سائبیریا دھماکہ: وہ پہیلی جسے سائنس بھی نہ سلجھا سکی
انسانی تاریخ کا وہ پراسرار ترین واقعہ جس کو 115 سال گزر چکے ہیں مگر اب بھی سائنس دانوں کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ ہوا کیسے؟
یہ 30 جون1908ء کی بات ہے جب سائبیریا کے علاقے ایونکی کے رہائشیوں نے آسمان پر نیلے رنگ کی روشنی کی حرکت کو رپورٹ کیا تھاجوان کے بقول سورج جتنی تیز تھی۔ روشنی کی رپورٹ کے 10 منٹ بعد ایسی گرجدار آواز سنائی دی جیسے بھاری توپ خانے سے گولہ باری کی جارہی ہو۔ یہ آواز مشرق سے شمال کی جانب سفر کر رہی تھی جبکہ اس کے بعد ایک شاک ویو نے قصبے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں۔
دھماکے کی آوازجس کی لہریں یوریشیاء بلکہ برطانیہ تک زلزلہ پیما مراکز نے ریکارڈ کیں مگر ایونکی اور ارگرد کے قصبوں کے رہائشیوں نے درحقیقت کسی قسم کے حقیقی دھماکے کو نہیں دیکھا۔ اس دھماکے کے بعد کئی دن تک ایشیاء اور یورپ کے اوپر آسمان میں جگمگاہٹ کو دیکھا گیا۔ جو برفانی ذرات بلندی پر بننے کا نتیجہ تھے جبکہ مختلف ممالک میں ماحولیاتی دبائو میںتبدیلیاں دیکھی گئیں۔ وہاں موجود800 مربعمیل رقبے پر پھیلا جنگل یا8 کروڑ درخت مکمل طورپر غائب ہوگئے اور اور اس کی کوئی وجہ بھی سمجھ نہیں آسکی۔
سائنسدانوں کا ابتدا میں ماننا تھا کہ وہ دھماکے کے اثر کا نتیجہ ہے مگر اس مقام پر کبھی کوئی گڑھا دریافت نہیں ہوسکا۔ مگر جنگل کا جتنا بڑا حصہ مکمل طور پر سپاٹ ہوگیا اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا تھا کہ دھماکے کی طاقت 10 سے15 ٹن تھی۔ سائنسدانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آخر یہ دھماکہ ہوا کیوں؟ کیونکہ اتنی طاقت کے دھماکے سے ایک بڑا شہر تباہ ہو سکتاہے۔ مگر اس کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا اور جب سے ہی سائنسدان کے ذہن چکرا رہے ہیں کہ آخر ایسا ہوا کیوں اور وجہ کیا تھی۔ خوش قسمتی سے وہ علاقہ آباد نہیں تھا ورنہ بہت زیادہ انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا مگر دھماکے کی حرارت کو دور دراز کے قصبوں کے رہائشیوں نے محسوس کیا تھا۔
ایک عینی شاہد نے اس موقع پر بتایا تھا کہ آسمان 2 حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا اور جنگل کے اوپر آسمان کاشمالی حصہ آگ سے بھرا ہوا لگتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس وقت آسمان میں ایک دھماکہ ہوا اور بہت بڑا کریش ہوا۔ ایسا کریش جس کو سن کر لگتا تھا کہ آسمان سے پتھر برس رہے ہوں یا گنوں کی فائرنگ ہو رہی ہو۔
اسے ''ٹونگوسکا ایونٹ‘‘ (Tunguska Event)کا نام دیا گیا جو انسانی تاریخ کا اب تک سب سے طاقتور ریکارڈ دھماکہ بھی ہے جس سے خارج ہونے والی توانائی ہیرو شیما میں گرائے جانے والے ایٹم بم سے 185 گنا زیادہ تھی۔ایک صدی سے بھی زائد عرصے بعد محققین کے ذہنوں میں مختلف سوالات موجود ہیں کہ آخر اس جگہ ہوا کیا تھا؟ کچھ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ ایک سیارچہ اس دھماکے کی وجہ تھی مگر اتنے بڑے خلائی جسم کے شواہد اب تک دریافت نہیں ہوسکے۔ کچھ حلقوں کے خیال میں یہ آتش فشاں پھٹنے یا کان کنی کا کوئی حادثہ تھا مگر اس کے بھی شواہد نہیں مل سکے۔
در حقیقت سربیا کے اس خطے کا موسم ڈرامائی قسم کا ہے۔ جہاں موسم سرما کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے جبکہ گرمی کا موسم بہت مختصر، جس کے باعث سطح میںایسی تبدیلیاں آئی جس نے اس جگہ کو ناقابل رہائش بنادیا، بلکہ وہاں پہنچنا ہی بہت مشکل ہے۔ روس کی ایک تحقیقاتی ٹیم نے اس جگہ کا دورہ کیا اور دریافت کیا کہ دھماکے کے لگ بھگ20 سال بعد بھی وہاں ہونے والا نقصان ویسے کا ویسا ہی تھا۔ اس ٹیم نے خیال ظاہر کیا کہ ایک خلائی جسم فضا میں پھٹا جس سے یہ نقصان ہوا مگر کوئی بھی گڑھا یا خلائی ذرات دریافت نہیں ہوسکے۔ تو ٹیم نے یہ وضاحت کی کہ وہاں کا دلدلی خطہ اتنا زیادہ نرم تھا کہ اسے کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا جبکہ تمام تر ملبہ اس کے اندر دفن ہوگیا۔ دلدلی حصے کی گہرائی میں کچھ بھی دریافت نہیں ہو سکا اور کچھ دہائیوں بعد روسی سائنسدانوں نے کہا کہ یہ کوئی شہاب ثاقب نہیں بلکہ دم دار ستارہ تھا۔ جس کا زیادہ تر حصہ چٹانی نہیں بلکہ برف پر مبنی ہوتا ہے۔ زمین کے ماحول پر ہونے والی تباہی کے بعد برف بخارات بن کر اڑ گئی مگر یہ خیال بھی درست ثابت نہیں ہوسکا۔تو پھر عجیب خیالات سامنے آئے جیسے کسی خلائی مخلوق کا سپیس کرافٹ اس مقام پر گر کر تباہ ہوا۔
1958ء میں محققین نے اس مقام سے مقناطیسی پتھر کے ننھے ذرات کو دریافت کیا اور مزید تحقیق سے ثابت ہوا کہ وہاں کی سطح پر نکل کی مقدار زیادہ ہے جوشہاب ثاقب کا ایک جانا مانا عنصر ہے۔
بحث تھم نہیں سکی اور 1973ء میں ایک تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ایک بلیک ہول کی زمین سے ٹکر میں یہ دھماکہ ہوامگر اس کی تردید پر مبنی تحقیق بھی فوری طورپر سامنے آگئی۔
2014ء میں یوکرین کے ماہرین کی ایک ٹیم نے دھماکے سے 1978ء میں اکٹھے کئے جانے والے چٹانی نمونوں کا تجزیہ کیا اور انہوں نے 1908ء کی ایک تہہ کو دریافت کیا۔ ماہرین نے کاربن منرل Ionsdaleite کے آثار دریافت کئے، جو اس وقت تشکیل پاتا ہے جب کوئی شہاب ثاقب زمین سے ٹکراتا ہے۔ یہ بھی واضح نتیجہ نہیں تھا ۔
2020ء میں ایک تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ایک بڑا آئرن شہاب ثاقت زمین کے اتنے قریب آگیا کہ بہت بڑا شاک ویوپیدا کرسکے مگر ٹکڑے ہوئے بغیر زمین کے پاس سے گزر گیا اور شاک ویو کا اثر اس خطے میں دیکھنے پر آیا۔
تو یہ واقعہ اب تک انسانی تاریخ کے چند پراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ جس پر اب تک تحقیقی کام جاری ہے اور آنے والے برسوں میں اس حوالے سے مزید خیالات سامنے آتے رہیں گے۔