’’ہم کو نہ مل سکا تو فقط اک سکون دل‘‘ سکون
سکون انتہا درجہ کی نزاکت رکھتا ہے۔ سکون شیشے سے بھی زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اس قدر نازک کہ کسی کے ایک بول سے یہ چکناچور ہو جاتا ہے اور پھر انسان فوراً لاکھ کوششوں سے کرچی کرچی جمع کر کے بھی، اس کو واپس اسی حالت میں مکمل طور پر نہیں لا سکتا۔
کبھی تو کسی کی خاموشی ہی کافی ہوتی ہے انسان کو بے سکون کرنے کیلئے، کوئی کال اٹینڈ نا کرے تو بندہ بے سکون ہو جاتا ہے۔ گھر میں ناپسندیدہ مہمان آجائیں تو سکون غارت ہو جاتا ہے۔ شور انسان کو بے سکون کر دیتا ہے۔ بارش، آندھی، تیز دھوپ اور سخت سردی انسان کے سکون کو لے ڈوبتی ہے۔ ہلکا سا سر درد، پیٹ درد بندے کو سکون سے دور کر دیتا ہے۔ ٹریفک کا جام ہونا، ٹائر کا پنکچر ہونا، مناسب گاڑی نہ ملنا، گاڑی کا لیٹ ہو جانا، خراب ہو جانا انسان کو سکون سے محروم کر دیتا ہے۔ کھانا وقت پر نا ملنا، کھانے کا بد مزہ ہونا انسان کو بے سکون کرنے کے لیے کافی ہے۔ بڑا نقصان ایک طرف، 100 روپے کا ایزی لوڈ نہ آئے تو انسان کے سکون کا جنازہ نکل جاتا ہے۔
کسی کا نظر بھر کے دیکھنا اور کسی کا حقارت سے مسکرانا بھی بندے کو سکون کی راہ سے ہٹا دیتا ہے۔ نیند کا نہ آنا بے سکونی ہے۔ کسی کا دنیا سے چلے جانا، کسی اپنے کا دنیا میں بچھڑ جانا، انسان کو سکون سے جدا کر دیتا ہے۔ کوئی وعدہ خلافی کر دے، دھوکا دے دے تو انسان سکون کی چھائوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس دل میں منافقت ہو ادھر سکون نہیں ہوتا، رقیب سے ملاقات اور حبیب سے فراق بے سکونی ہے۔ روٹی کا نا ملنا، روٹی ہضم نہ ہونا بے سکونی ہے۔ جس چرغے اور مٹن کڑاہی میں ماں اور مسکین کے لیے ایک لقمہ نہ ہو، وہ سارے کا سارا کھانا بے سکونی کے نوالے ہیں۔ جہاں خود پسندی بڑھ جائے وہاں سکون کم ہو جاتا ہے۔ جو والدین کی محبت پر مطمئن نہیں وہ بے سکون ہے۔ وہ بھی بے سکون ہے جو خالق کی رضا میں راضی نہیں۔
ایک طرف سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر کوششیں سکون ایجاد کرنے سے قاصر ہیں تو دوسری طرف ماہرین نفسیات بھی کوئی ایسا فارمولا نہیں دے سکے جس کی بدولت انسان سکون حاصل کر سکے۔ اہل دانش نے یہ طریقہ اپنایا کہ پہلے دیکھا جائے ، وہ کون کون سے لوگ تھے جنہوں نے پرسکون زندگی گزاری؟ اس تلاش میں بڑے بڑے بادشاہوں اور حکمرانوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ تو بڑے بے سکون رہے ہیں۔ پھر سپہ سالاروں اور جرنیلوں کی حیات کا ورق ورق کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی حقیقی سکون سے محروم ہی رہے۔ پھر مزید تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی کہ مشیروں، وزیروں اور تاجروں کے شب و روز بھی بے سکونی میں ہی گزرتے رہے ہیں۔
اس طرح مطالعہ کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا چلا گیا اور پھر آخر کار وہ لوگ مل ہی گئے جن کے دل دولت سکون سے آباد رہے۔ اضطراب اور بے سکونیاں ان کے سینوں میں راہ نہ پا سکیں۔ یہ لوگ کون تھے؟ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ لوگ ہیں اللہ والے۔ جی ہاں! یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خالق پر بھروسہ کیے رکھتے ہیں اور اس کی مخلوق سے محبت کرتے ہیں۔ دوسروں کے لیے بے لوث خدمات اور خلوص بھری آسانیاں پیدا کرنا ان کا شیوا ہوتا ہے۔ یہ لوگ انسانیت کے بلند مرتبے پر فائز ہوتے ہیں۔ انسانوں سے حرص و ہوس اور لالچ سے پاک تعلقات ان کو بے سکون نہیں ہونے دیتے۔ مخلوق کی بجائے، اللہ پر توکل ان کا طرہ امتیاز بن جاتا ہے اور پھر یہ خشک روٹی کھا کر ، اینٹ کا تکیہ بنا کر زمین پر ایسے شان بے نیازی سے سو جاتے ہیں کہ ان کے سکون قلب میں کوئی دراڑ نہیں آتی۔ ان کا سکون متزلزل نہیں ہوتا۔
خالق پر توکل اور مخلوق سے محبت ہی وہ راہ ہے جو سکون کی منزل تک پہنچاتی ہے۔ آئیے ! اس راستے پر قدم بڑھاتے ہیں اس دعا کے ساتھ اے اللہ ہمیں اس راہ پر ثابت قدم رکھ اور ہمیں دنیا و آخرت کا سکون عطا فرما۔ آمین ثم آمین
ساجد ندیم انصاری شعبہ تدریس سے وابستہ
ہیں، مختلف موضوعات پر ان کے مضامین
مختلف جرائد میں شائع ہو چکے ہیں