نیوروٹیکنالوجی

اسپیشل فیچر
حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی انسانی دماغ کی ناقابل یقین طاقت کا ثبوت ہے۔صرف دودہائیاں قبل سائنس کا جائزہ لیں تو یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ انسان '' سپر ہیومن‘‘ بننے کی کوشش کرے گا لیکن آج نہ صرف یہ حقیقت ہے بلکہ ٹیکنالوجی ''سپر ہیومن‘‘ سے بھی کہیں آگے نکل چکی ہے۔نیوروٹیکنالوجی جو سائنس ، انجینئرنگ اور کمپیوٹر کا امتزاج ہے ایک ایسا شعبہ ہے جس نے عقل انسانی کو حیر ت کے سمندر میں غوطے کھانے پر مجبور کر دیاہے۔نیورو ٹیکنالوجی کا مقصد دماغ کے کام کو سمجھنا اور اس میں بہتری پیدا کرنا ہے۔موجودہ دور میں طبی اپیلی کیشنز سے لے کر تعلیمی نظام تک سبھی جگہ نیوروٹیکنالوجی انسانی ترقی کیلئے نئے امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔
دماغ انسانی جسم کے سب سے پیچیدہ اعضاء میں سے ایک ہے۔اس میں تقریباً 86 ارب نیورونز ہیں جو ایک نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔یہی نیورونز ہمارے خیالات، جذبات اور اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے دماغ کے نیورونز اور کوڈز کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کے پیچیدہ میکانزم کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ایک بالغ انسان کے دماغ کا وزن اوسطاً 1.4 کلوگرام یعنی3پاؤنڈز کے برابر ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دماغ کو
سمجھنا اس لئے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں موجود ایک نیورون ہزاروں دوسرے نیورونز کے ساتھ کنکشن قائم کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق100ٹریلین Synapsesبنتے ہیں۔ Synapses معلومات فراہم کرنے والے اس پوائنٹ کو کہتے ہیں جو ایک نیورون کے دوسرے نیورون کے ساتھ کنکشن کے وقت بنتا ہے۔حیران کن طور پر دماغ جسمانی وزن کا صرف 2 فیصد ہونے کے باوجود جسم کی تقریباً20فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔دماغ مختلف قسم کے برقی پیٹرن بھی بناتا ہے جسے ''برین ویوز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان ''برین ویوز‘‘ کی پیمائشEEG (Electroencephalogram) کی جاتی ہے، ان کی پیمائش دماغ کے متعلق کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کیلئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو تی ہے۔
نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے طبی سائنس میں بہت سی کارآمد ایجادات حاصل کی گئی ہیں جو جدید طریقہ علاج اور آلات کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے برین کمپیوٹر انٹرفیس (Brain-Computer Interface)BCI'sبھی بنائے گئے ہیں جن میں دماغ اور بیرونی آلات کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس انٹرفیس سے معذور افراد کی مدد کی جاتی ہے جیسا کہ مفلوج مریضوں کے روبوٹک اعضاء کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی BCI'sکا استعمال کیا جاتا ہے ۔ڈی بی ایس (Deep Brain Stimulation) میں دماغ کے مخصوص حصوں میں الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں تاکہ اعصابی عوارض جن میں پارکنسنز اور مرگی شامل ہیں کے علاج میں مدد حاصل کی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق جن مریضوں پر اس تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ان میں حیران کن مثبت نتائج دیکھے گئے ہیں۔
نیوروٹیکنالوجی کے جدید طریقہ استعمال میں ''نیوروفیڈ بیک تھراپی‘‘ بھی بہت اہم ہے۔ ''نیورو فیڈ بیک تھراپی‘‘(Neuro Feedback Therapy) کی مدد سے دماغ کی سرگرمیوں کو منظم کیا جاتا ہے۔اس تکنیک کی مدد سے مختلف کنڈیشنز مثلاً توجہ کی کمی، ہائپر ڈس آرڈر(ADHD)، اضطراب اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(PTSD) کے علاج میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔
طبی استعمال کے علاوہ نیورو ٹیکنالوجی انسانی صلاحیتوں کی حدود کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار کر رہی ہے۔محققین نیوروٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے انسانی یادداشت کو بڑھانے کیلئے مختلف تکنیکوں پر کام کر رہے ہیں۔ دماغ کے مخصوص حصوں کو متحرک اور مصنوعی اعضاء کو استعمال کرتے ہوئے یادداشت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
گیمنگ انڈسٹری میں بھی نیوروٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ٹیکنالوجی تفریحی دنیا کو نئی جہتیں عطا کر رہی ہے۔ ''برین کمپیوٹر انٹرفیس‘‘ گیمنگ کھلاڑیوں کو ان کی دماغی سرگرمی کا استعمال کرتے ہوئے کرداروں کو کنٹرول کرنے یا ورچوئل ماحول میں گیم کھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔نیورو سائنسدانوں اور گیم ڈویلپرز کے مطابق نیوروٹیکنالوجی نے گیمنگ کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ موسیقار، اتھلیٹ اور کئی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نیوروفیڈ بیک ٹریننگ کی مدد سے اپنی دماغی سرگرمیوں کی نگرانی اور ان کو منظم کرکے اپنی کارکردگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔
اگرچہ اس قسم کی ٹیکنالوجی میں ترقی ایک دلچسپ اور خوش آئند پیش رفت ہے لیکن کوئی بھی ٹیکنالوجی سہولیات کے ساتھ ساتھ کچھ تحفظات اور خدشات بھی لے کر آتی ہے۔نیوروٹیکنالوجی میں بھی کچھ ایسے ہی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ چونکہ اس ٹیکنالوجی میں مختلف آلات کا استعمال کیا جاتا ہے اس لئے اس میں ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی جیسے خطرات موجود ہیں۔ ''نیورو ٹیکنالوجی‘‘ سے کسی بھی شخص کے خیالات اور جذبات کی معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور اگر یہ معلومات غیر محفوظ ہاتھوں میں چلی جائیں تو اسے کسی کے بھی دماغ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کو ''Brain Manipulation‘‘ کہا جاتا ہے۔
''نیوروٹیکنالوجی‘‘ نے انسانی دماغ کو سمجھنے اور اس کے فنکشنز میں جوڑ توڑ کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔تاہم اب بھی یہ فیلڈ اپنے ابتدائی دور میں ہے اور ابھی اس میں بہت سی تحقیق اور ایجادات ہونا باقی ہیںلیکن جوں جوں یہ ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے یہ بات بہت اہم ہے کہ ترقی اور جدت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی تحفظات کی ذمہ داری میں توازن قائم رکھا جائے۔
''نیوروٹیکنالوجی‘‘ طب میں انقلاب لانے، انسانی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور انسانی ترقی کیلئے نئے مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔انسانی دماغ کے اسرار سے پردہ اٹھا کر ہم سائنسی تحقیق کے ان بلندیوں کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں جہاں انسان اور ٹیکنالوجی کے درمیان کی سرحدیں دھندلی ہو تی جا رہی ہیں۔ محتاط استعمال اور اخلاقی تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیوروٹیکنالوجی اور انسانی ذہن کی بے پناہ صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
محمد عادل آفتاب بائیو کیمسٹری اینڈ ٹیکنالوجی میں ایم فل ہیں ، ان کے تحقیقی اور معلوماتی مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں