زرد پتے
چند برس پہلے مجھے جرمنی جانے کا اتفاق ہوا اور یہ اتفاق بھی ایک اور اتفاق کی وجہ سے ہوا کہ میرا ''شین جن ویزا‘‘ (Schengen Visa) لگ گیا، میری فلائٹ اسلام آباد سے کراچی، کراچی سے استنبول، استنبول سے ہیلسنکی(فن لینڈ)، ہیلسنکی سے دو گھنٹے مزید بس کا سفر تھا۔ ہیلسنکی ایئر پورٹ پر مجھے میرا دوست احمدلینے آگیاجووہاں پی ایچ ڈی کرنے گیا ہوا تھا اور سکینڈی نیوئین ممالک کا یہ اصول ہے کہ جب کوئی پی ایچ ڈی کا سٹوڈنٹ اُن ممالک میں جاتا ہے تو اُس کو فیملی ویزہ دے دیا جاتا ہے۔
میرا بچپن کا شوق تھا کہ میں یورپ دیکھوں مگر ظاہری طور پر مجھے کبھی نہیں لگتا تھا کہ میں کسی یورپی ملک جا سکوں گا۔ پھر ایک ایسا اتفاق ہوا کہ احمد فن لینڈ چلا گیا تو میں نے اُسے کہا کہ یار میرا بھی ویزا لگوا دے۔ اُس نے کہا کہ میں تجھے سپانسر لیٹر بھیج دیتا ہوں تم اپنا پاسپورٹ، اپنی بینک اسٹیٹمنٹ اور اپنے آفس سے این او سی لے کر اسلام آباد میں فن لینڈ کے سفارتخانہ میں ویزہ کے لئے اپلائی کردو۔ میں نے احمد کے کہنے کے مطابق سارے کاغذات مکمل کئے اور جا کرسفارتخانہ میں جمع کروا دیئے اور اُس کے بعد انتظار شروع ہو گیا۔ تقریباً ایک ہفتے کے بعد سفارتخانہ سے فون آیا کہ کل صبح 10بجے آجائیں، آپ کا انٹرویو ہے۔ 10بجے سفارتخانہ کے اندر داخل ہوا، سکیورٹی والوں نے کلئیر کر کے ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا دیا، تقریباً 15منٹ کا انٹر ویو ہوا، اُس کے بعد اُنھوں نے کہا کہ آپ جا سکتے ہیں۔ ہم آپ کو فون پر اطلاع دے دیں گے کہ پاسپورٹ کب واپس ملے گا۔
تقریباً دو ہفتے بعد ٹیلی فون آیا کہ اپنا پاسپورٹ لے جائیں، جب میں سفارتخانہ کے اندر گیا تو کاؤنٹر کی دوسری طرف سے سفارتخانہ کے ایک ملازم نے جو کہ پاکستانی تھا نے مجھے میرا پاسپورٹ واپس کر دیا۔ میں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے جب اپنا پاسپورٹ کھولا تو اُس پر شینجن ویزا لگ چکا تھا۔
احمد مجھے ہیلسنکی سے اپنے گھر لے گیا۔ فن لینڈ مجھے بہت اچھا لگا، پُرسکون صاف ستھرا، خاموش، کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے کوئی تعلق یا رابطہ نہیں، سب اپنی اپنی دھن میں مگن۔ کسی کی ہمسائے کے ساتھ کوئی بات چیت، لین دین یا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ میں تقریباً دو ہفتے احمد کے ساتھ رہا۔ میرے پاس ''شینجن‘‘ تھا، میں پورا یورپ بغیر ویزہ کے گھوم سکتا تھا۔ دو ہفتے کے بعد میں نے احمد سے کہا یار میرا ایک دوست جرمنی میں رہتا ہے، میں نے وہاں جانا ہے۔ اُس نے کہا تمہیں یہاں سے فلائٹ نہیں ملے گی، تمہیں تامپرے جانا پڑے گا۔ جس کے لئے میں نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اورساتھ ہی احمد نے مجھے ایک بہت ہی سستی ایئر لائن ''رائل ایئر لائن‘‘ کا ٹکٹ 50 یورو میں لے دیا۔ رائل ایئر کے جہاز نے مجھے دوگھنٹے کی فلائٹ میں جرمنی ایئر پورٹ پر اُتار دیا۔ وہاں پر میرا دوست مجھے لینے آیا ہوا تھا۔
جب ہیمبرگ کی بڑی شاہراہ پر میرا دوست گاڑی چلا رہا تھا تو مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں لاہور کے مال روڈ پر آ گیا ہوں۔ ستمبر کے آخری دن چل رہے تھے۔ گھر پہنچ کر میرے دوست خالد نے مجھے اپنی بیوی سے ملوایا اور مجھے اپنے فلیٹ میں ایک کمرہ دیا کہ یار تو نے اِس کمرے میں رہنا ہے۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ میں سوچ رہا تھا کہ وقت کیا ہے کچھ دن پہلے میں اسلام آباد میں تھا، کشمکش میں تھا کہ ویزہ ملے گا کہ نہیں اور آج جرمنی میں بیٹھا ہوا ہوں۔ میں دو دن کے لئے آیا تھا مگر خالد نے اصرار کیا کہ نہیں یار تو پورا ایک ہفتہ میرے ساتھ رہے گا۔ ایک ہفتہ قیام کے دوران خالد نے وہاں پر تمام تفریحی مقامات کی مجھے سیر کروائی۔ وہاں پر سپیشل جو تھا، وہ تھے ترکش ریسٹورنٹ، جہاں پر حلال کھانا آسانی سے دستیاب تھا۔ ترکش کھانے بہت لذیذ، بہت ذائقہ دار تھے۔ وہ اپنے کھانوں میں زیادہ تر LAMBکا گوشت استعمال کرتے تھے۔ ترکش آئس کریم ایک اسپیشل آئٹم تھی جوکہ وہاں سیاح بہت زیادہ پسند کرتے تھے۔ کھانے کے آخر میں ایک اسپیشل قہوہ پیش کیا جاتا تھا۔
جس دن میں نے واپس جرمنی سے فن لینڈجانا تھا اُس دن میں نے خالد کے دیئے ہوئے کمرے میں کھڑے ہوکر کھڑکی سے صحن میں جھانکا تو بے شمار زرد پتے لان میں گرے ہوئے تھے۔ ایک اُداسی کا سماں محسوس ہورہا تھا۔بڑے بڑے درختوں سے پتے مسلسل گر رہے تھے، ایسا لگ رہا تھا جیسے زندگی ختم ہو رہی ہو۔ پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ زرد پتوں کا درختوں سے گرنا دراصل یہ بھی زندگی کی علامت ہے۔ اِن زرد پتوں کے بعد انھی درختوں پر نئے پتے، نئے شگوفے، نئے پھو ل، نئے پھل آجائیں گے اور زندگی میں بہار لوٹ آئے گی۔ میں کافی دیر اُس آنے والی بہار کے منظر میں کھویا رہا کہ اچانک مجھے خالد نے آواز دی کہ یار چلنا نہیں، فلائٹ کا ٹائم ہو رہا ہے، تجھے پتا نہیں کہ دو گھنٹے پہلے ایئر پورٹ پر پہنچنا ہے۔ میں نے جلدی سے اپنا ہینڈ کیری اُٹھایا اور خالد کے ساتھ ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہوگیا۔
امین کنجاہی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،ملک کے موقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔