کاشی گری ، برتنوں پر نقش و نگار بنانے کا فن
مٹی کے ظروف، روغنی ٹائلوں اور دیگر آرائشی مصنوعات پر جب کاشی گر اپنے ہاتھ سے خوبصورت پھول پتیاں اور دلکش نقش و نگار اجاگر کرتا ہے تو ''بلیو پوٹری‘‘ وجود میں آتی ہے۔ پھول پتیاں اور نقش و نگار بنانے کا فن کاشی گری، دنیا بھر میں ملتان کی نمایاں پہچان ہے۔ یہ ایک مخصوص اور روایتی فن ہے ابتداء میں فنکار صرف نیلا رنگ استعمال کرتے تھے اور کاشی گری کا کام زیادہ تر برتنوں پر ہوتا تھا، اس لئے ''بلیوپوٹری‘‘ کی اصطلاح مشہور ہو گئی۔اب اس فن نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ بلیو پوٹری اس کا صرف ایک حصہ ہے جبکہ یہ کام فرنیچر، چمڑے کی مصنوعات اور کینوس پر بھی ہو رہا ہے۔کاشی گری ہمارے قومی ورثے کا حصہ اور ہماری روایات کی پہچان ہے۔
کاشی گری کی تاریخ ملتان شہر کی تاریخ کی طرح قدیم ہے۔ نقش و نگار میں پتوں شاخوں اور پھولوں کا استعمال اس فن پر ایرانی اثرات کا غماز ہے۔ ایرانی فنون لطیفہ میں چونکہ منگول اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں اس لئے بعض مورخین کا خیال ہے کہ کاشی گری کا آغاز غالباً چین میں ہوا۔ آٹھویں صدی کے آغاز میں جب مسلمان فاتح محمد بن قاسم نے ملتان فتح کیا تو اسلامی لشکر کے ہمراہ کاشی گریہاں آئے اور ملتان میں آباد ہوئے۔ مغلیہ دور حکومت میں بھی اس فن کی حوصلہ افزائی کی گئی۔1853ء میں کنگھم الیگزینڈر نے جب ملتان کے ''قلعہ کہنہ قاسم باغ‘‘ میں عمدہ پیمانے پر کھدائی کروائی تو ایسی روغنی ٹائلیں برآمد ہوئیں جن کے متعلق ماہرین کی رائے ہے کہ وہ نویں صدی عیسوی میں تیار کی گئی تھیں۔ صدیوں سے کاشی گری کا خوبصورت اور خالصتاً اسلامی ہنر نسل درنسل منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے ایک دور میں اسے موروثی حیثیت حاصل تھی۔ کاشی گری میں استعمال ہونے والے نباتاتی رنگوں کی آمیزش کا فارمولا چند خاندانوں کی میراث رہا ۔ اس کی حفاظت کسی قیمتی کاروباری راز کی طرح کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنی بہوئوں کو تو یہ فارمولا سکھا دیتے تھے مگر بیٹیوں کو ہرگز نہ سکھاتے کہ ان کی شادی کے بعد کہیں یہ راز خاندان سے باہر نہ نکل جائے۔ اب اس فن کی ترقی کیلئے نہ صرف پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں کام ہو رہا ہے بلکہ عالمی بینک اور یونیسکو جیسے ادارے بھی اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ کاشی گری کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کیلئے تعاون کی کیا کیا صورتیں ہو سکتی ہیں۔
پوٹری کے کام والی دیگر مصنوعات کی مانگ کو پورا کرنے کیلئے اس میدان میں سرمایہ کاری کی بہت گنجائش موجود ہے۔ ملتان میں آنے والے ملکی اور غیر ملکی سیاح قلعہ کہنہ قاسم باغ میں واقع نگار خانہ سے کچھ نہ کچھ ضرور خریدتے ہیں۔
استاد محمد عالم ماہر کاشی گر اور نہایت عمدہ انسان ہیں جو اپنے پانچ بچوں سمیت کاشی گری کے فروغ کیلئے مصروف عمل ہیں۔ ہم نے استاد عالم کو ان کے سٹوڈیو میں پانچ فٹ اونچے چمڑے کے شاہکار گلدان پر کام کرتے ہوئے دیکھا۔ قدیم فن کے تحفظ بقاء کیلئے استاد عالم نے خواہش ظاہر کی کہ ملتان میں''کاشی میوزیم‘‘ قائم کیا جانا چاہئے جس میںنامور اساتذہ کا کام محفوظ کیا جانا چاہئے ۔
1985ء میں کاشی گری کے ہنر کو ترقی دینے اور بلیو پوٹری کی تجارتی پیمانے پر تیاری اور پرائیویٹ سیکٹر میں جدید فنی امداد مہیا کرنے کیلئے پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن نے ملتان میں ''انسٹی ٹیوٹ آف بلیوپوٹری ڈویلپمنٹ قائم کیا۔ اس ادارے نے کاشی گروں کی تربیت کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی سہولتیں فراہم کی ہیں ان سے قدیم فن کے جدید دور کا آغاز ہوا ہے۔
مانسہرہ، گجرات اور تھرپارکر سے سفید مٹی لاکر ملتان میں مہیا کی جا رہی ہے۔ گوبر اور لکڑی کے ایندھن سے جلنے والی بھٹی کی جگہ خود کار تندور نے لے لی ہے۔ جس میں800 سے 1200سینٹی گریڈ تک حرارت پیدا کی جا سکتی ہے۔ انسٹیٹیوٹ نے گزشتہ پندرہ برسوں میں 400سے زائد نئے ڈیزائن متعارف کرائے ہیں۔
ملتان میں بلیو پوٹری کے چار یونٹ قائم ہو چکے ہیں۔بلیوپوٹری کی تیاری کے بہت سے مراحل ہیں سب سے پہلے مٹی کو صاف کرکے پیسا اور پھر گوندھا جاتا ہے۔ اس کے بعد مختلف سانچوں اور ماڈلوں کی مدد سے مطلوبہ اشیاء تیار کی جاتی ہیں۔ سوکھنے کے بعد ان اشیاء کو خود کار بھٹی میں 1200سینٹی گریڈ تک پکایا جاتا ہے تب جا کر کاشی گر اپنا برش استعمال کرتے ہیں۔ادارے کی آرائشی مصنوعات صدر محل اسلام آباد سے لے کر بیرون ملک پاکستان کے سفارت خانوں اور دنیا میں بے شمار شائقین کے گھروں میں سجی ہیں۔
مالی سال 1996-97ء میں انسٹیٹیوٹ میں 58, 238چھوٹی بڑی اشیاء تیار کی گئیں جو 3,140,685روپے میں فروخت ہوئیں۔
بلیو پوٹری کے پرائیویٹ یونٹوں میں کام کرنے والے کاشی گروں میں سے اکثر نے انسٹیٹیوٹ آف بلیو پوٹری میں ہی تربیت حاصل کی ہے اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے چند ہونہار طالب علم اب دوسرے ممالک میں اور اندرون ملک فرنیچر اور چمڑے کی مصنوعات پر کاشی کا کام کر رہے ہیں۔