مہناز: موسیقی کا گوہر نایاب ’’اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں‘‘
گلوکارہ مہناز ہمارے ملک کی وہ گلوکارہ ہیں جو دنیائے موسیقی کے افق پر ایک ستارہ بن کر چمکیں مگر جلد ہی جدائی دے گئیں۔ ان کا اصل نام شاہین اختر تھا۔ گریجویشن کے بعد موسیقی کی تربیت اپنی والدہ سے لی۔مہناز کی والدہ کجن بائی ریڈیو کراچی کی معروف گلو کارہ تھیں۔انہوں نے گانے کی ابتداء والدہ کے ہمراہ ریڈیو سے ہی کی۔معروف موسیقار استاد نذر حسین سے باقاعدہ کلاسیکل موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ ریڈیو کراچی سے ان کے گائے ہوئے گیت، غزلیں بہت مشہور ہوئے جو انہیں فلموں میں لانے کا سبب بنی۔
مہنازچار بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں، مصوری سے بھی شغف رکھتی تھیں۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ فائن آرٹس میں نام پیدا کریں۔ اس لئے انہوں نے نصابی تعلیم کے دوران موسیقی کا علم نہیں سیکھا۔ اس کی ایک اوروجہ یہ بھی تھی کہ ان کا گھرانہ مذہبی اور قدامت پرست تھا۔ محرم الحرام میں مرثیہ خوانی ان کا خاندانی پیشہ تھا ۔
ریڈیو پر ہی گلو کار مہدی حسن کے بھائی پنڈت غلام قادر نے مہناز سے 1972ء میں ایک غزل گوائی۔ یہاں انہوں نے اپنا نام شاہین اختر سے بدل کر''مہناز‘‘ رکھ لیا۔ جس کے معنی ہیں چاند جیسی فخر والی۔ مہناز کی پہلی فلم میں گانے کے حوالے سے محقق مختلف آرا رکھتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے بطور گلوکارہ مہناز نے ایک سندھی فلم ''دھرتی لال کنوار‘‘ میں گایا۔ کہیں بطور گلو کارہ ان کی پہلی فلم ''ثریا بھوپالی‘‘ کو گردانا جاتا ہے۔ ایک جگہ مہناز کی فلم ''پہچان‘‘ کے گانے کو ان کے فلمی کریئر کی ابتداء کہا جاتا ہے۔ تینوں متذکرہ فلمیں 1975ء میں ریلیز ہوئی تھیں مگر ہماری تحقیق کے مطابق مہناز نے 1973ء میں فلم ''جہیز‘‘ کیلئے پہلا فلمی گیت گایا تھا،یہ فلم مکمل نہ ہو سکی۔
مہناز کو ٹیلی ویژن پر پروڈیوسر امیر امام نے 1972ء میں میوزک پروگرام ''نغمہ زار‘‘ سے متعارف کرایا۔ مہناز نے اس پروگرام میں جو گیت گائے ان کے شاعر سرور بارہ بنکوی جبکہ کمپوزر سہیل رعنا تھے۔ ریڈیو اور ٹی وی کے گانوں کی بازگشت جب فلمی موسیقاروں کے کانوں تک پہنچی تو موسیقار نثار بزمی نے مہناز کو فلم ''پہچان‘‘ کیلئے گیت ''میرا پیار تیرے جیون کے سنگ رہے گا ‘‘ گوایا ۔ یہ فلم ہٹ ہوئی اور ساتھ ہی مہناز کا گایا ہوا گانا بھی ہٹ ہو گیا۔ یوں مہناز جو پہلے بھی دو تین فلموں کیلئے گا چکی تھیں، فلم ''پہچان‘‘ کے گانے سے پورے پاکستان میں مقبول ہو گئیں اور بطور پلے بیک سنگر انہیں مستند گلو کارائوں میں شمار کیا جانے لگا۔پھر سلسلہ چل نکلا۔ ان کے گانے فلم ''دلہن اک را ت کی،تلاش، ہم دونوں، آئینہ، ثریا بھوپالی، روشنی، عشق عشق، میرا ناں پاٹے خان، پرستش، خوشبو، پلے بوائے، نیک پروین، جاگیر، لال آندھی، سلاخیں، ان داتا، اور بندش میں بے پناہ مقبول ہوئے۔ مہناز کو جو چیز دوسری گلو کارائوں سے ممتاز بناتی تھی۔ وہ ان کی آواز کی دلکشی،تلفظ اور سحر انگیزی تھی۔ سننے والا ان کے میٹھے سروں میں کھو جاتا تھا۔
مہناز کی آواز ہر اداکارہ پر جچتی تھی،ان کا گانا جس اداکارہ پر عکسبند ہوتا ، ایسا لگتا جیسے ہیروئن خود گا رہی ہے۔ مہناز کے گائے ہوئے گانے جن اداکاراؤں پرعکسبند ہوئے۔ ان میں دیبا، زیبا، شبنم، رانی، بابرہ شریف، کویتا، سنگیتا، نشو، آسیہ، ثمینہ پیرزادہ، عندلیب، مسرت شاہین، نیلی، سلمیٰ آغا، ریما، ممتاز شامل ہیں۔ مہناز نے اپنے دور کے تمام موسیقاروں کے ہمراہ کام کیا۔جن میں نثار بزمی، ایم اشرف، کمال احمد، خواجہ خورشید انور، روبن گھوش، کریم شہاب الدین، نیاز احمد، واجد علی ناشاد، امجد بوبی، وجاہت عطرے، اے حمید شامل ہیں۔مہناز نے پورے کریئر میں مہدی حسن، نور جہاں، احمد رشدی، عالمگیر، مسعود رانا، اخلاق احمد ، رجب علی، اے نیر سمیت تمام گلو کاروں کے ہمراہ گانے گائے۔
مہناز نے اپنی گائیکی پر 11نگار ایوارڈ حاصل کئے جبکہ دیگر ایوارڈز اس کے علاوہ ہیں۔ مہناز نے 11نگار ایوارڈ جن گانوں پر حاصل کئے ان میں فلم ''سلاخیں‘‘ گانا ''پیار کا ایسا ناطہ ہے‘‘، فلم ''پلے بوائے‘‘ کا گیت ''تیرا میرا کوئی نہ کوئی ناطہ ہے‘‘، فلم ''خوشبو‘‘کا گیت'' جس دن بھلا دوں تیرا پیار دل سے‘‘، فلم ''بندش‘‘ کا گیت ''تجھے دل سے لگا لوں‘‘، فلم ''قربانی‘‘کا گیت ''میرا تجھ سے ایسا بندھن ہے‘‘، فلم ''کندن‘‘ کا گیت ''کھلونے تیری زندگی کیا‘‘، فلم ''بیوی ہو تو ایسی‘‘کا گیت ''سچا تیرا پیار‘‘، فلم ''کبھی الوداع نہ کہنا‘‘کا گیت '' میرا پیار بھی تو ‘‘، فلم ''بازار حسن‘‘ کا گیت ''لہروں کی طرح، تجھ کو بکھرنے نہ دینگے‘‘، فلم ''بلندی‘‘ کا گیت ''آخری سانس تک تجھ کو چاہوں گی میں‘‘، فلم ''ایک لو سٹوری‘‘ کا گیت'' بھیگے بھیگے موسم میں ہری ہری وادی‘‘ شامل ہیں۔
مہناز نے اپنے فنی کریئر میں نور جہاں کے مقابلے کی شہرت اور مقبولیت حاصل کی۔ انہوں نے 1977ء سے 1983ء تک مسلسل نگار ایوارڈز حاصل کئے۔ انہوں نے پنجابی، اُردو، سندھی اور پشتو زبانوں میں گانے گائے۔ ایک اندازے کے مطابق مہناز نے اپنے فنی کریئر میں 800کے قریب نغمات گائے۔ یہ واحد گلو کارہ تھیں جنہوں نے چار زبانوں میں گیت گائے۔
گلو کارہ مہناز کو وقت کے ساتھ ساتھ شوگر کا مرض لاحق ہوا پھر دمہ نے بھی آ گھیرا۔ مہناز نے کراچی کے اچھے ڈاکٹرز سے علاج کرایا مگر بیماری بڑھتی چلی گئی۔ پھر انہوں نے امریکہ میں بھائیوں کے پاس جا کر علاج کرانے کا سوچا اور امریکہ کیلئے روانہ ہوئیں تو راستے میں ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ انہیں فوری طور پر بحرین کے ایک ہسپتال میں داخل کرایا گیاجہاںوہ دم توڑ گئیں۔ بعدازاں ان کا جسد خاکی کراچی لایا گیا۔ان کی وفات 19جنوری 2013ء میں ہوئی،55برس وہ زندہ رہیں۔
خالد ابراہیم خان ایک سینئر شوبز صحافی ہیں،پاکستانی فنکاروں کے حوالے سے وسیع معلومات رکھتے ہیں، ملک کے موقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہوتے رہے ہیں