لندن ٹرین حادثہ : ایسا سانحہ جس نے ریلوے نظام بدل دیا
وہ 4دسمبر 1957ء کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام تھی۔ لندن کے دو ریلوے سٹیشنوں ''چیئرنگ کراس‘‘ اور کینسن سٹریٹ‘‘ پر مسافروں کا زبردست ہجوم تھا۔ چیئرنگ کراس سٹیشن پر 5بج کر 18منٹ پر چلنے والی الیکٹرک ٹرین مسافروں سے کھچا کھچ بھری کھڑی تھی اور سبز سگنل کا انتظار کر رہی تھی۔ اس ٹرین کی دس بوگیوں میں تقریباً پندرہ سو مسافرسوار تھے۔5بج کر 48منٹ پر سبز سگنل ملا اور گاڑی حرکت میں آ گئی۔
لندن کے مضافاتی علاقے کو جانے والی یہ ریلوے لائن اس وقت دنیا کی مصروف ترین لائن تھی۔ اس لائن پر آنے جانے کیلئے چار پٹڑیاں تھیں چوبیس گھنٹے کے دوران ان پٹڑیوں پر سے 990گاڑیاں گزرتی تھیں۔ الیکٹرک ٹرین نسبتاً دھیمی رفتار سے اپنے راستے پر دوڑی چلی جا رہی تھی۔ ''پارکس برج کنکشن‘‘ کے قریب پہنچے تو ٹرین کے ڈرائیورکوسرخ سگنل کا منہ دیکھنا پڑا اور یوں الیکٹرک ٹرین پل کو پار کرنے کے فوراً بعد ایک جگہ پر ٹھہر گئی۔ ڈرائیورکوسگنل باکس سے بتایا گیا کہ گاڑی کو اس وقت تک روکے رکھو جب تک صحیح سگنل نہیں ملتا۔
لوگ بار بار کھڑکیوں میں سے سر نکال کر دھند کی دبیز چادر میں ٹمٹماتی ہوئی سرخ بتی کو دیکھ رہے تھے، وہ اس آفت سے بے خبر تھے جو ایک ٹرین کی صورت میں عقب سے تیزی کے ساتھ ان کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ بھاپ کے انجن سے چلنے والی گیارہ ڈبوں پرمشتمل ایک مسافر بردار گاڑی تھی جو ''رامس گیٹ‘‘ جا رہی تھی۔ ٹرین کا ڈرائیور 61سالہ ڈبلیو جے ٹریو تھا، اس کے ساتھ ٹائر مین تیس سالہ ''ہوٹر‘‘ تھا۔ ''ٹریو‘‘ کی گاڑی بھی دوسری گاڑیوں کی طرح تاخیر کے ساتھ ''کینن سٹریٹ‘‘ سے روانہ ہوئی تھی۔ ''کینن سٹریٹ‘‘ تک گاڑی کو ایک اور ڈرائیور چلا کر لایا تھا۔ اس نے گاڑی کا چارج ''ٹریو‘‘ کے حوالے کرتے ہوئے اسے بتایا تھا کہ گاڑی میں پانی کی مقدار کم ہے اور اسے پانی بھروا لینا چاہئے۔ ''ٹریو‘‘نے فیصلہ کیا کہ شیڈول کے مطابق سیدھا برج ٹائون جانے کے بجائے وہ راستے میں ''سیلون آکس‘‘ کے مقام پر گاڑی روکے گا اور وہاں سے پانی بھروا لے گا۔جوتقریباً 21میل کے فاصلے پر تھا اور ٹریو گاڑی کو جلد از جلد وہاں پہنچانا چاہتا تھا۔ لندن برج سے گزرتے ہی اس نے رفتار بڑھا دی اور بھاپ کا وزنی انجن دندناتا ہوا آگے بڑھنے لگا۔
دھند بہت گہری تھی لیکن پٹڑی کے ساتھ ساتھ جھلملاتے ہوئے سبز سگنل اس بات کی نشاندہی کر رہے تھے کہ آگے راستہ صاف ہے۔ یہ وہی راستہ تھا جہاں پر سے تھوڑی دیر پہلے الیکٹرک ٹرین گزری تھی ۔ وہ پوری رفتار سے ''پارکس برج جنکشن‘‘ کی سمت بڑھ رہا تھا۔ پہلا سگنل ''دوہرا زرد‘‘ تھا جس کا مطلب تھا کہ اس سے اگلا سگنل ''زرد‘‘ اور اس سے اگلا سگنل ''سرخ‘‘ ہو سکتا ہے۔ ''ٹریو‘‘ اپنی دھن میں مگن گاڑی کو اسی طرح 35میل فی گھنٹہ کی گرفتار سے بھگائے چلا جا رہا تھا۔ دراصل بدقسمتی یہ تھی کہ یہ دونوں زرد سگنل بائیں طرف کی کھڑکی سے نظر نہیں آ سکتے تھے جبکہ ''ٹریو‘‘ بائیں طرف بیٹھا ہوا تھا۔ دائیں طرف فائر مین ''ہوٹر‘‘ موجود تھا لیکن وہ سر جھکائے اپنے کام میں مصروف تھا ۔ اچانک ''ٹریو‘‘ نے چلا کر اپنے فائر مین سے پوچھا ''کیا تم پلیٹ فارم کے آخری سرے پر موجود سگنل دیکھ سکتے ہو؟‘‘، ''فائر مین‘‘ نے باہر جھانکا اور چیختی ہوئی آواز میں بولا ''سگنل سرخ ہے‘‘، ''ٹریو‘‘ نے بریک لگانے کی کوشش کی لیکن اب وقت گزر چکا تھا۔ الیکٹرک ٹرین صرف 138گز کے فاصلے پر موجود تھی۔ سٹیم ٹرین کا انجن تقریباً 4900من وزنی تھا ۔
4دسمبر 1957ء کی اس بدقسمت شام 4بج کر20منٹ پر ارد گرد کی فضا خوفناک گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ سٹیم ٹرین کا وزنی انجن الیکٹرک ٹرین کے آخری ڈبے سے ٹکرایا اور اس کو کاغذ کی طرح ادھیڑتا ہوا نویں اور آٹھویں ڈبے کو تہس نہس کر گیاجو مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ دونوں ڈبے پچک جانے کی وجہ سے گاڑی کی لمبائی تقریباً85فٹ کم ہو گئی۔
ڈرائیور ''ڈبلیو جے ٹریو‘‘ شدید زخمی ہو گیا تھا لیکن بعد میں وہ بچ گیا اس کو اس خونی حادثے کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور اپریل 1958ء میں اس پر مقدمہ چلا تاہم 8مئی کو عدالت نے اسے اس الزام سے بری کر دیا۔ اپنی باقی زندگی میں ڈرائیور ''ٹریو‘‘ اکثر سوچتا کہ 4دسمبر 1957ء کی اس رات کو اگر وہ چند قدم چل کر دائیں جانب کی کھڑکی میں پہنچ جاتا اور سگنل دیکھ لیتا تو شاید ایسا جان لیوا حادثہ رونما نہ ہوتا۔
اس سانحہ کے بعد برطانوی حکومت نے ایک جانب تو غفلت برتنے والے ملازمین کو سخت سزائیں دیں تو دوسری جانب ریلوے کے نظام میں ایسے اقدامات اٹھائے گئے کہ اپنے فرائض سے غفلت برتنے والے ملازمین کی فوری نشاندہی ہوجاتی تھی۔ ایسے افراد کو کسی رعایت اور معافی کے قابل نہ سمجھا جاتا تھا جو محض اپنی سستی کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیتے تھے۔ اس سانحہ کے بعد حکومت کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے ایک جانب تو ایسا محسوس ہوا کہ ریلوے نظام کو ہی یکسر بدل دیا گیا ہو مگر اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نوعیت کے حادثات نہ ہونے کے برابر ہوگئے۔
طاہر جاوید مغل متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،تاریخی و تحقیق موضوعات پر لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں،ان کے مضامین ملک کے موقر جرائد میں شائع ہو چکے ہیں