تعلیمی کرئیر : بچوں سے مشاورت اہم : والدین کو بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول بنانے کی ضرورت ہے
قاسم نے ایف اے کر لیا تھا ، اور گھر میں اب بحث چل رہی تھی کہ قاسم کو یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہے اور کن مضامین میں داخلہ لینا ہے ۔قاسم کی ایف ایس سی تو بائیو کے ساتھ ہوئی تھی مگرایف ایس سی میں اِس کے نمبر کچھ اچھے نہیں تھے ، 70فیصد نمبر آئے تھے ۔ جس کی وجہ سے اُس کے والد اُس سے کافی ناراض بھی تھے اور فکر مند بھی، کیونکہ والد صاحب کا خیال تھا کہ اگر قاسم نے ایف ایس سی میں اچھے نمبر حاصل کر لئے تو پھر وہ اُسے میڈیکل کر وائیں گے مگر اُسے پڑھائی ہی سے چڑ تھی۔ اُس کا دل کر رہا تھا کہ وہ بھی اپنے ماموں کی طرح ملک سے باہر چلا جائے مگر اُس کے والدبضد تھے کہ نہیں قاسم پاکستان میں ہی رہے گا ۔
قاسم کے ذہن میں یہ بات پکی ہو چکی تھی کہ اُس نے آگے نہیں پڑھنا جبکہ اُس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرے اوراپنے باپ کی طرح کسی سرکاری محکمے میں ملازم ہو جائے ۔ قاسم کے والد صاحب طبیعت کے اعتبار سے سخت آدمی تھے اور جو وہ ذہن میں ٹھان لیتے تھے یا طے کر لیتے تھے کہ فلاں بچے نے فلاں ڈگری یا فلاں مضمون میں تعلیم حاصل کرنی ہے بھلے اُن کے بچوں کو اُن سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو مگر وہ اپنے باپ ہونے کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے تھے۔ وہ اپنے بچوں کی رائے کا یا اُن کی مرضی کا کوئی خیال یا احترام نہیں کرتے تھے۔
یہ رویہ اور یہ طریقے اکثر ہمارے معاشرے میں خاص طور پر مڈل کلا س طبقے میں ایسے مسائل بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔یہ سوچ عام پائی جاتی ہے کہ جس کے والد ڈاکٹر ہیں، اُن کے بچے بھی ڈاکٹر ہوں گے، جن کے انجینئر ہیں اُن کے بچے بھی انجینئرہونے چاہئیں اور جن کے والد کلرک ہیں اُن کے بچے بھی کلر ک ہوں گے ۔
ہمارے گھروں میں ابھی تک ایسا ماحول کیوں نہیں بن سکا جس میں والدین اور بچے آپس میں ایک دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر اپنی آنے والی زندگیوں کے بارے میں خوش اسلوبی سے فیصلے کر سکیں۔ جو بچہ جس شعبہ میں بھی تعلیم حاصل کر نا چاہے وہ اپنی مرضی سے شعبے کا انتخاب کرسکے تاکہ اُن کی آنے والی زندگی اُن کے اپنے پسندیدہ شعبے سے منسلک رہ کر گزرے ۔ یہ ہمارے معاشرے کا انتہائی افسوس ناک پہلو ہے کہ ہمارے معاشر ے کے والدین اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے پروفیشن میں بھیجنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے اکثر بچے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے ۔
ہمارے موجودہ معاشرے میں جو کہ خود کو بہت زیادہ ترقی یافتہ، مہذب اور پڑھا لکھا تصور کرتا ہے، خاص طور پر ان معاملات میں جن میں بچوں کی عملی زندگی کے لئے پیشہ ورانہ زندگی اختیار کرنے کا حق والدین اپنے بچوں کو اُن کی مرضی سے نہیں دیتے۔ اِسی طرح سے ناہی بچوں کی شادیاں اُن کی باہمی رضامندی سے کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بہت ساری مشکلات جنم لیتی ہیں ، جن کا سامنا والدین کو، بچوں کو اور پورے معاشرے کو کرنا پڑتا ہے۔
ہمارے ملک میں اگر آپ غور کریں تو نہ ہی کوئی اچھی نوکریاں بچوں کو میسر ہیں اور نہ ہی بچوں اور بچیوں کی ازدواجی زندگیوں میں بہت زیادہ سکون اور خوشحالی ہے ۔ میں آج کے موجودہ دور میں رہتے ہوئے اپنے آج کے دور کے والدین سے یہی گزارش کروں گا کہ خدارا اپنے بچوں کے اچھے مستقبل کے لئے اُن کی تعلیم کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کریں بچوں کی مرضی اور منشا سے کریں۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو پھرنہ آپ کے گھروں میں سکون ہوگا اور نہ آپ کے دلوں میں اطمینان ہوگا ۔
قاسم کے والد جب شام کوآفس سے گھر لوٹے تو اُنھوں نے بڑے ہی اطمینان سے اور پیار سے اپنی بیگم سے پوچھا ،قاسم کہاں ہے؟ تو بیگم نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ وہ تو کمرے میں سو رہا ہے ۔ والد نے پوچھا کیو ں سو رہا ہے اُسے پتا نہیں کہ اُس نے صبح یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کروانے ہیں۔ جلدی سے اُسے اُٹھائو اور بلا کر لائو ۔قاسم بادل ناخواستہ نا چاہتے ہوئے بھی ابا کے پاس آکر کھڑا ہوگیا اور سر جھکا کر بولا جی ابو۔ والد نے اُسے یونیورسٹی کے داخلہ فارم دئیے اور کہا ، بیٹا ، تم جس بھی مضمون میں آگے پرھنا چاہتے ہواس میں داخلہ لے لو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ یہ بات سننی تھی کہ قاسم اور اُس کی والدہ ایک دم سے حیران اور پریشان ہوگئیں۔
قاسم کے والد بولے کہ بیگم میں ٹھیک کہہ رہا ہوں یہ لو آج کا اخبار جس میں ایک مضمون ہمارے جیسے والدین کے لئے لکھا ہوا ہے اور جسے پڑھ کر میری آنکھیں کھل گئی ہیں، میں آپ سب لوگوں سے شرمندہ ہوں۔ ہمیں بطور والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول میں رہنا چاہیے ۔
امین کنجاہی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں،ملک کے موقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہو چکے ہیں۔