خود اعتمادی :اندر کا کھیل
ارسطو نے اپنی مشہور زمانہ کتاب میں لکھا ہے کہ انسان کا عمومی مقصد خوشی ہے، تاہم ہر شخص اپنے تئیں خوشی کی وضاحت کرتا ہے۔ ہم ایک بات جانتے ہیں کہ ہم جتنا زیادہ پراعتماد ہوں گے اور جتنا بہتر محسوس کریں گے، اتنے خوش ہوں گے اور ہر کام اتنا ہی مؤثر کریں گے۔ تاہم خود اعتمادی حقیقتاً ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے جس کا انحصار آپ کے یقینی نظام پر ہے۔ یقین یا عقیدہ آپ کو غیر یقینیت کا جرأت کے ساتھ سامنا کرنے کے قابل کرتا ہے۔ اعتماد آپ کو تحمل اور وضاحت کے ساتھ تبدیلیوں اور مشکلوں کا سامنا کرنے اور غیر متوقع رکاوٹوں کو جھیلنے کے قابل کرتا ہے۔ یہ آپ کو کسی بھی حالات میں مؤثر طور پر ردعمل ظاہر کرنے کے قابل کرتا ہے۔
یقین کا قانون
یہ قانون کہتا ہے کہ''آپ کے یقین آپ کی حقیقت بنتے ہیں‘‘۔ آپ اس پر یقین نہیں کرتے جو آپ دیکھتے ہیں بلکہ اسے دیکھتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔
یقین کی قوت
آیئے ایک شخص کی کہانی سناتا ہوں جو کئی برس پرانی ہے۔ وہ کاروباری تھا اور شدید مشکلات میں تھا۔ اس کے بڑے گاہک اس سے ہٹ گئے تھے اور وہ بڑے قرض میں مبتلا تھا۔ایک شام وہ پارک میں گھومنے نکل گیا اوریہ سوچنے لگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اتنے میں ایک بوڑھا اس کی طرف نمودار ہوا اور اس نے کاروباری شخص کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو اس سے پریشانی کی وجہ پوچھی، کاروباری نے اپنے مسائل کے بارے میں بتایا ۔ بوڑھا اس کاروباری کی بات سننے کے بعد بولا''میرے خیال میں، میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں‘‘ اور اس نے اپنی جیب سے چیک بک نکالی اور کاروباری سے اس کا نام پوچھا اور اسے وہ چیک تھماتے ہوئے کہا'' یہ رقم لے جائو، مجھ سے ٹھیک ایک سال بعد اسی جگہ ملنا اور تم اس وقت مجھے یہ رقم واپس کرنے کے قابل ہو گے‘‘۔جب کاروباری شخص نے اپنے دفتر آکر چیک کھولاتو یہ پانچ لاکھ ڈالر کا تھا۔ اس نے چیک پر موجود دستخط پڑھے۔ دستخط پر نام تھا'' جان ڈی رو کے فیلر‘‘۔ اس نے دنیا کے امیر ترین آدمی سے نصف ملین ڈالر کا چیک وصول کیا تھا۔
پہلے تو کاروباری نے سوچا کہ وہ یہ چیک کیش کرا لے اور اپنے تمام معاشی مسائل حل کر لے لیکن پھر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ چیک اپنی دراز میں رکھ دیگا، کیونکہ اسے پتا ہے کہ وہ جب بھی چاہے یہ چیک نکال کر اسے استعمال کر سکتا ہے۔ وہ پیسہ ہونے کے اس اعتماد کو اپنے سپلائرز کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے استعمال کریگا تو زیادہ پر اعتماد ہوگا۔ وہ اس اعتماد سے اپنے کاروبار کو بہتر کرے گا۔
اپنے نئے جوش کے ساتھ وہ کاروبار پر واپس آیا اور نئے معاملات کئے۔ مسائل حل کئے ادائیگی کی شرائط پر نظر ثانی کی اور کئی بڑی فروخت کیں۔ ایک مہینے میں وہ دوبارہ بلندی پر تھا۔ وہ قرض سے نکل آیا تھا اور پیسہ بنا رہا تھا۔ ایک سال بعد وہ کاروباری دوبارہ اسی پل پر گیا۔ اس کے ہاتھ میں وہی چیک تھا جو اس نے کیش نہیں کرایا تھا۔ وہ بوڑھے کو اپنے بارے میں بتانے کیلئے بے تاب تھا جیسا کہ ان دونوں کے درمیان طے پایا تھا۔ بوڑھا پودوں میں سے برآمد ہوا۔ ابھی وہ کاروباری یہ بتانا ہی چاہتا تھا کہ گزشتہ بارہ مہینے میں اس نے کیا کیا اور اس کے دیئے ہوئے چیک کو اس نے کیوں نہیں کیش کرایا ۔ اسی اثنا میں ایک نرس دوڑی ہوئی آئی اور اس بوڑھے کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ ساتھ ہی اس کاروباری سے معذرت کرتے ہوئے بولی کہ مجھے امید ہے کہ اس بوڑھے نے آپ کو زیادہ پریشان نہیں کیا ہوگا۔یہ پاگل ہے اور ہر بار اپنے ریسٹ ہوم سے نکل آتا ہے اور ہر چلتے پھرتے شخص کو کہتا ہے کہ وہ جان ڈی رو کے فیلر ہے۔ وہ نرس یہ کہتی ہوئی اور بوڑھے کا بازو پکڑے اسے کھینچتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
وہ کاروباری یہ سارا منظر دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ ایک سال تک وہ اپنے کاروباری معاہدے کرتا رہا، چیزیں خریدتا اور بیچتا رہا کیونکہ اسے اپنے اوپر اعتماد تھا کہ اس کے پاس پانچ لاکھ ڈالر ہیں جنہیں وہ جب چاہے استعمال میں لا سکتا ہے۔ اس واقعے کے بعد اسے فوراً یہ احساس ہو گیا کہ اس نے اپنے کاروبار کو اس لئے کامیاب کر لیا کہ اسے اپنی کامیابی کا یقین تھا، حالانکہ اس کا یقین جھوٹی معلومات پر قائم تھا۔ یہ اس کی خود اعتمادی کا عملی اظہار تھا جس نے اس کے سارے معاملات چلائے۔