آدم بیزار
میری اس سے دوستی 2003ء میں شروع ہوئی جب یہ ایک بڑے میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ تھا۔ اس کا اور میرا دفتر آمنے سامنے تھے۔ ہم دونوں کے فرصت کے لمحات اکثر اکٹھے گزرتے۔ اگر اور کہیں نہیں تو لاہور پریس کلب ہی اکٹھے ہو جاتے کیونکہ یہ ہمارے دفتروں سے چند قدم کی دوری پر تھا۔ یہ نہ صرف ایک بہت اچھا لکھاری بلکہ کئی کتابوں کا مصنف بھی تھا۔ اس کو تاریخ بالخصوص تاریخ پاک و ہند اور حالات حاضرہ پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ایک مرتبہ ایک قومی ادارے کی طرف سے تاریخ پاکستان کے موضوع پر کتاب تحریر کرنے پر اسے سیکنڈ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ بعدازاں اس نے ایک اور میڈیا گروپ جوائن کر لیا لیکن ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ جوں کا توں رہا۔
ایک دن جب میں پریس کلب کی ایک تقریب سے فارغ ہوا تو ایک دم ذہن میں آیا کہ کیوں نہ اس سے ملتا چلوں کیونکہ اس کا دفتر یہاں سے کچھ زیادہ دور نہ تھا اس لئے تھوڑی ہی دیر میں میں اس کے دفتر جا پہنچا۔ خلاف توقع اس دن یہ مجھے کچھ ریلیکس دکھائی دیا۔ میں نے بیٹھتے ہی کہا یار اچھی سی کافی بنواؤ۔ کہنے لگا کیوں نہ آج باہر چل کے کسی اچھی جگہ بیٹھ کر گپ شپ کے ساتھ کافی پی جائے؟ تجویز اچھی تھی اس لئے تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں مال روڈ کے ایک کافی ہاؤس پہنچے ہوئے تھے۔
ایسا بہت کم ہوتا کہ مال روڈ آ کر میں انارکلی کی ایک تنگ سی گلی میں واقع اولڈ بک شاپس نہ جاؤں۔ کسی زمانے میں اس گلی میں پرانی کتابوں کی بے شمار دکانیں ہوا کرتی تھیں جہاں ہر وقت کتابوں کے شائقین کا جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ مگر افسوس اب سوشل میڈیا اور دوسرے پرکشش ذرائع نے نوجوان نسل کو تو کتاب سے بالکل ہی لاتعلق کر کے رکھ دیا ہے۔ جس کے سبب اس ''کتاب دوست مارکیٹ‘‘ کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں اور معدودے چند دکانیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ ان دکانوں پر ایسی ایسی نایاب کتابیں بھی ملتی تھیں جن کا انسان تصور بھی نہ کر سکتا تھا۔ اس مارکیٹ کا سب سے روشن پہلو یہ تھا کہ ہر موضوع حتیٰ کہ میڈیکل سے لیکر انجینئرنگ تک کی نصابی کتابیں ہمہ وقت انتہائی کم قیمت میں دستیاب ہوتی تھیں۔ اور تو اور سیکڑوں ڈالرزکی غیر ملکی کتابوں کے ''پائریٹڈ ایڈیشن‘‘ کی کتابیں محض چند سو روپوں میں طالب علموں کو مل جاتی تھیں۔ گویا شائقین کتب کے ساتھ ساتھ طلباء کے لئے بھی یہ دکانیں کسی نعمت سے کم نہ تھیں۔
کافی پیتے پیتے جب میں نے اپنے اس دوست کو اس کتاب گلی جانے کا کہا تو کہنے لگا یار میں تو یہاں بہت باقاعدگی سے آتا رہتا ہوں چلو اٹھو چلتے ہیں۔ کتاب گلی زیادہ دور نہ تھی چنانچہ ہم کچھ ہی دیرمیں وہاں پہنچ گئے۔ ہم مختلف دکانوں کی کتابیں کھنگالتے کھنگالتے اس مخصوص دکان پر آ گئے جسے میں ہمیشہ آخر میں وزٹ کیا کرتا تھا۔ یہ سب سے مختلف نوعیت کی دکان یوں تھی کہ اس پر کتابوں کا ذخیرہ دوسری دکانوں کی نسبت کہیں زیادہ گاہکوں کی تعداد محدود اور دکاندار کا رویہ انتہائی خشک اور بے لچک ۔ لیکن پھر بھی جانے کیوں ہمیشہ سے یہ دکان میری ترجیحات میں شامل رہتی۔ اس دکاندار کا مخصوص انداز یہ تھا کہ یہ ہمیشہ دکان کے داخلی راستے میں ایک سٹول نما نشست پر آڑھا ترچھا بیٹھا ہوتا تھا جس کی نظریں اندر آنے والے گاہکوں اور باہر گلی کے درمیان متواتر گھومتی رہتی تھیں۔ اگر آپ کسی کتاب بارے پوچھ بیٹھتے تو بنا آپ کی طرف رخ کئے جواب دیتا، ''خود ہی ڈھونڈ لو، آگے پیچھے کہیں پڑی ہو گی‘‘۔
اگر آپ قیمت کا سوال کرتے تو اس کا جواب ہوتا، ''پہلے صفحے کے اوپر پینسل سے درج ہے‘‘۔
ایک مرتبہ ایک نایاب کتاب جس کی مجھے عرصے سے تلاش تھی اچانک نظر آگئی۔ میں نے اس کی قیمت دیکھی تو لکھا تھا، سات سو روپے۔ میں نے کہا محترم یہ تو ''سیکنڈ ہینڈ‘‘ کتاب ہے جبکہ اصل کی قیمت ہی آٹھ سو روپے ہے۔ میری طرف دیکھے بغیر کہنے لگا،''بہتر ہو گا آپ جا کر نئی ہی خرید لیں‘‘۔
اس کی شخصیت کا ایک اور پہلو کہ یہ جہاں دیکھ رہا ہوتا تھا دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی اپنا رخ تبدیل نہیں کرتا تھا خواہ اس کی نظریں سامنے دیوار پر ہی کیوں نہ مرکوز ہوتیں۔
میں اکثر سوچتا کہ کبھی اس سے اس کی ''آدم بیزاری‘‘ کی وجہ پوچھوں لیکن یہ سوچ کر کہ جو اپنے کاروباری معاملات بارے روکھا سا جواب دیتا ہے، وہ بھلا اپنی ذات بارے کسی کو کیوں کر کچھ بتلائے گا۔
آج جانے کیسے میں نے ہمت کر کے اس سے ایک سوال کر ہی ڈالا کہ یہ اتنی ساری کتابیں جو ایک عرصے سے نہیں بک پاتیں ہوں گی تو کیا آپ کو غصہ نہیں آتا؟ چہرے پے ہلکی سی ناگواری لا کر بولا،''بھائی کیوں نہیں آتا‘‘۔ ساتھ پڑی ایک کتاب کو ان دیکھے اٹھا کے ہوا میں لہراتے ہوئے کہنے لگا، ''یہ اور اس جیسی لاتعداد منحوس کتابیں برسوں میرا منہ چڑھاتی رہتی ہیں۔ جس سے مجھے ہمیشہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس نے کتاب واپس اپنی جگہ پر پٹخی اور دوبارہ گلی کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کر دیا اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہ کتاب میرے ساتھ آئے اسی دوست کی انعام یافتہ کتاب تھی جو کچھ عرصہ پہلے بہترین کتاب کا انعام حاصل کر چکی تھی۔
خاورنیازی لاہور میں مقیم ایک سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں)