سول ایوی ایشن کا عالمی دن۔۔۔اورجنید جمشید کی جدائی کاغم
آج7دسمبر ہے، اس روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں''انٹرنیشنل سول ایوی ایشن ڈے‘‘( شہری ہوا بازی کا عالمی دن) منایا جا تا ہے۔اس دن کو منانے کا مقصد مسافروں کو محفوظ ترین سفری سہولیات فراہم کرنا، ہوا بازی کے اہم شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنا،انٹرنیشنل سول ایوی ایشن کی اہمیت کے متعلق شعور بیدار کرنا اور بین الاقوامی فضائی ٹرانسپورٹ کیلئے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے کردار کو اجاگر کرنا ہے۔''سول ایوی ایشن ‘‘رن وے پرجہاز کے ٹیک آف سے لینڈنگ تک کلیدی کردار کا حامل ہے۔ ہزاروں فٹ کی بلندی پراڑنے والے جہاز پر ریڈار اور دیگر جدید آلات کی مدد سے نگاہ رکھتا ہے۔اسی تناظر میں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن 1944ء میں قائم ہوئی،جس نے اپنے قیام کے 52 سال بعد اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی کی منظوری سے انٹرنیشنل ایوی ایشن ڈے منانے کا آغاز کیا۔
7دسمبر کو جب دنیا میں سول ایوی ایشن کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے وہیں پاکستان میں بہت سے خاندانوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں،جن کے پیارے 2016ء میںآج ہی کے دن ہونے والے ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پی آئی کی چترال سے اسلام آباد جانے والی پرواز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی تھی جس میں تمام عملہ اور مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے اس طیارے میں پاکستان کے معروف نعت خواں اور ماضی کے مقبول گلوکار جنید جمشید بھی سوار تھے۔ جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد جا رہے تھے۔
جنید جمشید ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، وہ معروف سماجی شخصیت، سابق گلوکار، نعت خواں ،مبلغ ، ٹی وی ہوسٹ کے ساتھ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے۔وہ 3 ستمبر 1969ء کو کراچی میں پیدا ہوئے،ان کے خاندان کا تعلق پاکستان ائیر فورس سے رہا ہے جس کی بناء پر اہلِ خانہ کی کوشش تھی کہ جنید جمشید بھی فوجی بنیں۔وہ فوجی تو نہ بن سکے مگر لاہور کی یو ای ٹی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ پاک فضائیہ میں سول کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام ضرور کیا ۔ موسیقی کوکرئیر بنانے کیلئے انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیااور ملی نغمہ''دل دل پاکستان‘‘گا کر عالمی شہرت حاصل کی۔ ان کے گروپ ''وائٹل سائنز‘‘ کو بھی اسی ملی نغمے سے پہچان ملی۔2002ء میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعلیمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔ 2004ء میں جنید جمشید نے گلوکاری چھوڑنے اور اپنی زندگی تبلیغی کاموں کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا۔
انہوں نے نعت خوانی شروع کی تو اس میں بھی نام کمایا۔ چترال میں جہاں وہ تبلیغ دین کے لئے گئے تھے ان کا قیام ایک مسجد میں تھا ان کے ایک دوست کے مطابق جنید جمشید نے وہاں شرکاء کو قصیدہ بردہ شریف خوش الحانی کے ساتھ سنایا۔ وہ اکثر ٹی وی چینلوں پر نعت، حمد اور مناجات پیش کرتے تھے۔ان کی مقبول نعتوں میں ''میرا دل بدل دے‘‘،''محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے‘‘،''دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے‘‘ نمایاں ہیں۔
بطور نعت خواں، مبلغ کامیابیاں سمیٹنے والے جنید جمشید نے اپنا کلاتھنگ برانڈ متعارف کرا کربزنس کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔وہ ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان کے طور بھی نمایاں رہے۔ وہ فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے، کراچی میں کچرا اٹھانے کی مہم کی بھی قیادت کی۔2007ء میں جنید جمشید کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔
داڑھی رکھ کر اسلام کی تبلیغ شروع کرنے کے باعث عوام نے انہیں مبلغِ اسلام کہنا اور سمجھنا بھی شروع کردیا تھا۔ مبلغِ اسلام جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 661 کے ایک حادثے میں وفات پا گئے۔ آج معروف گلوکار اور مبلغِ اسلام کی برسی کے موقع پر لوگ جنید جمشید کے ساتھ ساتھ اس افسوسناک حادثے کو بھی ضرور یاد کریں گے۔
ایک گلوکار سے ایک مبلغ تک کا سفر طے کرنے والے جنید جمشید کو پاکستان میں وہ شہرت نصیب ہوئی جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جس کی وجہ ان کی ذاتی محنت و صلاحیت کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے محبت بھی تھی۔میں نے اپنی زندگی میں دو شخصیات کے سوا ایسا کوئی ایک بندہ نہیں دیکھا، جنہوں نے اپنا شعبہ چھوڑ کر کوئی دوسرا شعبہ اختیار کیا ہو اور لوگوں نے پھر بھی انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا ہو۔ ان میں سے ایک جنید جمشید ہیں اور دوسرے عمران خان ہیں۔ پاکستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں جس گلوکار یا اداکار نے اپنا شعبہ چھوڑ کر کچھ اور کرنا چاہا، وہ رات کی سیاہی میں کھو گیا۔ بات اگر صرف جنید جمشید کی ہی کی جائے تو ایسی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس شخصیت کی وفات پر شوبز کی دنیا پر بھی سکتہ چھاگیا تھا اور مذہبی حلقے سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی آنسو بہا رہے تھے۔
ارشد لئیق سینئر صحافی ہیں، ملک کے موقر جریدوں میں ان کے سیکڑوں مضامین شائع ہو چکے ہیں