مسلمانان برصغیر کے عظیم محسن سرسید احمد خان 17اکتوبر 1817ء دہلی میں پیدا ہوئے۔آپ نے اُس وقت آنکھ کھولی ، جب ہندوستان میںعظیم الشان مغلیہ حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ ہر جانب انگریزوں کی مداخلت زور پکڑ رہی تھی۔ آپ کے والد سید محمد تقی ایک آزاد منتش بزرگ تھے۔ آپ کے والد کو اکبر شاہ ثانی نے وزارت کا عہدہ دینا چاہا مگر اپنی قناعت پسندی اور عاجزی کی بنا پر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ سرسید نے اپنے زمانے کے دستور کے مطابق قرآن مجید، عربی، فلسفہ اور طب کی تعلیم حاصل کی۔ اپنے زمانے کے مشہور و معروف شاعر آزاد، مومن اور غالب کی صحبتوں نے ان کے علمی و ادبی ذوق کو ابھارا۔ پہلے سرسید احمد خان نے 1837ء میں ملازمت اختیار کی، آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے ساتھ منسلک رہے۔ 1841ء میں مقابلہ کا امتحان پاس کیا اور منصف مقرر ہوئے۔1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانانِ برصغیر کے حالات پسماندگی کا شکار ہو گئے، مسلمانوں کی وہ حکومت جو انھوں نے بہت جدوجہد کے بعد قائم کی تھی، اپنوں کی سازشوں اور اغیار کی اجارہ داری اور مکاریوں کے باعث ختم ہوکر رہ گئی۔ مسلمانوں کو تعلیمی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر ذچ کرنے میں تاجِ برطانیہ نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ایسے میں مسلمانوں کی درماندگی اور پسماندگی اور حالات کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے سرسید احمد خان بطورِ مسیحا قوم کے سامنے آئے۔سرسید احمد خاں نے مسلمانان برصغیر مین روشن خیالی پیدا کرنے اور انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی غرض سے تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک کا فوکس تعلیم تھا کیوں کہ سرسید جانتے تھے کے علم ہی وہ طاقت ہے جو قوم کے مستقبل کو سنوار سکتی ہے۔ اس تحریک کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ سر سید چاہتے تھے کے مسلمانوں میں مغربی تعلیم کی ترویج کی جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جو اقدامات کیے ان میں ایک نہایت موثر اقدام دسمبر 1886ء میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا قیام تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے تعلیمی مسائل حل کرنا اور ان کوجدید سائنسی علوم اور مغربی لٹریچر کی طرف راغب کرنا تھا۔ سر سید کا نقطہ نظر یہ تھا کہ مسلمانوں کے مفاد کا تحفظ صرف اسی صورت ممکن ہے وہ متحد ہو جائیں اور سب مل کر ان مسائل کا حل تلاش کریں جن کا انہیں سامنا ہے، اور اس مرکزی پلیٹ فارم سے مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی ترقی ہوسکے۔ 1857ء کے بعد مسلم ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کی پہلی باقاعدہ انجمن کے طور پر سامنے آئی۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے مقاصد میں: مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف مائل کرنا، ان کے ماضی کے سرمائے کو محفوظ کرنا، یورپین لٹریچر کو اردو میں ترجمہ کرنا۔ مسلمانوں نے جو قدیم علوم میں ترقی کی اس کی تحقیقات کرانا اور اس کے متعلق اردو اور انگریزی میں رسالہ جات تحریر کرنا اور اس سے لوگوں کو آگاہ کرنا، مشہور مصنفیں اور علما اسلام کی سوانح عمریوں کو اردو میں لکھوا کر شائع کرنا شامل تھے۔اس کے بعد سرسید نے 1864ء میں ایک سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ سرسید کی نظر میں اس ادارے کا اصل مقصدا انگریزی کتابوں کا اردو ترجمہ کرنا تھا۔اس سوسائٹی نے دو زبانوں (انگریزی اور اردو) میں ایک جریدے کا بھی آغاز کیا۔1875ء میں علی گڑھ میںایک سکول محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او سکول) قائم کیا اور پھر یہی سکول سرسید کی کاوشوں سے ہی 1877ء میں کالج بن گیا۔ 1876ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور علی گڑھ منتقل ہوگئے۔پھر سرسید نے آل انڈیا محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی گئی ، جس کا بنیادی مقصد برصغیر کے مشہور و معروف مسلمانوں کو سال میں ایک مرتبہ اکٹھا کرنا اور مسلمانوں کے تما م تر مسائل بالخصوص تعلیمی مسائل پر توجہ دینا۔ یہ ایک پلیٹ فارم تھا جس سے ملکی و قومی مسائل پر پر اظہارِ خیال کا موقع بھی دینا تھا۔جس شہر میں بھی اس کا اجلاس ہوتا، وہاںعلی گڑھ کی طرز کا ایک تعلیمی ادارہ ضرور قائم ہوتا۔اس کے بعد سرسید کا علی گڑھ میں قائم شدہ کالج کو 1920ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔سر سید احمد خان صرف ایک ماہر تعلیم اور فلسفی اور استاد ہی نہ تھے، بلکہ قومی رہنما ، مصنف،مصلح اور رہبر بھی تھے ۔انھوں نے ٖصرف مسلمانوں کو جدید تعلیم سے ہمکنا ر کیا بلکہ معاشرتی واخلاقی تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ سر سید اُس وقت سامنے آئے ، جب مسلمان شدید الجھنوں اور انگریزوں کی سخت نظروں کا شکار تھے۔سر سید احمد نے انگریزوں کو اپنا رسالہ ''اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘لکھ کر باور کروایاکہ محض مسلمان ہی جنگ آزادی کی ناکامی کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جس سے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان مفاہمت کی راہ ہمورا ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ سر سید نے مسلمانوں کے معاشرتی معیار کو بلند تر کرنے کی کوشش کی ۔سر سید نے ہی مسلمانانِ ہند کیلئے 1877ء ''رسالہ تہذیب اخلاق‘‘ کاآغاز کیا، جس سے مذہبی خیالات کی اصلاح کی اور انھیں ترقی کی جانب مائل کیا۔سرسیّد کے تعلیمی اداروں میںطلباء کوادب و احترام اور نماز روزے کا پابند بنایا جاتاتھا۔ مسلمانوں نے اپنے زوال کے وقت سے بہت سی غلط باتیں اپنا لی تھیں۔ جس کا سدباب بھی سرسید تحریک کے زیر اثر ہوا۔ سر سید نے ہی مسلمانوں کیلئے ایسے مضامین کااجراء کیا، جس سے مسلمان جدیدمغربی علومِ سائنسی اور انگریزی ادب کو بھی شامل کیالیکن ان کے ساتھ عربی، فارسی ، اردو، تاریخ ، جغرافیہ جیسے مضامین کو بھی شامل نصاب کیا۔انھوں نے ایسے مضامین شامل کیے ، جس سے طلباء کی فکری اور ذہنی صلاحیتوں کوجلابخشی جائے۔سرسید احمد خان تعلیم کے حوالے سے خود کہتے تھے کہ'' تعلیم سے مُراد جو کچھ انسان کے اندر ہے ، اسے باہر نکالنا اور تربیت سے مُراد اس کو کسی کام کے قابل بنانا ہے‘‘۔ سرسید چاہتے تھے کہ مسلمان بچوں کو اس قسم کی تعلیم دی جائے کہ وہ اپنی عملی زندگی میں منطقی خیلات کو کام میں لا سکیں۔سر سید احمد خان کو ہی دوقومی نظریے کابانی کہا جاتا ہے۔ سرسید احمد خان کو 1888ء میں حکومت برطانیہ کی جانب سے ''سر‘‘کا خطاب ملا۔ان کے تمام تر تعلیمی اور معاشرتی نظریات کی کئی جگہوں پرشدید مخالفت بھی ہوئی ، لیکن سر سید نے مسلمانوںکو اندھیرے سے نکالنے کیلئے اپنے مشن کو جاری وساری رکھا۔سرسید نے مسلمانوںکا اردو، ہندی تنازع اور کانگریس کی سیاسی سرگرمیوںکے باعث ہر طرح سے دفاع کیااور کسی سازش کو بھی کامیاب نہ ہونے دیا۔سرسید کی علی گڑ ھ تحریک کی بدولت ہی مسلمانوں کو سرکاری ملازمتیں ملیں، انہی کے فارغ التحصیل طلباء نے تحریک آزادی اورپاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ نواب وقار الملک سرسید کے رفقاء میں سے تھے جو مسلمانوں کے دفاع میں پیش پیش رہے۔مسلم لیگ کی تشکیل اور شملہ وفد کی تشکیل میںسر سید کے طلباء اور رفقاء ہی شامل تھے۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کی مرکزی تنظیم بھی علی گڑھ کی بدولت شامل ہے۔وہ27مارچ 1889ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے اور اپنے کالج میںدفن ہوئے ۔سرسید احمد نے قوم کی بہتری کیلئے بطورِ استاد اور رہنما کے بہت سی تصانیف لکھیں۔ جن میں آثارِ الصنادید، رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند ، ترجمہ کیمیائے سعادت، خطباتِ احمدیہ ، مقالاتِ سرسید، سفر نامہ لندن ، تفسیر القرآن، تصیح ، آئینِ اکبرہ وغیرہ شامل ہیں۔ سرسید احمد خان ہر لحاظ سے قوم کیلئے ایک بہترین رہنما ثابت ہوئے۔ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔آج بھی ہمیں اپنے نظامِ تعلیم کی بہتری کیلئے سرسید جیسے ماہر تعلیم ، استاد اور فلسفی کی بے حد ضرورت ہے۔تاکہ قوم ِپاکستان جس زبوں حالی کا شکار تعلیم کے ذریعے ہے، اس کا سدِباب ہوسکے۔زندہ قومیں اپنے محسنوں کو ہمیشہ یا د رکھتی ہیں، ہم پر فرض ہے کہ ہم اپنی نئی نسل تک ان کا پیغا م اور انداز عملیت پہنچائیں اور خصوصاً تعلیم کہ میدان میں ترقی کریں کیوں کہ تعلیم ہی کے ذریعے ملک کی ترقی ممکن ہے ۔