے مشاہدے کیلئے سیرو سیاحت بھی کی جس کے بعد اس نے لندن کی بیکرسٹریٹ میں میوزیم بنانے کیلئے ایک جگہ حاصل کی۔
اس میوزیم میں خاص طور پر ایک ایسا چیمبربنایا گیا تھا جہاں انقلاب فرانس کے بارے میں تاریخی مجسموں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اسی میوزیم کے خاص کمرے کا دروازہ حساس اور بزدل لوگوں کیلئے ہمیشہ بند رہتا تھا۔ کیونکہ اس کمرے میں بہت خوفناک مناظر تھے۔ اس چیمبر کے شائقین میں چارلس ڈکنز بھی تھا جس نے کھلے عام یہ چیلنج دے رکھا تھا کہ جو کوئی ایک رات بھی اس میوزیم میں گزار لے گا وہ بھاری انعام کا مستحق ہوگا۔ مگر چارلس ڈکنز کا یہ چیلنج آج تک کوئی قبول نہیں کر سکا۔
مومی میوزیم میں رکھا مادام تسائو کا مجسمہ اس کی موت سے 8سال قبل 1842ء میں بنایا گیا تھا جب وہ خاموش اور غیر معمولی زندگی بسر کر رہی تھی اور انقلاب فرانس کی نشانیوں کو مجسموں کی صورت میں محفوظ کر رہی تھی۔
میوزیم میں جنوبی افریقہ کے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کا مجسمہ 1996ء میں بنایا گیا۔ سرخ لباس میں ڈیانا کا مجسمہ بنانے کیلئے باقاعدہ ڈیانا کی ماڈلنگ کروائی گئی تھی۔ مادام تسائو میوزیم کے خاص چیمبر میں ان لوگوں کے ماسک بھی رکھے گئے ہیں جن کے سر انقلاب فرانس میں قلم کر دیئے گئے تھے۔ ان بدنصیبوں میں شاہ لوئس16اور میری انتونیو شامل ہیں۔ امریکی صدر کینیڈی کا مجسمہ بھی میوزیم کی زینت ہے۔ ان کا مجسمہ 1961ء میں شامل کیا گیا ۔ اس کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی کا مجسمہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ کیوبا کے لیڈر فیڈل کاسترو کا مجسمہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔
مادام تسائو میوزیم کے اپنے اسٹوڈیوز ہیں جہاں مومی مجسمے بنانے سے پہلے شخصیات کی ماڈلنگ کی جاتی ہے۔ چہرے کے مطابق سائز لے کر ماسک تیار کئے جاتے ہیں۔ میوزیم کی نگران جینی کے مطابق مجسمے پہلے مٹی سے بنائے جاتے ہیں پھر ان کے اوپر پلاسٹر چڑھایا جاتا ہے اور اس کے اوپر فائبر گلاس استعمال ہوتا ہے اس سے ڈھانچہ کافی مضبوط ہو جاتا ہے جبکہ چہرہ ویکس سے بنایا جاتا ہے۔