نیوروٹیکنالوجی

نیوروٹیکنالوجی

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد عادل آفتاب


حالیہ برسوں میں ٹیکنالوجی کی حیران کن ترقی انسانی دماغ کی ناقابل یقین طاقت کا ثبوت ہے۔صرف دودہائیاں قبل سائنس کا جائزہ لیں تو یہ تصور بھی ناممکن تھا کہ انسان '' سپر ہیومن‘‘ بننے کی کوشش کرے گا لیکن آج نہ صرف یہ حقیقت ہے بلکہ ٹیکنالوجی ''سپر ہیومن‘‘ سے بھی کہیں آگے نکل چکی ہے۔نیوروٹیکنالوجی جو سائنس ، انجینئرنگ اور کمپیوٹر کا امتزاج ہے ایک ایسا شعبہ ہے جس نے عقل انسانی کو حیر ت کے سمندر میں غوطے کھانے پر مجبور کر دیاہے۔نیورو ٹیکنالوجی کا مقصد دماغ کے کام کو سمجھنا اور اس میں بہتری پیدا کرنا ہے۔موجودہ دور میں طبی اپیلی کیشنز سے لے کر تعلیمی نظام تک سبھی جگہ نیوروٹیکنالوجی انسانی ترقی کیلئے نئے امکانات کے دروازے کھول رہی ہے۔
دماغ انسانی جسم کے سب سے پیچیدہ اعضاء میں سے ایک ہے۔اس میں تقریباً 86 ارب نیورونز ہیں جو ایک نیٹ ورک کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔یہی نیورونز ہمارے خیالات، جذبات اور اعمال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے دماغ کے نیورونز اور کوڈز کو ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اس کے پیچیدہ میکانزم کو سمجھنے میں آسانی ہو سکے۔ایک بالغ انسان کے دماغ کا وزن اوسطاً 1.4 کلوگرام یعنی3پاؤنڈز کے برابر ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق دماغ کو
سمجھنا اس لئے بھی پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں موجود ایک نیورون ہزاروں دوسرے نیورونز کے ساتھ کنکشن قائم کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق100ٹریلین Synapsesبنتے ہیں۔ Synapses معلومات فراہم کرنے والے اس پوائنٹ کو کہتے ہیں جو ایک نیورون کے دوسرے نیورون کے ساتھ کنکشن کے وقت بنتا ہے۔حیران کن طور پر دماغ جسمانی وزن کا صرف 2 فیصد ہونے کے باوجود جسم کی تقریباً20فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔دماغ مختلف قسم کے برقی پیٹرن بھی بناتا ہے جسے ''برین ویوز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان ''برین ویوز‘‘ کی پیمائشEEG (Electroencephalogram) کی جاتی ہے، ان کی پیمائش دماغ کے متعلق کسی بھی بیماری کا علاج کرنے کیلئے انتہائی فائدہ مند ثابت ہو تی ہے۔
نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے طبی سائنس میں بہت سی کارآمد ایجادات حاصل کی گئی ہیں جو جدید طریقہ علاج اور آلات کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔نیوروٹیکنالوجی کی مدد سے برین کمپیوٹر انٹرفیس (Brain-Computer Interface)BCI'sبھی بنائے گئے ہیں جن میں دماغ اور بیرونی آلات کے درمیان براہ راست رابطہ قائم کیا جاتا ہے۔ اس انٹرفیس سے معذور افراد کی مدد کی جاتی ہے جیسا کہ مفلوج مریضوں کے روبوٹک اعضاء کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی BCI'sکا استعمال کیا جاتا ہے ۔ڈی بی ایس (Deep Brain Stimulation) میں دماغ کے مخصوص حصوں میں الیکٹروڈز لگائے جاتے ہیں تاکہ اعصابی عوارض جن میں پارکنسنز اور مرگی شامل ہیں کے علاج میں مدد حاصل کی جا سکے۔ ماہرین کے مطابق جن مریضوں پر اس تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے ان میں حیران کن مثبت نتائج دیکھے گئے ہیں۔
نیوروٹیکنالوجی کے جدید طریقہ استعمال میں ''نیوروفیڈ بیک تھراپی‘‘ بھی بہت اہم ہے۔ ''نیورو فیڈ بیک تھراپی‘‘(Neuro Feedback Therapy) کی مدد سے دماغ کی سرگرمیوں کو منظم کیا جاتا ہے۔اس تکنیک کی مدد سے مختلف کنڈیشنز مثلاً توجہ کی کمی، ہائپر ڈس آرڈر(ADHD)، اضطراب اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر(PTSD) کے علاج میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔
طبی استعمال کے علاوہ نیورو ٹیکنالوجی انسانی صلاحیتوں کی حدود کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار کر رہی ہے۔محققین نیوروٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے انسانی یادداشت کو بڑھانے کیلئے مختلف تکنیکوں پر کام کر رہے ہیں۔ دماغ کے مخصوص حصوں کو متحرک اور مصنوعی اعضاء کو استعمال کرتے ہوئے یادداشت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
گیمنگ انڈسٹری میں بھی نیوروٹیکنالوجی کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ٹیکنالوجی تفریحی دنیا کو نئی جہتیں عطا کر رہی ہے۔ ''برین کمپیوٹر انٹرفیس‘‘ گیمنگ کھلاڑیوں کو ان کی دماغی سرگرمی کا استعمال کرتے ہوئے کرداروں کو کنٹرول کرنے یا ورچوئل ماحول میں گیم کھیلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔نیورو سائنسدانوں اور گیم ڈویلپرز کے مطابق نیوروٹیکنالوجی نے گیمنگ کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں۔ موسیقار، اتھلیٹ اور کئی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نیوروفیڈ بیک ٹریننگ کی مدد سے اپنی دماغی سرگرمیوں کی نگرانی اور ان کو منظم کرکے اپنی کارکردگی کو بہتر بنا رہے ہیں۔
اگرچہ اس قسم کی ٹیکنالوجی میں ترقی ایک دلچسپ اور خوش آئند پیش رفت ہے لیکن کوئی بھی ٹیکنالوجی سہولیات کے ساتھ ساتھ کچھ تحفظات اور خدشات بھی لے کر آتی ہے۔نیوروٹیکنالوجی میں بھی کچھ ایسے ہی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ چونکہ اس ٹیکنالوجی میں مختلف آلات کا استعمال کیا جاتا ہے اس لئے اس میں ڈیٹا سکیورٹی اور پرائیویسی جیسے خطرات موجود ہیں۔ ''نیورو ٹیکنالوجی‘‘ سے کسی بھی شخص کے خیالات اور جذبات کی معلومات تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے اور اگر یہ معلومات غیر محفوظ ہاتھوں میں چلی جائیں تو اسے کسی کے بھی دماغ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال کو ''Brain Manipulation‘‘ کہا جاتا ہے۔
''نیوروٹیکنالوجی‘‘ نے انسانی دماغ کو سمجھنے اور اس کے فنکشنز میں جوڑ توڑ کرنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔تاہم اب بھی یہ فیلڈ اپنے ابتدائی دور میں ہے اور ابھی اس میں بہت سی تحقیق اور ایجادات ہونا باقی ہیںلیکن جوں جوں یہ ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے یہ بات بہت اہم ہے کہ ترقی اور جدت کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی تحفظات کی ذمہ داری میں توازن قائم رکھا جائے۔
''نیوروٹیکنالوجی‘‘ طب میں انقلاب لانے، انسانی صلاحیتوں کو بہتر بنانے اور انسانی ترقی کیلئے نئے مواقع فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔انسانی دماغ کے اسرار سے پردہ اٹھا کر ہم سائنسی تحقیق کے ان بلندیوں کی جانب قدم بڑھا رہے ہیں جہاں انسان اور ٹیکنالوجی کے درمیان کی سرحدیں دھندلی ہو تی جا رہی ہیں۔ محتاط استعمال اور اخلاقی تحفظات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نیوروٹیکنالوجی اور انسانی ذہن کی بے پناہ صلاحیتوں کو صحیح معنوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
محمد عادل آفتاب بائیو کیمسٹری اینڈ ٹیکنالوجی میں ایم فل ہیں ، ان کے تحقیقی اور معلوماتی مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
بقاء کی جنگ لڑتا دریائے ایمیزون۔۔۔۔

بقاء کی جنگ لڑتا دریائے ایمیزون۔۔۔۔

سانپ کی طرح بل کھاتا ،دنیا کے کئی ممالک سے گزرتا بلحاظ حجم دنیا کا سب سے بڑا جبکہ بلحاظ طوالت یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور منفرد دریا ہے۔منفرد یوں کہ اس کے بیشتر حصوں میں ہماوقت ابلتا پانی رواں دواں نظر آتا ہے جسے مقامی قبائلی '' شانے تمپشکا ‘‘ کہتے ہیں، جس کے معنی ''سورج کی گرمی سے ابلنے والا ‘‘ ہیں۔ عجب یوں کہ یہ ایک پراسرار اور دیومالائی دریا ہے جس کاذکر مقامی قبائلیوں کی کہانیوں میں ملتا ہے۔ ایندر روزو بنیادی طور پر ایک سائنسدان ہیں ، پیرو کا دارلحکومت لیما ان کا آبائی شہر ہے۔ ایندر روزو امریکہ میں ٹیکسس کی سدرن میتھو ڈسٹ یونیورسٹی میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کے دوران '' پیرو میں زیر زمین حاصل ہونے والی ممکنہ توانائی ‘‘ کے عنوان سے تحقیق کر رہے تھے ،کہتے ہیں '' جب اچانک مجھے یاد آیا کہ پیرو سے نکلنے والے دریائے ایمیزون جس کے متعلق ہم بچپن سے سنتے آرہے تھے کہ اس کا پانی ابلتا رہتاہے۔ یونیورسٹی میں دوران تحقیق میری سوچ اکثر مجھے اس نکتے پر بے چین کئے رکھتی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی دریا کاپانی ابلتا ہوا گرم ہو ، میں اکثر اپنے آپ سے تنہائی میں سوال کرتا کہ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے ؟‘‘ اس دوران میںنے ونیورسٹی میں اپنے ساتھیوں، تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں کے نمائندوں ،حتی ٰکہ کچھ حکومتی اراکین سے بھی اس سوال کا جواب چاہا لیکن سب کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے اپنی تحقیق کو آگے بڑھایا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اگرچہ ابلتے دریا دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں لیکن وہ عام طور آتش فشاں کے ساتھ یا ان کے پہلو میں ہوتے ہیں۔اس طرح کی زمین کے اندر کی حرارت کے مظہر کیلئے بہت زیادہ گرمی یا گرم ماحول درکار ہوتا ہے جبکہ ایمیزون میں آتش فشاں نہیں ہیں۔میری تشنگی نے مجھے چین سے نہ بیٹھنے دیا اور پھر میں نے عملی طور پر دریائے ایمیزون کا رخ کیا اور یوں کچھ عرصہ بعد میرا ٹھکانا ایمیزون جنگل میں دریائے ایمیزون کے کنارے تھا۔اس دوران میں دریا کے ساتھ ساتھ مختلف جگہوں کا درجہ حرارت چیک کرتا رہا جو یقینا '' میری اس تحقیق کاسب سے کٹھن مرحلہ تھا۔ مجھے یاد ہے ایک جگہ پہنچ کر میں نے محسوس کیا کہ یہاں درجہ حرارت خاصا گرم ہے۔چنانچہ میں نے اپنا تھرمامیٹر نکالا ، وہاں دریا کے اندر اوسط درجہ حرارت 86 ڈگری سینٹی گریڈ تھا جبکہ ابلنے کیلئے عام طور پر درجہ حرارت 100 ڈگری سینٹی گریڈ درکار ہوتا ہے۔ اگلے دن جب دریائے ایمیزون کے کنارے میں نے چائے پینے کی خواہش کااظہار کیا تو میرے میزبان نے مجھے ایک مگ اور ٹی بیگ تھما کر دریا کی جانب اشارہ کیا۔پانی صاف اور شفاف تھا اس کا ذائقہ بھی اچھا تھاجبکہ جیوتھرمل نظام میں یہ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ یہ درجہ حرارت بالکل ایسے ہی تھا جیسے میں نے آتش فشاؤں کے آس پاس دیکھا تھا بلکہ ''ییلو سٹون‘‘ جیسے سپر آتش فشاں پر بھی لیکن میرے لئے سب سے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ دریا بغیر کسی آتش فشاں کے کیسے ابل رہا ہے ؟اس کا نقطہ آغاز نہ تو مقناطیسی ہے اور نہ ہی آتش فشانی کیونکہ قریب ترین آتش فشاں اس سے 700کلومیٹر دورہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک معروف برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک تحقیق کے ذریعے دریائے ایمیزون کے ابلتے پانی پر ایک رپورٹ کچھ اس طرح پیش کی'' ہاں یہ بالکل حقیقت ہے کہ اس دریا کے کچھ حصے بہت گرم ہیں۔ کئی قسم کے جانوروں کو اس پانی میں گرتے دیکھا گیا ہے۔ سب سے پہلے ان کی آنکھیں جاتی ہیں بظاہر آنکھیں جلد پک جاتی ہیں‘‘۔ 6992 کلومیٹر طویل دریا کے حجم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد اگر دنیا کے سات سب سے بڑے دریاؤں کا پانی ملاکر اکٹھا کیا جائے تو دریائے ایمیزون کا پانی اس سے کہیں زیادہ ہو گا۔ اس کے معاون دریاؤں کی تعداد ایک ہزار سے بھی زیادہ ہے جو اس میں ضم ہوتے ہیں۔ اس علاقے کو '' ایموزونیا ‘‘ کہتے ہیں۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ علاقہ یعنی ایموزونیا دنیا کے نو ممالک کے ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ایمیزون ایک بڑے جزیرے کو گھیرے ہوئے ہے۔یہ جزیرہ ماراجو سوئزرلینڈ جتنا بڑا ہے ۔ اس دریا میں بحرالکال سے بھی زیادہ مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔دریائے ایمیزون کی ابتدا جنوبی امریکہ کے ملک پیرو کے مقام نیواڈو مسمی سے ہوتی ہے۔ اس کا پانی بحیرہ اوقیانوس میں گرتا ہے ۔ دنیا بھر میں سمندروں میں گرنے والے میٹھے پانی کا پانچواں حصہ دریاے ایمیزون سے گرتا ہے۔ معروف عالمی خبر رساں ادارے '' روئٹرز ‘‘ کے مطابق ایمیزون میں کشتیوں کے پاس دھواں اٹھتا دیکھا گیاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دریا کی زمین کو سونے کی غیر قانونی تلاش میں کھنگالا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم '' گرین پیس ‘‘ نے برازیل کو متنبہ کیا تھا کہ دریائے ایمیزون کے ایک معاون دریا میڈیرا کے آس پاس سونے کی غیر قانونی تلاش کرنے والوں کی وجہ سے اس عظیم دریا کی بقا کوخطرات لاحق ہیں۔سونا ملنے کی افواہوں نے اس وقت زور پکڑا جب عالمی رہنما اقوام متحدہ کی ماحولیاتی کانفرنس'' کوپ26‘‘ کیلئے گلاسکو میں جمع تھے اور سونے کی دریافت کی بازگشت ایک غیر رسمی بحث کے طور پر سنی جاتی رہی۔ اس سے پہلے برازیل کی یونیورسٹی آف میناس گیریس نے 2020ء میں اپنی ایک رپورٹ میں اس امر کا انکشاف کیا تھا کہ برازیل میں 2019ء اور 2020ء کے درمیان نکالے جانے والے 174 ٹن سونے میں سے 66 فیصد سونا غیر قانونی طریقے سے نکالا گیا ہے۔

یادرفتگاں: ایس بی جان۔۔

یادرفتگاں: ایس بی جان۔۔

دنیائے موسیقی میں کئی نام ایسے ہیں جنہوں نے ان گنت فلمی و غیر فلمی گیت گائے اور اپنے ان گیتوں کی بدولت اپنا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں لکھوا لیا۔ اس کے برعکس کچھ گلوکار ایسے بھی ہیں جنہوں نے کئی فلمی گیت گانے کے ساتھ بیشمار غیر فلمی گیت بھی گائے لیکن انہوں نے ایک ایسا نغمہ گایا جو ان کی شناخت بن گیا اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی وہ اپنے اس گیت ہی کی بدولت پہچانے جاتے ہیں۔ ایسے گلوکاروں کی فہرست میں ایک نام ایس بی جون کا بھی ہے جن کے ایک گیت نے انہیں لازوال شہرت سے ہمکنار کر دیا۔ اس ایک گیت نے انہیں وہ مقام عطا کر دیا جو دوسرے گلوکاروں کیلئے قابل رشک ہے۔ جو گیت ان کی وجہ شہرت بنا وہ ہے ''تو جو نہیں ہے، تو کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ یہ گانا پاکستانی فلم ''سویرا‘‘ کیلئے انہوں نے ریکارڈ کروایا تھا جو 1959ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ پہلے ہی فلمی گیت سے لازوال شہرت حاصل کرنے والے گلوکار ایس بی جون اکتوبر 1934ء میں کراچی کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے، ان کا پورا نام سنی بنجمن جون تھا اور وہ میوزک ورلڈ میںایس بی جون کے نام سے مشہور ہوئے۔ سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ برنی روڈ کے قریب کمیان سنگیت وڈیالا میں پنڈت رام چندر ترویدی سے موسیقی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔انہیں آلات موسیقی بجانے کا شوق تھا اور وہ وہاں طبلہ سیکھنے گئے تھے لیکن ان کے گرو نے انہیں کہا کہ وہ گائیکی سیکھیں۔ انہوں نے اپنے گرو کی بات کا مان رکھتے ہوئے گائیکی کی بنیادی تعلیم حاصل کی اور 1950ء میں گائیکی کو پیشے کے طور پر اپنایا اور ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ ہو گئے۔ ریڈیو کیلئے انہوں نے بیشمار غزلیں اور گیت ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے کراچی سٹیج پر بھی بہت عرصہ تک پرفارم کیا۔ان کی گائیکی کے چرچے فلمی دنیا تک پہنچے اور انہیں فلمی گیت گانے کی پیشکش ہوئی۔ 1959ء ہدایتکار رفیق رضوی کی فلم ''سویرا‘‘ ان کی پہلی فلم تھی ،جس میں موسیقار منظور نے ان سے دو گیت گوائے ۔ فیاض ہاشمی کے لکھے ہوئے ان گیتوں میں سے ''تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے ، یہ مانا کہ محفل جواں ہے ، حسیں ہے‘‘ ایک سدابہار گیت ثابت ہوا تھا۔ یہ گیت اداکار کمال پر فلمایا گیا تھا۔ایس بی جون نے اس گیت کو جتنی خوبصورتی سے گایا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ گیت بھارت میں بھی بہت مقبول ہوا۔ اس فلم میں ایس بی جون نے ایک اور گیت ''میری ملاقات ہوئی، پیا جی کے ساتھ ہوئی‘‘بھی گایا تھا، ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا یہ نغمہ بھی معیاری تھا ۔وہ فلمی دنیا میں خاص کامیابی حاصل نہ کر سکے اور اپنے مختصر سے فلمی کریئر میں مجموعی طور پر پانچ فلموں کے لئے دس گیت گائے۔ان کے کم فلمی گیت گانے کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں فلمیں لاہور میں بنتی تھیں اور ان کیلئے کراچی چھوڑنا ممکن نہیں تھا۔ ان کی دوسری فلم ''رات کے راہی‘‘ تھی جو 1960ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم کے ایک گیت ''بات چھوٹی سی ہے ، مانو یا نہ مانو میں‘‘میں انہوں نے زبیدہ خانم اور احمدرشدی کے ساتھ شرکت کی تھی، اے حمید کی موسیقی میں یہ گیت بھی فیاض ہاشمی کا لکھا ہوا تھا۔ 1961ء میں آنے والی فلم ''انسان بدلتا ہے‘‘ میں بھی ایس بی جون نے زبیدہ خانم کے ساتھ ایک دوگانا ''ہم تم اور یہ کھوئی کھوئی رات‘‘ گایا، یہ گیت شمیم آرا اور درپن پر فلمایا گیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی گیت مقبول نہ ہو سکا تھا۔ ہدایتکار شیخ حسن نے اپنی فلم '' لاکھوں فسانے‘‘کیلئے ایس بی جون سے پہلی بار تین گیت گوائے ۔تینوں گیت '' دنیا میں لاکھوں فسانے ، کیا دل پر گزری‘‘ ،''کسی ہم سفر کی تلاش ہے مجھے‘‘ اور''کتنے جوہر ہیں غربت میں‘‘ سولو سانگز تھے لیکن کسی گیت کو عوامی پذیرائی نہ مل پائی تھی۔1961ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم میں موسیقار دیبو بھٹاچاریہ تھے۔پانچویں اور آخری فلم ''پیار کی سزا‘‘ 1964ء میں منظرعام پر آئی ،اس فلم میں بھی ان کے تین گیت شامل تھے، جن میں سے ایک گیت ''اب رات ہے اور ٹوٹے ہوئے دل کی صدا ہے‘‘ سولو گیت تھا۔ دیگر دو گیت ''آنکھ ملانا برا ہے ، دل کا ملانا برا ہے‘‘ اور ''دل لے کے اب جی ، کدھر چلے ہو‘‘ گلوکارہ شمیم بانو کے ساتھ تھے۔ ایس بی جون نے غزلیں بھی گائیں جن میں احمد فراز کی غزلیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے ابن انشا کی غزل '' کل چودھویں کی رات تھی‘‘کو لافانی بنا دیا ۔وہ گلوکار طلعت محمود، ہیمنت کمار اور محمد رفیع کے زبردست مداح تھے اورسٹیج پر ان گلوکاروں کے گیت گاتے تھے۔ ایس بی جون پہلے عیسائی گلوکار تھے جنہیں 2010ء میںصدارتی ''تمغہ برائے حسن کارکردگی‘‘ سے نوازا گیا۔ 1934ء میں کراچی میں پیدا ہونے والے ایس بی جون کا 5 جون 2021ء کو کراچی ہی میں انتقال ہوگیا۔انہوں نے 87برس کی عمر پائی۔ان کے بیٹے گلین جون بھی ایک بہترین گلوکار ہیں۔

سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

سملی پہاڑوں کے دامن میں قدرتی ڈیم

مری کی پہاڑیاں اور اس کے گردو نواح کے علاقے جو عرف عام میں ''گلیات‘‘ پکارے جاتے ہیں پر ہونے والی برف باری اور بارش صرف ان کے حسن و خوبصورتی میں اضافہ کا باعث ہی نہیں بنتی بلکہ ان سے لاکھوں افراد کو پینے اورآبپاشی کیلئے پانی جیسی انمول نعمت بھی حاصل ہوتی ہے۔ مری اور اس کے بالمقابل واقع گلہڑا گلی کی پہاڑیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان پر ہونے والی برفباری اور بارش ڈھلوان کے ایک جانب دریائے جہلم اور اس کی وادیوں کو پانی فراہم کرتی ہے تو دوسری جانب راولپنڈی اسلام آباد اور ان سے ملحقہ علاقے اس سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ مری سے دریائے سواں اور گلہڑ ا گلی سے کھاد نالہ ان پانیوں کو لے کر نشیب کی جانب اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے میں سیکڑوں چھوٹے چھوٹے برساتی نالوں اور چشموں کا پانی ان میں شامل ہو جاتا ہے۔لگ بھگ پچاس کلو میٹر کا پر پیچ راستہ طے کرنے کے بعد آزادی کے مقام پر کھاد نالہ، دریائے سواں سے مل جاتا ہے۔ کچھ فاصلے کے بعدیہ ایک چھوی سی پیالہ نما وادی میں آ نکلتا ہے۔ جہاں دو دہائی قبل ''سملی‘‘ نام کا ایک گائوں آباد تھا ۔وفاقی دارالحکومت کی تعمیر کے وقت پانی کی فراہمی کیلئے جو منصوبے بنائے گئے تھے وہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے رفتہ رفتہ کم پڑنے لگے تو پانی کی کسی بڑی ذخیرہ گاہ کی تلاش شروع ہوئی چنانچہ ارضیاتی اور جغرافیائی سروے کے بعد قرعہ فال اس علاقے کے نام نکلا جہاں سملی گائوں آباد تھا۔ اس کی خصوصیت یہ تھی کہ تین اطراف بلند و بالا پہاڑ تھے جن کے عین نشیب میں آبادی تھی اگر اس گائوں کو خالی کرا لیا جاتا تو یہ پیالہ نما وادی قدرتی جھیل بن سکتی تھی۔ چنانچہ سملی کے مکینوں کو پرانی آبادی کے سامنے پہاڑی پر بھارہ کہو کو پتریاٹہ اور مری سے ملانے والی سڑک کے کنارے متبادل جگہ دے کر گائوں خالی کرا لیا گیا اور یہاں پانی کی اس ذخیرہ گاہ کی بنیاد رکھی گئی جسے اب ''سملی ڈیم‘‘ کہا جاتا ہے۔'' سملی‘‘ اسلام آباد کے شمال مشرق میں لگ بھگ چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے ۔ دریائے سواں پر واقع یہ مکمل قدرتی ڈیم ہے اور اس میں پانی کی آمد بارشوں سے مشروط ہے۔ کھاد نالہ اور دریائے سواں کے علاوہ منگل، جندریلا، چنیوٹ ، کلا لئی، کلاں، بساند بھانہ اور ملحقہ چھوٹے چھوے علاقوں سے بھی درجنوں نالوں اور چشموں کا پانی براہ راست اسی جھیل میں آ کر گرتا ہے جو 10کلو میٹر رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ ستمبر 1982ء میں مکمل ہونے والے اس ڈیم کی عمر کا اندازہ 63برس ہے یعنی دوسرے لفظوں میں اسلام آباد کے شہری 2045ء تک سملی کے پانی سے استفادہ کر سکیں گے۔ سملی ڈیم کی جھیل265 فٹ گہری ہے اور اس میں 25لاکھ80 ہزار کیوبک گز پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔445 کیوسک گنجائش کی 6فٹ چوڑی سرنگ کے ذریعے پانی دو جدید ترین فلٹریشن اور پیوری فکیشن پلانٹس میں پہنچایا جاتا ہے۔ 48انچ قطر کی 120میٹر طویل دو پائپ لائنوں پر متعدد پمپنگ اسٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن کے باعث صاف پانی کی فراہمی میں کوئی تعطل پیدا نہیں ہوتا۔ جھیل میں گنجائش سے زیادہ پانی آ جانے کی صورت میں اس کے اخراج کیلئے سپل وے بنایا گیا ہے جو سطح زمین سے 250 فٹ بلند ہے۔ اس کے تین دروازے ہیں۔اس سپل وے سے 4500کیوسک پانی خارج ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں سپل وے کے گیٹ مزید20فٹ بلند کر دیئے گئے ہیں جس کی وجہ سے ڈیم میں پانی کی مقدار 28ہزار 750ایکڑ فٹ سے بڑھ کر 38ہزار ایکڑ فٹ ہو گئی ہے۔ پہلے یہاں سے 2کروڑ 40لاکھ گیلن پانی روزانہ فراہم کیا جاتا تھا جبکہ توسیع سے یہ مقدار تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔اسلام آباد کی 5لاکھ 25ہزار کی آبادی کو اوسطاً گیلن فی شخص کے حساب سے 8کروڑ 25 لاکھ گیلن پانی درکار ہے۔ سی ڈی اے گیارہ مختلف ذرائع سے یہ پانی فراہم کرتا ہے جن میں کورنگ واٹر ورکس، سملی واٹر ورکس، سید پور واٹر ورکس، نور پور واٹر ورکس اور نیشنل پارک پرانے گولف کورس، نئے گولف کورس اور مختلف سیکٹروں میں نصب 143ٹیوب ویل شامل ہیں جن میں سے کئی ایک خشک یا خراب ہو چکے ہیں۔ سملی ڈیم کو ان تمام ذرائع پر اس لئے فوقیت حاصل ہے کیونکہ یہاں سے اسلام آباد کی پانی کی نصف ضروریات پوری ہوتی ہیں اور روزانہ 4کروڑ 20لاکھ گیلن پانی 48انچ کی دو پائپ لائنوں کے ذریعے یہاں پہنچتا ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی سمیت پوری وادی پوٹھوہار کو ان دنوں بارشوں کی کمی کا سامناہے اس لئے اس بارانی ڈیم سے اسلام آباد کو پانی کی فراہمی نمایاں طور پر کم ہو گئی ہے۔ سی ڈی اے کے مطابق اس وقت سملی صرف 2کروڑ گیلن پانی روزانہ فراہم کر رہا ہے جس سے اسلام آباد فی الوقت سنگین صورتحال سے دوچار ہے۔ سملی ڈیم کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ کوئی کمرشل منصوبہ نہیں، یہ اپنا خرچہ اسلام آباد کو پانی کی فراہمی کے عوض پورا کر لیتا ہے۔'' سملی‘‘ کی جھیل میں دو کشتیاں بھی موجود ہیں۔ اسلام آباد کو پانی فراہم کرنے کے علاوہ سملی ڈیم بعض سیاست دانوں کا میزبان بھی رہا ہے۔ جھیل کنارے بنے ہوئے عالی شان ریسٹ ہائوس میں کئی سیاست دان اپنے ایام اسیری بسر کر چکے ہیں۔ ان میں آصف زرداری اور سابق وزیراعظم آزاد کشمیر ممتاز راٹھور بھی شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی دوبار اس ریسٹ ہائوس کی میزبانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔

ناکامی کامیابی کا آغازہوسکتی ہے!

ناکامی کامیابی کا آغازہوسکتی ہے!

ناکامی بھی ایک تحفہ ہے ،آپ بھی سوچ رہے ہوں گے بھلا ناکامی تحفہ کیسے ہو سکتی ہے،کیونکہ لفظ ناکامی کے ساتھ تو مایوسی، اداسی اور نا امیدی وابستہ ہے۔جہاں تمام راستے بند دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی کام میں ناکامی کے بعدنہ صرف دل ٹوٹ جاتا ہے بلکہ اس کو دوبارہ کرنے کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔یہ صرف آپ کے سوچنے کا انداز ہے اور کچھ بھی نہیں ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ ناکامی کس طرح ہمارے لئے بہت قیمتی تحفہ ہے۔مشہور موجد ٹامس ایڈیسن نے 5ہزار سے زائد بار کوشش کے بعد بجلی کا بلب بنایا تھا۔ایک انٹرویو میں اس سے پوچھا گیا کہ 5 ہزار بار آپ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑاآپ کو کیسا محسوس ہوتا تھا۔ایڈیسن نے جواب دیا '' میں ناکام نہیں بلکہ میں نے 5ہزار ایسے طریقے سیکھے ہیں جن سے بجلی کا بلب نہیں بن سکتا‘‘۔ناکامی ہمیں ایک نیاراستہ دکھاتی ہے، ایسا راستہ جو اب تک ہماری نظروں سے اوجھل تھا۔ جس طرح کوئی سیلز پرسن اپنی پروڈکٹ فروخت کرنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ کوئی اور نیا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ایک نیا طریقہ سیکھتا ہے کہ نئی حکمت عملی استعمال کر کے اپنی کاکردگی میں بہتری لاسکتا ہے۔جس طرح ہم اگر نوکری کے لئے کہیں انٹرویو دینے جاتے ہیں تو ہم سیکھتے ہیں کہ اگلی بار ہم اس میں مزید کیا بہتری لا سکتے ہیںکہ ہمارا انٹرویو اس سے بھی زیادہ بہتر ہو۔ناکام ہونے کے بعد ہمیں بہت سے ایسے مختلف اور نئے راستے ملتے ہیں جن کے بارے میں پہلے ہم نے کبھی سوچا نہیں ہوتا۔ ناکامی ہمیں نئے راستوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ نئی تراکیب اپناکر ان پر عمل پیرا ہونے سے ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ ناکامی ہمارے راستے بند نہیں کرتی بلکہ یہ ہمارے لئے بہت سے نئے راستے اور حل وضع کرتی ہے۔چالیس کی دہائی میں ایک نوجوان نے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر اپنا خواب پورا کرنے کی غرض سے اپنے والدین کی مرضی کیخلاف ایک میوزیکل بینڈ جوائن کیا۔ گلوکاری اور موسیقی کا اسے شوق ضرور تھالیکن یہ اس کی فطرت نہیں تھی۔ابھی اس کا ٹیلنٹ اتنا بلند نہیںتھا کہ وہ اسے ایک پروفیشن کی طرح استعمال کر سکتا۔جلدی ہی اس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی اندازہ ہو گیالیکن وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کی نسبت اپنا پیسہ بہت اچھے طریقے سے خرچ کرتا اور بچت کرتا تھا۔ بے روزگاری کے دور میں اس کی وہی بچت اس کے کام آئی۔اس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی اس کی خوبی کا علم ہو گیاکہ یہ پیسے کو بہت اچھا مینج کر لیتا ہے تو انہوں نے اسے اپنا فنانس منیجر رکھ لیا۔اپنی اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے اس لڑکے نے اپنے کرئیر کے بارے میں ایک مرتبہ پھر سوچا کہ کیا کام وہ بہتر طور پر کر سکتا ہے اور اس نے اپنا کرئیرتبدیل کر لیا۔اس لڑکے کا نام ہے ایلن گرین سپین جوکہ فیڈرل ریزرو امریکہ کا چیئرمین رہا۔ جس نے اپنی عمدہ کارکردگی سے اپنی کمپنی کو اقتصادی بحران سے بچایا اور اسے ترقی دی۔ اس کی ایک ناکامی نے اسے سکھایا کہ قدرت نے اس کے اندر کیا خصوصیات رکھی ہیںجنہیں وہ زیادہ بہتر طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ جو اس کی اپنی ذات اور معاشرے کے لئے سود مند ہیں۔جب تک آپ ناکامی کا سامنا نہیں کریں گے ،آپ کوپتہ نہیں چل سکتا کہ آپ میں کونسی خوبیاں اور خصوصیات ہیں۔ ایک پیشے میں ناکامی کے بعد ہی ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہم کونسا دوسرا کام زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔بار ہا ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ہدف یا مقصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وہ ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے ،ہزار کوششوں کے باوجود اس کے ہمیں مطلوبہ نتائج نہیں ملتے۔دراصل ایسی ناکامی ہماری اقدار کا پتہ دیتی ہے۔یہ ناکامی ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری زندگی میں سب سے اہم کیا ہے۔جو شخص اپنی زندگی میں اپنے خاندان کو اوّلیت دیتا ہے ،اپنی فیملی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے وہ شائد اپنے کرئیر میں بہت اوپر نہیں پہنچ سکتا لیکن وہ ایک بہترین شوہر،ایک بہترین باپ ضرور بن سکتا ہے۔ایک عورت جو اپنے کام کو ہفتے کے 80گھنٹے دیتی ہے۔ وہ مالی طور پر مستحکم اور کامیاب ہوگی لیکن شاید وہ دوسرے رشتے نبھانے میں اتنی کامیاب نہ ہو۔ہماری ناکامی ہمیں ایک ہدف پر توجہ مرکوز کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔اس ہدف کو پانے کے لئے ہم اپنی پوری توانائی صرف کر کے اس میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ایک سب سے بڑا اور اہم تحفہ جو ناکامی ہمیں دیتی ہے وہ یہ علم ہے کہ '' ناکامی کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی‘‘۔ ناکامی کبھی بھی زندگی یا اور مواقعوںکا اختتام نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ ہم خود ہی ہار نہ مان لیں یا جب تک ہم خود ناکامی کا انتخاب نہ کر لیں۔ اب انتخاب آپ کا ہے کہ آپ اپنے لئے کیا منتخب کرتے ہیں۔

حکایت سعدیؒ : سلوک

حکایت سعدیؒ : سلوک

بیان کیا جاتا ہے کہ ملکِ شام کے رہنے والے ایک بزرگ، جن کا لقب خدا دوست تھا، آبادی سے نکل کر ایک غار میں آباد ہوگئے تھے۔ اللہ کی یاد کے سوا اب انہیں کسی بات سے غرض نہ تھی اور ان کی یہی بے غرضی ان کی مقبولیت کا سبب بن گئی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کی زیارت کے لیے آتے تھے اور دعاؤں کے تحفے لے کر لوٹ جاتے تھے۔ اس علاقے کا جاگیردار ایک بہت ہی سنگ دل اور ظالم شخص تھا۔ کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہ تھا۔ غریبوں کو ستانا اور رُلانا گویا اس کا خاص مشغلہ تھا۔ خدا جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی بزرگ کی زیارت کے لیے پہنچ گیا۔ بزرگ خدا دوست سب سے مروت اور مہربانی کا برتاؤ کرتے تھے لیکن جب اس ظالم جاگیردار کو اپنے قریب پایا تو نفرت سے منہ پھیر لیا۔ اس ظالم نے بھی یہ بات محسوس کی کہ میرے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ وہ قریب بیٹھ گیا اور شکایت بھری آواز میں کہا، کیا بات ہے جناب نے میری طرف التفات نہیں فرمایا؟ کم از کم میں اس سلوک کا تو مستحق تھا جو جناب دوسروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ بزرگ نے فرمایا، اے شخص! تو حسنِ سلوک کا مستحق کس طرح ٹھہر سکتا ہے؟ تُو خدا کی مخلوق کو ستانے اور پریشان کرنے والا ہے اورہمیں مخلوقِ خدا کی پریشانی سے پریشانی ہے۔ تو ہمارے دوستوں کا دشمن ہے۔ پھر ہمارا دوست کیسے بن سکتا ہے؟ترے ظلم سے دل گرفتہ ہیں لوگبرستا ہے ہر اک کے چہرے سے سوگجنہیں ظلم نے کر دیا سوگوارہمیں ہے انہی بے نواؤں سے پیاررلاتا ہے مخلوق کو اے شقیسمجھ لے یہ خالق سے ہے دشمنیحضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ مخلوقِ خدا کا دشمن دراصل خدا کا دشمن ہے۔ اس لیے خدا کے دوستوں کا فرض ہے کہ مخلوق کے دشمنوں سے بیر رکھیں۔ انسان کو انسان کے کام آنا چاہیے، اسے حسن سلوک کا مظاہرہ کرنا چاہیے لیکن اگر کوئی ظلم کرے تو اس سے نفرت کا اظہار کر کے اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اس میں اختیار اور عہدے کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔   

آج کا دن

آج کا دن

عرب اسرائیل جنگ1967ء میں آج کے روز عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا۔ اس چھ روزہ جنگ کو''جون کی جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ تیسری عرب، اسرائیل جنگ، اسرائیل اور بنیادی طور پر اردن، شام پر مشتمل عرب ریاستوں کے اتحاد کے درمیان 5 سے 10 جون تک جاری رہی۔ اسرائیل اور عرب پڑوسی ریاستوں کے درمیان تعلقات 1949ء کی جنگ بندی کا معاہدہ ختم کے بعد معمول پر نہیں آئے تھے۔ 1956 میں، اسرائیل نے مصر پر حملہ کیا، جس سے سوئز کا بحران پیدا ہوا، اسرائیل کی طرف سے حملے کا مقصد آبنائے تیران کو دوبارہ کھولنے پر مجبور کرنا تھا، جسے مصر نے 1948ء سے تمام اسرائیلی جہاز وںکیلئے بند کر دیا تھا۔پیرس میں بغاوت 5جون1832ء کو پیرس میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا۔ اس بغاوت کو ''پیرس بغاوت‘‘ یا ''جون بغاوت‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بغاوت کا آغاز ریپبلکنز کی طرف سے 1830ء میں لوئس فلپ کی حکومت پلٹنے کی کوشش سے ہوا، 16 مئی 1832ء کو بادشاہ کے طاقتور حامی صدر کونسل کیسمیر پیئر پیریئر کی موت کے فوراً بعد لامارک، ایک مقبول سابق آرمی کمانڈر جو فرانسیسی پارلیمنٹ کے رکن بنے اور بادشاہت پر تنقید کرتے تھے، ہیضے کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ اس کے جنازے کے بعد ہونے والے فسادات نے بغاوت کو جنم دیا۔اس بغاوت پر مختلف کتابیں بھی لکھی گئیں اور ان کتابوں کی مدد سے سٹیج ڈرامے بھی بنائے گئے۔سا گون معاہدہمعاہدہ سا گون پر 5 جون 1862ء کو فرانسیسی سلطنت کے نمائندوں اور ہاؤس آف نگوین کے آخری قبل از نوآبادیاتی شہنشاہ کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔ معاہدے کی شرائط کی بنیاد پر، جزیرے اور تین جنوبی صوبے جنہیں فرانسیسیوں کے حوالے کردیا گیا۔ اس معاہدے کی تصدیق 14 اپریل 1863 کو ''ہوئے ‘‘کے معاہدے سے ہوئی۔اس معاہدے کو تاریخی طورپر اس لئے شہرت حاصل ہوئی کیونکہ معاہدے پر طویل عرصے تک بحث چلتی رہی جس کی تصدیق کیلئے ایک سال بعد ایک اور معاہدہ کیا گیا۔ریو میں زلزلہ5 جون 1888ء کو ریو میں ایک خوفناک زلزلہ آیاجس کی دت5.5تھی۔اس زلزلے نے ریو کے بالائی حصے کو ہِلا کر رکھ دہا۔ زلزلے کا مرکز یوراگوئے کے جنوب مغرب میں 15کلومیٹر اربیونس آئرس سے42 کلو میٹر مشرق میں واقع تھا۔اس کا مرکز 30 کلو میٹر گہراتھا۔زلزلے کی وجہ سے لکڑی کے گھر ہلنے لگے اور عمارتوں میںموجود لوگ خوف کی وجہ سے باہر نکل آئے ۔ اس زلزلے کے نتیجے میں بہت سے گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ زلزلے کے کچھ آفٹر شاکس بھی محسوس کئے گئے جس کی وجہ سے ان عمارتوں کو زیادہ نقصان ہوا جو پہلے جھٹکے کی وجہ سے کمزور ہو چکی تھیں۔