حکائیت ِ سعدیؒ، فضول خرچ ہوجاتا ہے فقیر
ایک بادشاہ کے بارے میں، میں نے سنا کہ بدمستی اور عیش و عشرت میں رات کو دن کئے تھا اور کہہ رہا تھا دنیا میں ہمارے لئے اس وقت سے بہتر کوئی وقت نہیں۔ نہ گناہ ثواب کا خیال ہے اور نہ ہی کسی قسم کا غم ہے۔ ایک درویش فقیر سردی میں باہر سویا ہوا تھا اس نے بادشاہ کو یوں جواب دیا۔ اے بدبخت! اگر تیرے جیسا جہاں میں کوئی نہیں۔ہم نے مانا تجھے کوئی غم نہیں تو کیا تجھے ہمارا غم بھی نہیں ہے ؟
بادشاہ کو فقیر کی ناصحانہ بات پسند آئی اور ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی کھڑکی سے نیچے لٹکائی اور کہا اے فقیر!دامن پھیلا اور یہ رقم لے لے۔فقیر نے کہامیرے پاس کپڑے ہی نہیں ہیں تو دامن کیسے پھیلاؤں۔ بادشاہ کو اور ترس آیا اورایک کپڑے کا جوڑا بھی ساتھ دے دیا۔ فقیر تھوڑے ہی دنوں میں ساراکچھ ختم کر کے پھر آدھمکا۔ آزاد منش لوگوں کے ہاتھ میں ما ل نہیں ٹھہر سکتا۔ نہ عاشق کے دل میں صبر ٹھہر سکتا ہے اور نہ ہی چھلنی میں پانی ٹھہر سکتا ہے۔
لوگوں نے بادشاہ سے اس فقیر کی حالت بیان کی جب کہ بادشاہ اس سے بالکل لاپرواہ تھا چنانچہ بادشاہ ناراض ہوا اور غصہ میں اس نے منہ پھیر لیا۔ اس وجہ سے عقل مند لوگوں نے کہا ہے کہ بادشاہ کے رعب و دبدبہ سے بچنا چاہیے کیونکہ وہ اکثر حکومتی امور میں متوجہ رہتے ہیں اور لوگوں کے رش کو پسند نہیں کرتے۔اس آدمی پر بادشاہ کا انعام واکرام حرام ہو جاتا ہے جو فرصت کے لمحات کا لحاظ نہیں کرتا۔ جب کوئی با ت کر رہا ہودرمیان میں بات کرکے اپنی قدر و منزلت نہ گھٹا۔ بادشاہ نے حکم دیا اس بے حیا فضول خرچ کو دھکے دے کر یہاں سے نکال دو جس نے اتنی خطیر رقم اتنی تھوڑی مدت میں ضائع کردی ہے۔بیت المال کا خزانہ غریبوں کا حق ہے نہ کہ شیطان کے بھائیوں کا۔
جو بے وقوف دن میں کافوری شمع جلاتا ہے عنقریب وقت آئے گا کہ اس کو دئیے میں رات کو جلانے کے لئے تیل بھی نہ ملے گا۔ایک رحم دل وزیر نے سفارش کی کہ بہتر ہے ان لوگوں کو گزارے موافق دے دیا جائے تاکہ فضول خرچی نہ کر سکیں۔ ان کو جھڑک دینا آپ کے شایان ِ شان نہیں ہے۔ ایک بار کسی پر مہربانی کرنا اور پھر اس کو ناامید کر دینا ہمت والے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ لالچی کے لئے اپنا دروازہ نہ کھول اور اگر کھول دیا ہے تو پھر بند نہ کر یہ کوئی نہیں دیکھے گا کہ ملک عرب کے پیاسے کھاری پانی پہ جمع ہوئے، جہاں میٹھے پانی کا چشمہ ہوگا وہاں انسان اور چرند پرند جمع ہوں گے۔