سنگولیریٹی مصنوعی ذہانت انسانی بقاء کیلئے خطرہ ؟
مصنوعی ذہانت نسل انسان کی مدد گار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی بقاء کیلئے خطرہ بھی ہو سکتی ہے؟اس حوالے سے ماہرین میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ سائنسدانوں کا ایک مکتبہ فکر مصنوعی ذہانت ( Artificial Intelliegence) کو انسانی ترقی کیلئے ناگزیر جبکہ دوسرا مکتبہ فکر اسے انسانی مستقبل کیلئے خطرہ قرار دیتا ہے۔ ایک عرصہ تک گوگل کے ساتھ منسلک رہنے والے کمپیوٹر سائنسدان رے کرزویل (Ray Kurzweil) نے1988ء میں مصنوعی ذہانت اور اس سے تعلق رکھنے والی ٹیکنالوجی کے متعلق پیشگوئیاں کی تھیں جو2020ء تک 86فیصد درست ثابت ہوئیں۔ اب کرز ویل کی جانب سے کچھ اور پیش گوئیاں کی گئی ہیں۔
1988ء میں کرزویل کی جانب سے پیش گوئیاں کی گئیں تو اکثر ماہرین نے ان سے اختلاف کیا لیکن وقت نے ان کی اکثر پیش گوئیوں کو درست ثابت کیا۔ کرز ویل کی حمایت کرنے والے ماہرین کے مطابق اکثر لوگوں کو یہ پیش گوئیاں سمجھنے میں اس لئے بھی مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کے مطابق ترقی کی رفتار ہمیشہ ایک جیسی ہی رہتی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔عام تاثر یہ ہے کہ ترقی کی رفتارLinearہوتی ہے جبکہ حقیقتاً ترقی کی رفتار Exponential ہوتی ہے۔ شروع میں اس کی رفتار کم ہوتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔
رے کرزویل نے اپنی کتاب(How to Creat a Mind) اور(The Age of Spirtual Machines)میں بھی اسی طرح کی پیش گوئیوں اور مصنوعی ذہانت کے متعلق آگاہ کیا ہے۔2005ء میں شائع ہونے والی کرز ویل کی شہرہ آفاق کتاب (The Singularity is Near) میں بھی ''سنگو لیریٹی‘‘ (Singularity) کا ذکر کیا گیا ہے۔ '' سنگولیریٹی‘‘ سے مراد وہ مقام ہے جب مصنوعی ذہانت انسانی عقل کے برابر ہو جائے گی یعنی مشینیں انسانوں کی طرح سوچنے اور ردعمل دینے لگیں گی۔اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب مصنوعی ذہانت انسان کو اپنے قابو میں کر لے گی۔ کرز ویل اس وقت بھی ایک کتاب ''The Singularity is Nearer‘‘ پر کام کر رہے ہیں جس میں نئی پیشگوئیوں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے انکشافات ہو سکتے ہیں۔
کرز ویل کے مطابق بہت عرصہ تک مشینیں، انسانوں کے کنٹرول میں رہیں اور مصنوعی ذہانت بھی انسانی عقل کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کی قابلیت انسانی عقل کے برابر ہوتی جارہی ہے۔ مستقبل میں ایسا مقام بھی آسکتا ہے جب یہ مشینیں انسانی کنٹرول سے باہر ہو جائیں۔رے کرز ویل کے مطابق ''سنگو لیریٹی‘‘ مکمل طور پر2045ء تک منظر عام پر آجائے گی لیکن اس کے شواہد2029ء میں ہی نظر آنے لگیں گے۔
مصنوعی ذہانت کو اس طرح تیار کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں یہ خود کو بہتر بنانے اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ جس طرح انسان اپنی غلطیوں سے سیکھ کر انہیں بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح مصنوعی ذہانت بھی خود کو بہترکرنے اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت حاصل کر لے گی۔
ماہرین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ جب مصنوعی ذہانت اپنے عروج پر پہنچ جائے گی تو ہو سکتا ہے کہ یہ خود سے اپنا ایک ورژن بنانے میں کامیاب ہو جائے۔یعنی انسانی نسل کے ساتھ ساتھ ایک مصنوعی ذہانت کی نسل بھی دنیا میں موجود ہوگی۔اگر مصنوعی ذہانت نے اپنی الگ نسل بنانی شروع کر دی تو یقینا بقائے انسانی کیلئے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ ہمارے کنٹرول میں ہی رہے اور انسانوں کے مطابق ہی کام کرتی رہے تو اس سے بہت سے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ سٹیفن ہاکنگ اور ایلون مسک جیسے ماہرین کے مطابق اگر مصنوعی ذہانت کو بے انتہا ذہانت دینے کے باوجود انسان اسے کنٹرول کرنے میں کامیاب رہا تو بہت سے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا جاسکتا ہے،لیکن اس کے ''آئوٹ آف کنٹرول‘‘ ہونے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ مصنوعی ذہانت کی حمایت کرنے والے مکتبہ فکر کا ماننا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کو صحیح انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ کئی آئن سٹائن پیدا کر سکتی ہے۔ آئن سٹائن کو دنیا کا ذہین ترین دماغ مانا جاتا ہے لیکن اگر مصنوعی ذہانت کی سمت درست رہے تو دنیا میں کئی آئن سٹائن جیسے دماغ بنائے جا سکتے ہیں جو ہر مشکل کا حل تلاش کرنے میں انسانوں کے بہترین معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔