موہٹہ پیلس سے قصر فاطمہ تک
قیام پاکستان سے بہت سال پہلے کی بات ہے کلکتہ کے رائے بہادر شیو رتن داس موہٹہ نامی ایک نامور کاروباری شخصیت نے کلکتہ سے کراچی اپنے کاروبار کو منتقل کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ ان دنوں کراچی کے کاروباری حالات کلکتہ سے زیادہ بہتر تھے۔ شیو رتن موہٹہ اپنے دور کے انتہائی مالدار اور اچھی کاروباری شہرت کے حامل شخص تھے جن کا بنیادی طور پر جہازرانی اور جہاز سازی کے ساتھ ساتھ شوگر اور سٹیل کا کاروبار تھا۔ یہاں اس خاندان کا کاروبار خوب چمکا اور تھوڑے ہی عرصے میں یہ خاندان کراچی کے امیر ترین لوگوں میں شمار کیا جانے لگا۔
پیرزادہ سلمان اپنی کتاب '' لیگیسیز آف ایمپائرز ‘‘میں لکھتے ہیں کہ ایک دن اچانک رائے بہادر کو یہ اطلاع ملی کہ ان کی بیوی ایک جان لیوا مرض میں مبتلاہیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں فی الفور اپنی بیوی کے ساتھ ہوادار مقام منتقل ہونے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے ملک کے نامور ماہر تعمیرات کے مشورے کے بعدساحل سمندر پرایک عالی شان بنگلہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔ رائے بہادر نے ماہر تعمیرات آغا احمد حسین سے رابطہ کر کے انہیں اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔ 1927ء میں بنگلے کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جو 1933ء میں اپنی تکمیل کو پہنچا۔ 18500مربع فٹ قطعہ زمین پر محیط یہ محل نما بنگلہ فن تعمیر کا ایسا شاہکار تھا جس میں مغل فن تعمیر کی جھلک نظر آتی تھی۔ اس کی خاص بات اس کے منفرد گنبد ،مینار اور مغلیہ طرز تعمیر کی محرابیں تھیں۔ اس کی تعمیر میں استعمال ہونے والا گلابی پتھر جودھ پور اور پیلا پتھر گزری سے منگوایا گیا تھا۔ اس عمارت کے چاروں اطراف خوبصورت باغیچے اور جا بجا لگے فوارے ماحول کے حسن میں اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے تھے ۔ آغا احمد حسین نے اس عمارت کو جمالیاتی حسن اور تہذیب و تمدن کا ایک ایسا نادر نمونہ بنا دیا جو آج عدم توجہی کے باوجود بھی دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔اس سے پہلے کہ اس عمارت کے مالک اس کا کوئی نام تجویزکرتے، اہل کراچی نے اسے '' موہٹہ پیلس ‘‘کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ موہٹہ پیلس کو پہلی نظر دیکھنے سے ذہن میں یہ تاثر ابھرتا ہے جیسے مغلیہ دور کی کوئی عمارت ہو۔اب یہ سمندر کی ٹھنڈی ہواؤں کا کمال تھا، رائے بہادر کی شریک حیات کو نئی زندگی مل گئی۔
قیام پاکستان اور موہٹہ پیلس:قیام پاکستان کے ساتھ ہی کراچی پاکستان کا دارالخلافہ ٹھہرا۔ شروع میں سرکاری دفاتر کیلئے عمارتوں کا فقدان پیش آیا توفیصلہ ہوا کہ جن کے پاس ایک سے زائد مکان ہے ان کا ایک مکان حکومت کی تحویل میں چلا جائے گا۔ اسی دوران سرکار کے کچھ لوگوں نے موہٹہ پیلس کو وزارت خارجہ کے دفتر کیلئے موزوں سمجھتے ہوئے موہٹہ فیملی سے جب اس خواہش کا اظہار کیا تو شیورتن داس نے نہ چاہتے ہوئے اس مکان کا قبضہ سرکار کے سپرد کر دیا۔ کہتے ہیں شیورتن داس اپنے سپنوں کا محل سرکار کے حوالے کر کے اس قدر دل برداشتہ ہوئے کہ واپس پڑوسی ملک سدھار گئے۔
1948ء میں جب دارالخلافہ راولپنڈی منتقل ہوا تو موہٹہ پیلس محترمہ فاطمہ جناح کو اپنی بمبئی والی رہائش گاہ کے بدلے الاٹ کر دیا گیا۔ جسے حکومتی سطح پر'' قصر فاطمہ ‘‘کا نام دے دیا گیا۔ فاطمہ جناح کو بھی یہ گھر بہت پسند تھا۔یہی وہ عمارت تھی جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن کی مہم چلائی تھی۔ فاطمہ جناح کی وفات کے بعد ان کی بہن شیریں جناح اس گھر میں منتقل ہو گئیں۔ اپنی زندگی میں ہی انہوں نے ''شیریں جناح چیریٹیبل ٹرسٹ‘‘قائم کر کے قصر فاطمہ سمیت اپنی تمام جائیداد اس ٹرسٹ کے نام منتقل کر دی۔ انہوں نے یہ وصیت بھی کی کہ فاطمہ جناح کی خواہش کے مطابق اس عمارت میں لڑکیوں کیلئے ایک ڈینٹل میڈیکل کالج اورایک ہسپتال قائم کیا جائے ۔
قصر فاطمہ تنازعات کی زد میں:محترمہ فاطمہ جناح کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ''قصر فاطمہ ‘‘کی ملکیت کا تنازع اس وقت کھڑا ہوگیا جب فاطمہ جناح کے ایک رشتے دار حسین جی والجی نے یہ دعویٰ دائر کیا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح اور محمد علی جناح کے چچا والجی پونجا کے پوتے ہیں اور وہ فاطمہ جناح کی چھوڑی ہوئی نصف جائیداد کے حقیقی قانونی وارث ہیں۔ اس لئے اس عمارت کا انتظام اور قبضہ انہیں دیا جائے۔ جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے 1971ء میں ہی اس عمارت کو سیل کرنے کے احکامات جاری کر دئیے۔23 دسمبر 1976ء کو سندھ ہائی کورٹ نے حسین جی والجی کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے قصر فاطمہ شیریں جناح کے حوالے کر دیا تھا۔
1995ء میں جب بے نظیر بھٹو ملک کی وزیر اعظم تھیں تو سندھ حکومت نے اس عمارت کے حصول کے لئے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔ جسے بعد ازاں میوزیم میں تبدیل کر نے کیلئے محکمہ ثقافت حکومت سندھ کی تحویل میں دے دیا گیا۔
محترمہ فاطمہ جناح کی وصیت: اس عمارت کی ملکیت کے قدیم دعویداروں کی جانب سے دائر اس کیس میں یہ موقف اختیار کیا کہ فاطمہ جناح کی وصیت کے مطابق یہاں ڈینٹل کالج بننا چاہئے تھا جسے نظر اندازکرکے سندھ حکومت نے یہاں ایک میوزیم اور کلچرل سنٹر بناڈالا ہے جہاں اکثر ناچ گانے کی محفلیں سجتی رہتی ہیں جس سے اس عمارت کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ رواں سال اکتوبر میں عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں اس عمارت کو میڈیکل ڈینٹل کالج بنانے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ محترمہ فاطمہ جناح کے خوابوں کی تعبیر بن پائے گا؟
خاورنیازی سابق بینکر اور لکھاری ہیں، قومی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک رہ چکے ہیں، تحقیقی اور سماجی موضوعات پر مہارت رکھتے ہیں