زلزلوں کی سرزمین، جاپان میں سب سے زیادہ زلزلے کیوں آتے ہیں؟
2011ء میں آنیوالے زلزلے سے جاپان2.4میٹر نارتھ امریکہ کی جانب کھسک گیا
رنگ آف فائر اور چار پلیٹوں کی وجہ سے جاپان کو سب سے زیادہ زلزلے برداشت کرنا پڑتے ہی
آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ جب بھی کسی چیز کے معیار کی بات کی جائے خصوصاً مشینری یا ٹیکنالوجی کی تو جاپان کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکہ کی جانب سے دو ایٹمی دھماکے برداشت کرنے والے ملک جاپان نے جس طرح حالات کا مقابلہ کیا اور ٹیکنالوجی میں اپنی مثال قائم کی وہ قابل تحسین ہے۔ جاپان اپنی ذہانت اور معیاری اشیاء کے ساتھ ایک اور چیز کے لئے بھی بہت مشہور ہے اور وہ ہے زلزلے۔
زمیں کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس کے ٹکرانے یا سرکنے سے زمین میں حرکت پیدا ہوتی ہے، جسے زلزلہ کہتے ہیں۔ جاپان چونکہ فالٹ لائن پر واقع ہے اس لئے وہاںسب سے زیادہ زلزلے آتے ہیں۔ فالٹ لائن، پلیٹوں یا پتھروں کے درمیان ایک ایسا فریکچر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک خلاء پیدا ہوتا ہے جو حرکت کا باعث بنتاہے۔ اس فالٹ لائن پر واقع ممالک میں زلزلے دیگر ممالک کی نسبت زیادہ آتے ہیں ۔ زلزلوں کی شدت کی پیمائش ریکٹرسکیل پر کی جاتی ہے جو 1935ء میں امریکی سائنسدانوں چارلز ایف رچر اور بینو گٹنبرگ نے تخلیق کیا تھا۔
دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے جاپان میں آتے ہیں۔جن کی اوسط سالانہ تقریباً 2ہزار ہے۔ گزشتہ سال صرف ٹوکیو میں پانچ ایسے زلزلے آئے جن کی شدت 5 ریکٹر سکیل سے زیادہ تھی اور تقریباً 20 زلزلے 4سے 5 شدت کے تھے جبکہ 20زلزلے 3شدت کے اور 12معمولی نوعیت کے تھے۔ زمین کی اس قسم کی حرکات کو سیزمک ایکٹیویٹی کہتے ہیں۔
سائنسدانوں نے یہ پیشگوئی بھی کی ہے کہ آئندہ دس سال میں ٹوکیو کو ایک انتہائی خطرناک زلزلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے ننکائی ٹرف پھٹنے کا ڈر ہے۔ جاپان میں پیسیفک سمند ر کی طرف ننکائی ٹرف 900 کلومیٹر کا علاقہ ہے، جہاں سیزمک ایکٹیویٹی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ جاپانی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ مارچ2011ء میں آئے زلزلے (سونامی) سے زیادہ خطرناک زلزلہ آنے کی امید نہیں ہے۔ وہ جاپان کی تاریخ کا سب سے خطرناک زلزلہ تھاجسے ''دی گریٹ ایسٹ جاپان ارتھ کوئیک‘‘ کا نا م دیا گیا تھا۔ اس زلزلے کی وجہ سے فوکوشیما نیوکلیئر پلانٹ پھٹا اور 20ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔
جاپان ایک جزیرہ نما ملک ہے، جس نے خود کو مشکلات سے نکالتے ہوئے زیرو سے ہیرو بننے کا سفرطے کیا ہے۔ جاپان میں زیادہ زلزلے آنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ملک ''سرکم پیسفک موبائل بیلٹ‘‘ پر واقع ہے جہاں اکثر ہی سیزمک ایکٹیوٹیز دیکھی جاتی ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جاپان دنیا کے صرف 0.25فیصد حصے پر مشتمل ہے لیکن پوری دنیا میں آنے والے زلزلوں میں اس کا حصہ18.5فیصد ہے۔ جہاں جاپان ہے،اس بیلٹ کو ''پیسیفک رنگ آف فائر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اس رِنگ کے اندر چار ٹیکٹونک پلیٹیں موجود ہیں۔ جس میں مشرق کی جانب پیسفک پلیٹ، مغرب کی جاب فلپائن پلیٹ،شمال میں نارتھ امریکن پلیٹ اور جنوب میں یوریشین پلیٹ موجود ہے۔ جاپان ان چاروں پلیٹوں کے جنکشن پر واقع ہے۔زلزلے کی صورت میں ہوتا کچھ یوں ہے کہ پیسفک پلیٹ اور فلپائن پلیٹ مغرب کی جانب بڑھتی ہیں اور یہ دونوں پلیٹیں باقی دونوں پلیٹوں نارتھ امریکن اور یورشین پلیٹ کے نیچے گھس جاتی ہیں اور ان کی یہی حرکت جاپان میں زلزلوں کا سبب ہے۔
زمین کی سطح کو عموماً تیں حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میںسب سے اوپر والی سطح کو کرسٹ، اندر والے حصے کو مینٹل اور سب سے اندر ونی حصے کو ''کور‘‘ کہا جاتا ہے۔کرسٹ دو حصوں پر مشتمل ہے جس میں اوشن اور کانٹی نینٹل کرسٹ شامل ہیں۔ ان دونوں حصوں میں پریشر بنتا ہے تو ان میں موجود پلیٹیں حرکت کرتی ہی رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے آتش فشاں پہاڑ سے لاوا باہر آتا ہے، زلزلے آتے ہیں اور اگر زلزلہ سمندر میں ہو تو سونامی آتا ہے۔
ہماری دنیا میجر اور مائنر پلیٹوں پر مشتمل ہے جس میں 7میجر پلیٹیں ہیں۔ جن کے نام یوریشین پلیٹ، افریقن پلیٹ، انڈو آسٹریلین پلیٹ، انٹارکٹک پلیٹ، نارتھ امریکن پلیٹ، پیسفک پلیٹ اورساؤتھ امریکن پلیٹ ہیں۔ جاپان ان میں سے چار کے جنکشن پر موجود ہے۔ پلیٹیں ایک دوسرے کے اندر یا اوپر یونہی نہیں جاتیں بلکہ اپنے ساتھ بڑے پیمانے پر راکی فارمیشن اور پانی لے کر جاتی ہیں۔
پلیٹوں کی حرکت کے دوران گرم پتھر اوپر کی جانب اٹھتے ہیں اور ٹھنڈے پتھر نیچے کی جانب جاتے ہیں جس وجہ سے ہلچل پیدا ہوتی ہے اور پلیٹیں ایک دوسرے کے اوپر یا نیچے کھسک جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ چاند اور سورج کی کشش ثقل بھی ان پلیٹوں پر پریشر ڈالتی ہے، جس سے اکثر سمندر میں زلزلہ آتا ہے اور سونامی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ سونامی اتنے خطرناک ہوسکتے ہیں کہ دنیا کی جیوگرافی بھی بدل سکتے ہیں۔ جاپان میں مارچ2011ء کو آنے والا زلزلہ بھی اسی کی ایک مثال ہے۔ اس زلزلے کی وجہ سے پورا جاپان2011ء میں نارتھ امریکہ کی جانب2.4میٹرکھسک گیا۔ دلچسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ ماہرین کے مطابق دنیا کی تاریخ میں تین مرتبہ براعظم ایک دوسرے کے قریب آئے اور دور گئے ۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہی 180ملین سال پہلے اس براعظم کے ٹکڑے ہو گئے تھے۔ اسی طرح آہستہ آہستہ وہ جیوگرافی بنی جو ہمیں آج نظر آتی ہے۔
جاپان کے سینڈائی علاقوں میں ہولوسین سیکوئنس کا مشاہدہ کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ500قبل مسیح سے 1000قبل مسیح کے درمیان ایک بہت بڑا زلزلہ اور سونامی اس خطے سے ٹکرایا تھا۔ اس کے بعدایک اور بہت خطرناک زلزلہ آیا تھا۔ یہ تینوں تاریخی حادثات جاپان کے سینڈائی علاقے میں ہی رونماء ہوئے جن کی تاریخ 3ہزار سال کی ہے۔
2011ء میں آنے والے زلزلہ اس قدر شدید تھا کہ اس کی وجہ سے زمین کے ایکسز پر بھی اثر پڑا۔ رپورٹس کے مطابق اس زلزلے کے بعد زمین کے ایکسز میں 10سے 25سینٹی میٹر کا جھکاؤ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے ہمارے دن 2مائیکرو سیکنڈ تک چھوٹے ہو گئے تھے۔
جاپان بے شک دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے برداشت کرنے والا ملک ہے جبکہ ''رنگ آف فائر‘‘ میں جو دیگر ممالک ہیں ان میںانڈونیشیا، نیوزی لینڈ، پاپویا نیوگینی، فلپائن،امریکہ،چلی،کینیڈا، گوئتے مالا، روس، پیرو، سولومن آئی لینڈ اور میکسیکو شامل ہیں۔ پوری دنیا میں آنے والے زلزلوں میں سے 90 فیصد زلزلے اسی خطے میں آتے ہیں جبکہ پوری دنیا میں پھٹنے والے آتش فشاں پہاڑوں میں سے 75فیصد اس علاقے میں واقع ہیں۔ یہ رنگ گول تو نہیں ہے لیکن 40ہزار کلومیٹر طویل ہے۔ رنگ آف فائر اور چار پلیٹوں کی موجودگی کی وجہ سے جاپان کو دنیا میں سب سے زیادہ زلزلے برداشت کرنا پڑتے ہیں۔
تنزیل الرحمن جیلانی نوجوان صحافی ہیں
اور تحقیق کے شعبے سے وابستہ ہیں