سمندروں پر دوڑائیں یا ہوا میں اڑائیں سولر لگژری کشتی تیار
سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم لوگ حیرت کا مجسمہ بنے کھڑے ہیں کہ دنیا کیا ہے، کیا ہو رہی ہے۔"اٹلی کی ایک فرم نے حال ہی میں ایک تفریحی کشتی (Luxury Yacht)کا ڈیزائن تیار کیا ہے جو دنیا کے تمام سمندروں پر تیر بھی سکتی ہے اور اونچا اُڑ بھی سکتی ہے۔ اسے لگژری بوٹ بھی کہا جا رہا ہے۔ اس مہنگی کشتی کا ڈیزائن روم میں موجود ایک فرم "لذارینی ڈیزائن سٹوڈیو" نے بنایا ہے۔ یہ خشک کاربن فائبر ڈھانچہ 60گرہ تک پہنچ سکتا ہے۔ اور اس کی وجہ شمسی توانائی سے چلنے والے چار پنکھے اور ہیلیم گیس سے بھرے ہوئے دو چھوٹے ہوائی جہاز ہیں۔ اس کشتی کی رفتار کی تیزی میں شمسی توانائی کے پنکھے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے یہ کشتی اُڑ بھی سکتی ہے اور پانی پر تیرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ یہ تفریحی ہوائی کشتی ہوا میں رہتی ہے کیونکہ اس کے چھوٹے ہوائی جہاز ایک ایسی گیس سے بھرے ہوتے ہیں جو ہوا سے ہلکی ہوتی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ ان چھوٹے ہوائی جہازوں کی قیمت کیا ہوگی؟ اس کا پتہ تو اس وقت چلے گا جب یہ بنائے جائیں گے۔ اگرچہ فرم کا یہ کہنا ہے کہ یہ چھوٹے جہاز پرائیویٹ مالکوں کو ذہن میں رکھ کر ڈیزائن کیے گئے ہیں۔
خشک کاربن فائبر ڈھانچے کی مجموعی طور پر لمبائی 300فٹ کے قریب ہوگی جبکہ مرکزی ڈیک150میٹر لمبا اور 80میٹر چوڑا ہوگا۔ ہوائی کشتی کے دو جڑواں چھوٹے ہوائی جہاز چار لاکھ کیوبک میٹر ہیلیم گیس پر مشتمل ہیں۔ یہ دبی ہوئی گیس (Compresser gas)ہے جو عام طور پر مائع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ ہیلیم وہ گیس ہے جو بڑی مشکل سے مائع میں تبدیل ہوتی ہے اور اسے آٹھ گھومنے والے انجن آگے بڑھاتے ہیں۔ان انجنوں کو پاورفل بیٹریاں اور شمسی پینلز(Solar Panels)طاقت فراہم کرتے ہیں۔
لزارانی فرم کے مطابق یہ جہاز زیادہ سے زیادہ 70میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑیں گے اور اس کا دورانیہ 48 گھنٹوں سے زیادہ ہوگا۔ فرم کا کہنا ہے کہ ہوائی یا تفریحی کشتی گھومنے پھرنے کے شوقین لوگوں کیلئے بہترین ایجاد ثابت ہوگی۔ ہوائی یا تفریحی کشتی کی اڑان کافی زیادہ ہوگی۔ اس کا بڑا سبب دو چھوٹے ہوائی جہاز ہوں گے۔ اس کی خاصیت یہ ہوگی کہ اس میں تین کمرے ہوں گے جہاں مسافروں کی رسائی نہیں ہوگی کیونکہ ان میں ہیلیم گیس ہوگی۔ ہر چھوٹے ہوائی جہاز پر مسافروں کیلئے پانچ نوکر چاکر ہوں گے اور مسافر کھڑکی سے آسمان کا نظارہ کر سکیں گے۔ ہر چھوٹے جہاز کی پچھلی طرف ایک ایسا کھلا پلیٹ فارم ہوگا جہاں کھڑکی کے بغیر باہر دیکھا جا سکتا ہے۔ مسافر ان لہروں کو دیکھ سکیں گے جن کا نظارہ وہ اپنے نیچے کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ جب یہ کشتی اُڑے گی تو مسافر پانچ ہزار فٹ کی بلندی تک تازہ ہوا سے لطف اندوز ہوں گے۔
دونوں چھوٹے ہوئی جہازوں کو چار کاربن پل مرکزی کمرے سے جوڑیں گے جن کے ذریعے مسافر چل پھر سکیں گے۔ یہ مرکزی کمرہ دراصل وہ اجتماعی جگہ ہوگا جہاں مسافر اکٹھے ہو سکیں گے، آرام کر سکیں گے اور کھانا کھا سکیں گے۔ مسافروں کیلئے یہ جگہ خوبصورت نظارے دیکھنے کیلئے بہت زبردست ہو گی۔ اس کی ایک اور خاصیت یہ ہوگی کہ اس میں سوئمنگ پول ہوگا، ایک لاؤنج ہوگا جس میں قالین بچھا ہوگا اورایک وسیع رہنے کا کمرہ ہوگا جس میں مسافر رات کا کھانا کھا سکیں گے۔ ہر چھوٹے ہوائی جہاز کے نیچے ایسے تہہ خانے ہوں گے جن میں گیس یا ہوا بھری جا سکتی ہے۔ یہ تہہ خانے ہوا سے بھر جاتے ہیں جب پانی ان کے نزدیک پہنچتا ہے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر یہ کشتی تیربھی سکتی ہے۔
لزارانی فرم کہتی ہے کہ انجنوں کی حرکت ہوائی کشتی کو دھکیلے گی۔ یہ کشتی خاموشی سے پانی پر تیر سکتی ہے۔ لزارانی وہ فرم ہے جو کثرت سے ایسے شاہانہ تصورات پیش کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان تصورات کو عملی شکل میں پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ ہوائی کشتی اتنی مہنگی ہو کہ حقیقت کا روپ نہ دھار سکے۔ اس سے پہلے بھی یہ فرم بہت مہنگے تصورات پیش کر چکی ہے۔
عبدالحفیظ ظفر سینئر صحافی ہیں اورروزنامہ "دنیا"
سے طویل عرصہ سے وابستہ ہیں