عقاب کے پروں سے لکڑی کی تراشیدہ شاخ تک قلم کی داستان جدید ٹیکنالوجی سے وجود خطرے سے دوچار
میں اپنی کروڑوں سال پر پھیلی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرتے ہوئے اپنی داستان حیات سنانا چاہتا ہوں کہ شائد اب میں زیادہ دن جی نہ سکوں اور جدت کے نام پر ارتقائی سفر کے ہاتھوں مارا جاؤں۔ عقاب کے نوکیلے پروں سے لکڑی کی تراشیدہ شاخ تک،کوئلے کی لکیروں سے سکے کے نقش ہوتے جاتے حروف تک،چاک کی سفیدی سے دوات کے سیاہ رنگ تک کا سفر بہت خوشگوار تھا۔ میں جب تیز دھار چاقو سے تراشا جاتا تھا تو اپنے وجود سے اٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو صرف اس لئے برداشت کرتا تھا کہ مجھ سے لیا جانے والا کام مجھے مقدس مقام تک پہنچارہا تھا۔
پھر میری شکل بدلتی رہی اور میں رنگدار لبادوں میں لپیٹا جانے لگا۔ سرخ اور سبز روشنائی میرے جسم میں اتاری جاتی رہی،میں سرکار کی ترجمانی سے ہوتا ہوا صاحب علم طبقات کے ہاتھوں سے گزارا گیا تو میرے اوپر کشیدہ کاری، خودکار بٹن،گھڑیاں اور کیمرے نصب کردئیے گئے۔میں اپنی اس مشکل کو تکلیف سے برداشت کررہا تھا کہ پھر رفتہ رفتہ میرا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا گیا مجھے چھوڑ کر لفظ تخلیق کرنے والے اپنی انگلیوں کی پوروں سے ٹچ سکرین کو چھو کر جملے ترتیب دینے لگے، الفاظ کی خوبصورتی اپنی جگہ مگر لفظ کی وہ حرمت باقی نہ رہی جو سیاہ روشنائی سے میں سفید کاغذ پر ثبت کرتا تھا۔
اپنی داستان کے بہت سے گوشے میں چاہتے ہوئے بھی بیان نہیں کرسکتا کیونکہ میری وجہ سے کتنے تخلیق کاروں کے سر پر ان کی تصنیف کردہ کتب کے مسودے اس شدت سے مارے گئے کہ وہ جان دے کر لفظوں کی بقا پر نئی سرخی مرتب کرگئے۔میں عینی شاہد تھا جب غاروں میں بیٹھ کر ریاضی، فلکیات، الجبرا، ارضیات اور فلسفہ پر تحقیق کی گئی تو اس کا نچوڑ میری نوک سے صفحات کی زینت بنا۔ پھر وقت کے بادشاہوں، پادریوں، راہبوں، پوپ جان پالوں اور قاضیوں نے روشنی دینے والے قلم کاروں کی آنکھیں نکال کر عمر بھر کے اندھیرے انہیں تحفے میں عطا کئے، ابن الہیشم،بو علی سینا، الخوارزمی، ف لیمنگ، گلیلیو اور قلم کے ہر پاسبان کو زندہ در گور کردیا گیا۔میں سب کچھ کہنے سے قاصر ہوں کہ اب میرا وجود اپنی زندگی کی آخری سانس کھینچ رہا ہے۔
میرے اندر موجود روشنائی کو شہید کے خون سے زیادہ مقدس رتبہ دیا گیا،مگر مجھے دولت کے عوض بیچا جاتا رہا۔ مجھ سے انبیا کے قتل کے فتاوے لکھوائے گئے، میں نے الہامی کتب کو تحریر کیا،صحیفے لکھے،معتبر بیانات کو امر کیا مگر پھر دوسری طرف مجھ سے جھوٹی تاریخ لکھی گئی،ناحق قتل کے فیصلے لفظوں میں ڈھالے گئے۔میں نے فرعون کے قلم سے بچوں کے قتل عام کے احکامات ترتیب دئیے،میں نے عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالا، میں نے بادشاہوں کے تنخواہ دار مورخین کے ہاتھوں یرغمال بن کر قتل آل رسولؐ تک کو جائز قرار دینے کے فتوے تحریر کئے۔
اب تک مجھے بے گناہوں کو سزا اور گناہگاروں کو باعزت رہائی کے حکم نامے لکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور میں لرزتے ہوئے،نہ چاہتے ہوئے بھی حکم ماننے کا پابند رہتا ہوں، مجھے میری روشنائی چیخ چیخ کر میرا مقام یاد دلاتی ہے مگر میں لا چار گی کا سہارا لے کر خاموش ہوجاتا ہوں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے خالق نے میری قسمیں کھاتے ہوئے مجھے سرفراز کیا مگر میں صاحبان علم و ہنر کے ہاتھوں سے نکل کر اقتدار کے پجاریوں کے پاس آگیا۔مجھے جھوٹ لکھنے اور جبر کی دستاویزات پر دستخط کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔میں غلط ضمنیوں، خود ساختہ تفسیروں اور متعصب پریس ریلیزوں میں استعمال ہو ہوکر تنگ آ چکا ہوں۔
میں دست بستہ اپنی سیاہی کا وہی تقدس واپس مانگتا ہوں جو شہید کے خون سے زیادہ پاک تھا۔ میں دانشوروں سے ملتمس ہوں کہ سچ لکھنے کی قیمت میں سر کٹوانے کی رسم پھر سے تازہ کریں۔ مجھے میرا مقام لوٹا دیں مجھے ان قلم کاروں میں لے چلیں جو کہتے تھے۔
مرا قلم نہیں تسبیح اس مبلغ کی
جو بندگی کا بھی ہر دم حساب رکھتا ہے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کا
جو اپنے چہرے پہ دہرا نقاب رکھتا ہے
قیصر عباس صابر کا شمار اردو ادب کے معتبر تخلیق کاروں
میں ہوتا ہے،سفر ناموں،ناول اور تجزیوں پر مشتمل ان کی 20کتب شائع ہو چکی ہیں