آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ
10 اگست 1945ء کو جاپان کے شکست تسلیم کرنے کے بعد پیسیفک اور مشرقی بعید میں دوسری جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا۔ 1939ء سے 1945ء تک جاری رہنے والی دوسری عالمی جنگ تاریخ کا اب تک کا سب سے مہلک عالمی تنازع تھا، جس کے نتیجے میں 7 سے 8.5 کروڑ ہلاکتیں ہوئیں۔ دنیا کے ممالک کی اکثریت، بشمول تمام عظیم طاقتیں، دو مخالف فوجی اتحاد کے حصے کے طور پر لڑے۔ہوائی جہازوں نے ایک اہم کردار ادا کیا، جن سے آبادی پر بمباری کی گئی اور جنگ میں استعمال ہوئے صرف دو جوہری ہتھیاروں کی ترسیل کو قابل بنایا۔
ترکیہ: پہلی بار عوامی رائے دہی سے صدر کا انتخاب
10 اگست 2014ء کو ترکیہ میں پہلی بار صدر کا انتخاب عوامی رائے دہی کے ذریعے کیا گیا۔ ان انتخابت کے نتیجے میں رجب طیب ایردوان ملک کے 12 ویں صدر بنے۔28اگست کو انہوں نے اپنے منصب کا حلف اٹھایا۔ 26 فروری 1954ء کو پیدا ہونے والے رجب طیب ایردوان ایک ترک سیاست دان، استنبول کے سابق ناظم، جمہوریہ ترکیہ کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ صدر ہیں۔ 28 مئی 2023ء کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں انہیں دوبارہ ترکیہ کا صدر منتخب کیا گیاہے۔
خلائی جہاز''میگیلن ‘‘ کی زہرہ تک رسائی
1990ء میں آج کے روز خلائی جہاز'' میگیلن‘‘کامیابی کے ساتھ زہرہ تک پہنچا۔یہ 1035 کلوگرام وزنی روبوٹک خلائی تحقیقاتی مشن تھا جسے 4 مئی 1989ء کو ناسا کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ اس کے مشن کے مقاصد مصنوعی یپرچر ریڈار کا استعمال کرتے ہوئے زہرہ کی سطح کا نقشہ بنانا اور سیاروں کی کشش ثقل کے میدان کی پیمائش کرنا تھا۔'' میگیلن‘‘ وینس کیلئے ناسا کا پانچواں کامیاب مشن تھا اور اس نے امریکی سیاروں کی تحقیقات کے آغاز میں گیارہ سال کے وقفے کو ختم کیا۔
انگولا ٹرین حملہ
2001ء میں آج کے روز انگولا ٹرین حادثہ رونما ہوا، جب UNITA فورسز نے ایک ٹرین پر حملہ کر کے سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کر دیا۔ انگولا ٹرین حملہ انگولا کی خانہ جنگی کے دوران ایک حملہ تھا جب 10 اگست 2001 کو UNITA فورسز نے Zenza اور Dondo کے قصبوں کے درمیان سفر کرنے والی ایک ٹرین کو اینٹی ٹینک بارودی سرنگ سے پٹڑی سے اتار دیا اور پھر مسافروں پر چھوٹے ہتھیاروں سے حملہ کیا، جس میں 252 افراد ہلاک ہوئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
طنزومزاح: شاعروں کی شاعرانہ خصوصیات

طنزومزاح: شاعروں کی شاعرانہ خصوصیات

شعراء کبھی تعارف کے محتاج نہیں ہوتے تاہم بقول ڈاکٹر اشفاق احمدورک شعرا ''تعارف ‘‘کے سوا دنیا کی ہر چیز کے محتاج ہوتے ہیں ۔ شعراء اپنی زندگی کا کچا چٹھہ ببانگِ دُہل کھول سکتے ہیں ۔ان کے ہاں کردہ تو کیا نا کردہ سر گرمیوں کا بیان بھی خلعتِ فاخرہ سے کم نہیںہوتا۔ شاعرات تک اپنے دل کی بات کھلے بندوں کہہ کر تشت از بام کر دیتی ہیں مگر عملی زندگی میں اپنی ہی کہی یا لکھی ہوئی باتوں کی بھنک بھی نہیں پڑنے دیتیں۔ یہ شاعری کا ہی کمال ہے ورنہ ایسے بد مست اعترافات کے بعد زندگی کرنا کہاں ممکن؟ شعراء نہ صرف اپنے ماضی و حال سے پردے اٹھاتے ہیں بلکہ مستقبل کے منصوبوں کو بھی آشکار کرتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ کہ بے تحاشہ داد بھی وصول کرتے ہیں ۔ یوسفی صاحب لکھتے ہیں ''جس طرح شعر کہا جاتا ہے اسی طرح بنا سمجھے داد بھی دی جاتی ہے۔شعر اصل میں مشاعرے میں سننے سنانے کی چیز نہیںبلکہ تنہائی میں پڑھنے، سننے ، سمجھنے اور سہنے کی چیز ہے ۔کلام کتابی شکل میں ہو تو لوگ شاعر کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ میں کلیات ِ میر سے سینکڑوں اشعار نکال کے دکھا سکتا ہوں جو مشاعرے میں پڑھ دیتے تو عزت ِ سادات اور دستار ہی نہیں،سر بھی سلامت لے کر نہ لوٹتے‘‘۔ ذیل میں شعراء کی چندخصوصیات ملاحظہ کریں۔ دل و جگر سے خون کا اخراج شعراء کے اشعار میں ان کے دل اورجگر سے خون کے بے تحاشہ تخیلاتی اخراج کے انکشافات ہوتے رہتے ہیں ۔شبِ ہجراں و یلدا کی طوالت ختم نہیں ہوتی حتیٰ کہ اندھے شعرا ء کو بھی شبِ دیجور میں دور کی سوجھنے کی لت پڑ جاتی ہے ۔ اہل ادب کی ادب روسٹ رنگ رلیاںاہل ادب کے دلوں میں دیگر ہزاروں تمنائوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی دوروں کی حسرت بھی موجزن رہتی ہے ۔سو سرکاری نظر التفات و شر پرستی کے حصول کی خاطر ہر جائز و ناجائز سر گرمی سے دریغ نہیں کرتے ۔اور دیارِ غیر میں نہ صرف مشاعرہ پڑھنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں بلکہ جملہ منفعتیں بھی سمیٹ لاتے ہیں۔ بیرونی دنیا کی رنگا رنگی سے اپنی بے کیف اور درویشانہ زندگی کی خوب '' دَ ف ‘‘ مارتے ہیں ۔یوں کہئے کہ دن کو رہتی ہے فقیہان ِ ادب سے صحبترات کو شوقِ غزالانِ کلب رکھتے ہیں اپنے وطن سے نو سو چوہوں کا ادھورا ہدف بالآخر دیارِ غیر میں پایہ تکمیل کو پہنچ ہی جاتا ہے ۔ ہجر پسند طبقہ شاعروں کواپنے محبوب سے ملنے کی خواہش محض شاعری کی حد تک ہی ہوتی ہے ۔حقیقت میں یہ ہجر پسند طبقہ ہے ۔بصورتِ وصل یا من مانی شعری ذوق جاتا رہتا ہے۔ علالت مآب ہستیاں جسمانی و فکری مظلومیت کا پیکر ہوتے ہیں ۔دنیا کے تمام مہلک امراض انہیں لاحق رہتے ہیں ۔ محبوب کی بے وفائیوں ،رقیبوں کی بے حیائیوں اور گھر والوں کی لن ترانیوںکے موجب ان کے دل، پھیپھڑے، گردے، جگر اور پتا شدید متاثر رہتے ہیںگویا یہ تا دمِ مرگ امراض ِ دل اور جگر کے عارضوںمیں گھرا ہواطبقہ ہے۔ شعرا ء دنیا و مافیہا کے تمام درد ماسوائے ''دردِ زِہ ‘‘ جھیلتے ہیں ۔جبکہ شاعرات کو اس سے بھی فرار نہیں اور ان کے ہاں یہ درد بھی فطرتاً وکثرتاً پایا جاتا ہے ۔ دسمبرائے ہوئے لوگ شاعر دسمبرائے ہوئے لوگ ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ہاںسردیوں خصوصاً دسمبر پر لکھنا لازم ہے ۔نہ جانے جنوری کو کیوں گھاس نہیں ڈالتے ،لگتا ہے نحیف و بے سکت شعرا ء کے دسمبر میں ہی کام ''بن ‘‘ یا پھر تمام ہوجاتے ہوں گے ۔ ایسے میں کتاب تنہائی کی ساتھی ہے نہ وصل ہجر کا درماں ہے بلکہ رضائی مقصود اور اٹیچ باتھ مطلوب ہے ۔سامعین کی گھات میں رہنا شعراء ہر وقت کسی سامع کی گھات میں رہتے ہیں ۔ نہ ملے تو پذیرائی و رونمائی کے محافل برپا کرتے یا کروالیتے ہیں ۔ ماضی میں شاعروں کے پاس کاپی ہوا کرتی تھی مگر آج اس کی جگہ شاعری سے لدے ہوئے موبائل فون لے چکے ہیں ۔ اہلِ محلہ اور دوست احباب ان کی نظروں سے اوجھل رہنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔ مشاعروں اور تقریبوں کے علاوہ ان کی نظریں احباب کی بیٹھکوں پر بھی ہوتی ہیں۔ مشاعروں میں شعرا ہاتھوں اور آنکھوں سے باقاعدہ داد کی بھیک مانگتے ہیں اور لے کر ہی اٹھتے ہیں۔ شعراء کی حسرت مآ بیاں شعراء کی پوری زندگی حسرتوں میں گزر جاتی ہے اور کبھی بھی مقام ِشکر جچ نہیں پاتا۔ان حسرتوں میں داد و تحسین کی حسرت، تعریفی ایوارڈز،چاندکی چاندنی سے دو گھڑی ملنے کی حسرت،ان گنت محبوبائوں سے ملاقات اور انھیں گل کے روبرو کرنے کی حسرتیں شامل ہیں۔البتہ چند شعراء حسرتوں کو دور جا بسنے کے مشورے بھی دیتے گئے۔ جوش ملیح آبادی ان خوش نصیبوں میں سے تھے جن کی تمام حسرتیں پوری ہوئیں۔کسی نے ان کی تندرستی کا راز پوچھا تو فرمایا،کوئی ٹینشن نہیں ہے، اٹھارہ عشق کیے ، سبھی کامیاب رہے ۔زعمِ نرگسیت شعراء و ادباء بظاہر عاجزی کا پیکر مگر اندر سے فنکارانہ نرگسیت دبائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ علم وفن کے لحاظ سے دوسروں کو عامی سمجھتے ہیں ۔ قدما میں یہ زعم کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ میر تقی میر سے کچھ لوگوں نے اشعار کی فرمائش کی تو فرمایا'' قبلہ میرے اشعار آپ کی سمجھ میں نہیں آنے کے ۔میرے کلام کیلئے فقط محاورہ اہل ِاردو ہے یا جامعہ مسجد کی سیڑھیاں ‘‘ ۔ پیشہ ورانہ رقابت ہر دور ہی ادبی مناقشات،نوک جھونک ،طنز و ہذیان اور چشمک کا دور رہا۔ ملا وجہی و غواصی ، انیس و دبیر ، مصحفی و انشاء ، میر و سودا ، مولانا آزاد و عبدالماجد دریا بادی، گوپی چند نارنگ و شمس الرحمان فاروقی ، حمایت علی شاعر و محسن بھوپالی ، سر سید و اکبر الہ آبادی ، شرر اور چکبست ، انشا و جرات ، ولی و فراقی ، ناسخ و آتش، علامہ اقبالؒ اور علامہ مشرقی، غالب و ذوق ، حالی و شبلی ، احمد ندیم قاسمی و وذیر آغا ، ڈاکٹر سلیم اختر و انور سدید ، ا حمد فراز و افتخار عارف ، منیر نیازی و ظفر اقبال اور بہت سوں نے رسمَِ انتشاری و خلفشاری نبھائی۔ ماضی میںپاک ٹی ہائوس میں تو ایسے ایسے منچلوں کی چلتی رہی کہ ہاتھ تو کیا کرسیاں تک چلیں اور نگاہ پست،سخن دل خراش ،جاں بے سوز ہوئی ۔ ایک وقت میں اہل ادب کے بہت سے گروہوں نے ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کے اپنے اپنے مکاتب بناکر پاک ٹی ہائوس کے محاصرے جاری رکھے۔گویا ادب سے ہی بے ادبی کاجنم ہوا ۔

کامیاب زندگی کے رہنما اصول

کامیاب زندگی کے رہنما اصول

انسان اس دنیا میں آتا ہے تو سیکھنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ لحد تک وہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا کئی اسباق سیکھتا ہے۔ خصوصاً جو اسباق انسان تجربات سے گزر کر سیکھتا ہے وہ ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ تلخ تجربات کئی ایک دفعہ ایسا سبق سکھاتے ہیں کہ انسان اپنی بقیہ زندگی کا رخ بہتر کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، کئی دفعہ یہ تلخ فیصلے انسان کو مزید طاقتور بنا دیتے ہیں اور یہ ہی کامیابی حاصل کرنے کا صحیح وقت ہوتا ہے۔یہاں کامیابی کے بیس اسباق پیش کر رہا ہوں، امید ہے ان اسباق کا مطالعہ کر کے آپ ضرور استفادہ حاصل کریں گے۔ (1) انسان کی طاقت تقویٰ، توکل، یقین اور اُمید ہیں اگر ان کو قائم رکھا تو کبھی ناکامی کا سامنا نہیں ہو گا۔ (2) کئی ایسے کام ہم کر رہے ہوتے ہیں جو ہمیں وقتی طور پر بڑے خوشگوار لگ رہے ہوتے ہیں لیکن در اصل ہم بہت احمقانہ قدم اٹھا رہے ہوتے ہیں، ایسے وقت میں بھی ہماری رہنمائی کیلئے کوئی اشارہ ضرور ملتا ہے، بس اس اشارے کو سمجھ کر اپنا رخ فی الفور تبدیل کر لینا ہے۔ کوئی واضح اشارہ نہ ملا تو انسان کا دل اس کام کو جاری رکھنے یا نا رکھنے کے بارے میں کھٹکتا ضرور ہے۔(3) ہر وقت اپنے کام کو اپنے اوپر سوار نہ کریں، بلکہ تھوڑی دیر کیلئے بھی آپ غوروفکر کے ساتھ اپنے کام پہ فوکس کر لیں۔ تو آپ کی توجہ سے کئی دنوں کا کام کچھ گھنٹوں میں مکمل ہو جائے گا۔ (4) جو آپ کے ذہن میں آ رہا ہے اور آپ کا دل بھی مطمئن ہے وہ شروع کر لیں۔ اگر آپ شروع ہی نہیں کریں گے تو کامیاب کیسے ہو سکتے ہیں؟ (5) کسی بھی موڑ پر آپ ناکامی کا سامنا کرتے ہیں تو یہ آپ کی نا کامی نہیں ہے بلکہ ابتداء ہے پھر شروع کریں اور کسی موڑ پر بھی ہار نہ مانیں۔ ہار نہ ماننے والی طاقت ہی آپ کی کامیابی کی کنجی ہے۔ (6) اپنے اندر کسی چیز کا خوف نہ آنے دیں، خوف کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ (7) سوچ کو ہر آنے والی سانس کے ساتھ وسیع کریں محدود سوچ انسان کو بھی محدود کر دیتی ہے۔ (8) وسیع سوچ کے ساتھ مطالعہ، سفر اور دیگر امور میں ہمیشہ اپنے ماہر استاتذہ سے رہنمائی لے کر چلیں، نہیں تو بھٹکنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اور بھٹکتے ہی آپ ناکامی میں ڈوب جائیں گے۔ (9) کسی شخص کے بارے میں بھی اپنے دماغ میں بد گمانی نہ آنے دیں۔ ہمیشہ اچھے گمان کے ساتھ اگلا قدم اٹھائیں۔ (10) آپ جتنا مرضی ہے دنیوی سطح پر بُلند مقام حاصل کر لیں لوگوں کو آپ کے غائب ہو جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لیے ہمیشہ اپنا مقام اپنی منزل کا تعین کر کے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کی منزل کیا ہے؟ آپ نے کہاں پہنچنا ہے؟ یہ طے کر کے محنت شروع کریں۔ (11) اپنے ساتھ ملنے والے ہر شخص کو دل سے خوش آمدید کہیں، دل سے شکریہ ادا کریں، اگر آپ کسی کی مدد کر سکتے ہیں تو دیر نہ کریں۔ مدد آپ دوسرے شخص کی کریں گے لیکن درحقیقت اس وقت آپ اپنی مدد کر کے ایک ایسے بلند مقام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جو آپ کیلئے ہمیشہ کامیابی و کامرانی کے دروازے کھولے گا۔ (12) میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز، خصوصاً سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا کے رنگینیوں کی ایک مٹی کے ذرّے کے برابر بھی اہمیت نہیں، اس بات کا اندازہ لگانا تھوڑا سا مشکل ضرور ہے لیکن زندگی کے کسی موڑ میں یا زندگی کی آخری سانسوں میں اس کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے۔ (13) انسان کے چہرے کی روشنی اور اس کی اہمیت بھی تب ہی رہے گی، جب وہ اپنے مالک کی رضا کیلئے ہر کام کا آغاز اور عزم کرے گا۔ نہیں تو یہ چہرے اور زندگی کی روشنی بھی موت کے ساتھ ہی قبر کی لحد میں چلی جائے گی۔ (14) لوگ آپ کی شخصیت سے مختلف اوقات میں عیب نکالتے ہیں، اب اس میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ عیب نکال کر محفل میں آپ کے کسی بھی عیب کو اچھالنے والا دوست نہیں ہو سکتا، جبکہ الگ بٹھا کر عیب کی نشاندہی کرنے والا شخص آپ کا حقیقی دوست ہو سکتا ہے۔ دونوں صورتوں میں آپ نے بحث مباحثہ کرنے کی بجائے اپنی غلطی کو درست کرنا ہے یہ ہی کامیابی کا وقت ہے۔(15) لوگوں سے امیدیں وابستہ نہ کریں، مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ فلاں شخص آپ کا کوئی کام کروا سکتا ہے تو یہ کوشش ضرور کریں۔ اگر کسی کے توسط سے کوئی کام ہو جائے تو اس شخص کا شکریہ ادا کریں۔ اس کیلئے دل سے دعا کریں۔ (16) اپنے راز کسی سے بھی شئیر نہ کریں، اپنا راز صرف اس ذات سے شئیر کریں جو آپ کے تمام رازوں کو جانتا ہے۔ (17) کسی بھی موڑ پہ آپ کی حوصلہ شکنی کرنے والے افراد کا ہجوم آپ کو نظر آئے گا جبکہ حوصلہ افزائی کرنے والے چند افراد ہی ملیں گے۔ حوصلہ شکنی کرنے والوں کی طرف دیکھ کر مسکرائیں اور آگے بڑھیں۔ حوصلہ افزائی کرنے والوں کی دل سے قدر کریں۔ اُن سے ہاتھ ملائیں اور اُنہیں اپنا حقیقی دوست سمجھیں۔ (18) جو دوست آپ کے ساتھ ہمیشہ اچھے اخلاق سے پیش آئیں، ان کی قدر کریں، محافل میں عزت و تکریم سے پیش آئیں۔ جو مشکلات میں آپ کے ساتھ کھڑے رہیں، آپ کے کسی بھی مشکل کام کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر آپ کی مدد کریں، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کیلئے تحائف ہیں ان کی دل سے قدر کریں۔ اللہ کریم سے جب بھی مانگیں، ان دوستوں کیلئے بھی ضرور مانگیں۔ ان کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ کیلئے شامل کر لیں۔ (19) زندگی کبھی خواہشات کے مطابق مت ڈھالیں، ضروریات کے مطابق اسے ڈیزائن کریں۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ کسی انسان کی تمام خواہشات آج تک پوری نہیں ہو سکیں۔ (20) زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ''شکر ادا کرنا‘‘ ہے۔ آپ ہمیشہ اس راز کو استعمال میں لاتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ ہمیشہ اپنے سے کم حیثیت والے افراد کو دیکھ کر اپنی روح کو شکر گزاری کے احساس کے ساتھ سرشار رکھیں۔ آپ ہمیشہ خوش و خرم رہیں گے۔  

آج کا دن

آج کا دن

برٹش ائیر ویزحادثہ10 ستمبر 1976ء کو برٹش ایئرویز کی ''پرواز 476‘‘ لندن سے استنبول جاتے ہوئے یوگوسلاویہ (کروشیا)کے قریب ہوا میں ایک اور پرواز اینڈریا سے ٹکرا گئی۔ یہ تصادم زگریب ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی جانب سے طریقہ کار کی غلطی کا نتیجہ تھا۔دونوں طیاروں میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے، یہ اس وقت تک دنیا کا سب سے مہلک دوران پرواز فضا میں ہونے والا تصادم تھا اور یوگوسلاویہ کا یہ آج تک کا سب سے خطرناک حادثہ ہے۔تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کے ائیر ٹریفک کنٹرول کی جانب سے جہازوں کو درست معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں جس کی وجہ سے دونوں جہاز آپس میں ٹکرا گئے۔ایری جھیل کی جنگایری جھیل کی جنگ جسے پٹ ان کی جنگ بھی کہا جاتا ہے۔یہ جنگ10ستمبر1813ء کو اوہائیو کے کنارے ایری جھیل پر لڑی گئی۔امریکی دستے نے رائل نیوی کو شکست دی اور اُس کے چھ دستے بھی گرفتار کر لئے اور ایری جھیل پر ان کی جانب سے قبضہ کر لیا گیا۔اس جنگ کے نتیجے میںامریکیوں کو ڈیٹرائٹ کی بازیابی اور ٹیمز کی جنگ جیتنے کیلئے ہندوستانی کنفیڈریشن آف ٹیکومسی کو توڑنے کا موقع ملا۔ یہ 1812ء کی جنگ کی سب سے بڑی بحری لڑائیوں میں سے ایک تھی۔جنگ کے آغاز میں بھی برطانیہ نے ایری جھیل کا کنٹرول سنبھال لیا تھا لیکن وہ اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے اور جنگ کے اختتام تک امریکہ اس جھیل پر قابض ہو گیا۔لیٹیمر قتل عامہیزلٹن،پنسلوینیا،ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب لیٹیمر کان میں کم از کم 19مسلح ہڑتال کرنے والے تاریکین وطن اینتھر اسائیٹ کان کنوں کو پر تشدد طریقے سے قتل کیا گیا ۔یہ واقع10ستمبر1897ء کو پیش آیا، زیادہ تر پولش، سلوواک، لتھوانیائی اور جرمن نسل سے تعلق رکھنے والے تھے ان سب کوگولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کے دوران بہت سے کارکن زخمی بھی ہوئے۔اس دور میں دنیا یورپ میں بہت بڑے پیمانے پر صنعتکاری کی جارہی تھی، اسی وجہ سے دنیا بھر سے لوگ روزگار کی تلاش میں یورپ کا رخ کر رہے تھے۔آپریشن باراس''آپریشن باراس‘‘10ستمبر2000ء کو سیرالیون کی خانہ جنگی کے آخری مراحل کے دوران ہونے والا ایک آپریشن تھا۔ اس آپریشن کا مقصد رائل آئرش رجمنٹ کے پانچ برطانوی فوجیوں اور ان کے سیرا لیون آرمی کے رابطہ افسران کو آزاد کروانا تھا جنہیں ویسٹ سائیڈ بوائز نامی ایک ملیشیا گروہ کی جانب سے حراست میںر کھا گیا تھا۔ فوجی ایک گشت کا حصہ تھے جو 25 اگست 2000ء کو مسیاکا میں سیرا لیون میں اقوام متحدہ کے مشن سے منسلک اردنی امن فوجیوں کے دورے سے واپس آ رہے تھے جب ملیشیا گروہ نے مرکزی سڑک بند کر دی ۔فوجی دستہ باغیوں کی بڑی تعداد کے سامنے کچھ نہ کر سکا اور انہیں باغیوں کی جانب سے گرفتار کر لیا گیا۔ 

موسمیاتی تبدیلیاں ایک عالمی مسئلہ:زمین کو آگ کا گولہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟

موسمیاتی تبدیلیاں ایک عالمی مسئلہ:زمین کو آگ کا گولہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟

آج کی دنیا میں اور بے شمار مسائل نسل انسانی کو درپیش ہوں گے مگر ان سب میں میری نظر میں سب سے بڑا مسئلہ جو آج پوری نسل انسانی کے سامنے کھڑا ہے اور جو ہمارے ساتھ ساتھ اس کرہ زمین کی بقا سے بھی وابستہ ہے، وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے بعد پیدا ہونے والا عالمی مسئلہ ہے۔ عالمی حدت کے مسلسل اضافے کے بعد پیدا ہونے والی ناقابل یقین حد تک خطرناک صورتحال جس کا آج کے تمام ممالک اور ان میں بسنے والے انسانوں کو بلا رنگ و ملت کی تفریق کا سامنا ہے۔ ایک انتہائی اہم معاملہ ہے، جس پر جتنی بھی بات کی جائے کم ہے۔موجودہ دور میں بنی نوع انسان اپنی بقا کے حوالے سے مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر پیش آنے والے سب سے اہم مسئلے یعنی موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہے۔ موسمیاتی تبدیلی دراصل آب و ہوا کے قدرتی نظام میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نام ہے جس کی بڑی وجہ انسانی طور طریقوں، معمولات، استعمالات اور خواہشات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ہے۔ قدرتی وسائل مثلاً پانی، خوراک، لکڑی، اور زمین کا بے تحاشا اور بلاضرورت استعمال اور ان کے ضیاع جیسے مسائل اس مسئلے کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا معاملہ بنیادی طور پر عالمی درجہ حرارت میں تبدیلی سے منسلک ہے؛ جس کی چند بنیادی وجوہات میں درجہ حرارت بڑھانے میں معاون گیسز مثلاً کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین کا بڑے پیمانے پر اخراج اور جنگلات کے رقبے میں نمایاں کمی ہونا سرفہرست ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے آج کا انسان وقتی طور پر نظریں چرا تو سکتا ہے اور گزشتہ ایک صدی میں مسلسل چراتا بھی رہا، مگر اب اس خطرے سے مستقل جان چھڑانا دنیا کے کسی بھی امیر اور غریب ملک اور اس کے باسیوں کیلئے کسی طور بھی ممکن نہیں۔ اگر آج کا انسان دور اندیشی کا مظاہرہ کرے اور اس مسئلے کی سنگینی کا باریک بینی سے صحیح اور درست اندازہ لگانے کے قابل ہو تو ہمیں صاف دکھائی دے گا کہ کرہ ارض کی موجودہ صورتحال روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ آج ہمیں درپیش تمام مسائل اسی ایک مسئلے کے ساتھ جڑے نظر آتے ہیں۔ دنیا میں کوئی بھی وبا کے اچانک پھوٹ پڑنے تک کے تانے بانے بھی براہ راست نہ سہی، کہیں نہ کہیں اسی موسمی تبدیلیوں کے مسئلے کے ساتھ ہی جڑے ہیں۔ ممالک کی آپس کی تجارتی جنگیں ہوں یا علاقائی چپقلشیں، بھوک، خوراک کی کمی، روزگار، توانائی کے بحران ہوں یا اقتصادی یا شدت پسندی سے نمٹنے کا مسئلہ، کہیں نہ کہیں یہ تمام بحران اس اہم مسئلے کے ساتھ جڑے ہیں۔ اس مسئلے کو شاید اس مثال سے کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔کچھ دیر اگر ہم اپنے اس چھوٹے گول سیارے جسے ہم آپ دنیا یا کرہ ارض بھی کہتے ہیں کی مثال ایک ایسے کرائے کے چھوٹے گھر جیسی لیں جہاں کرائے دار آتے اور جاتے رہتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں گھر کے رہائشی گھر کی صفائی ستھرائی ٹھیک طریقے سے نہ کریں تو گھر میں جا بجا جالے لگ سکتے ہیں، کھڑکیاں گرد سے اٹ کر میلی ہو سکتی ہیں، کبھی کبھار اتنی کہ بسا اوقات باہر نظر آنا ہی بند ہو جاتا ہے۔ کرائے دار اگر گھر میں سامان زیادہ گھسا لیں تو گھر رہنے کیلئے چھوٹا پڑ جاتا ہے۔ رہنے والوں کی تعداد کمروں سے بڑھ جائے تو گھر میں ہر قسم کی سہولت کی گنجائش کم پڑ سکتی ہے۔ ظاہر ہے سب گھر کو استعمال کرنے والے کرائے دار پر منحصر ہے کہ وہ گھر کو سلیقے سے استعمال کرتا ہے یا نہیں۔ اگر کرائے دار گھر میں سگریٹ پھونکتا ہے تو ممکن ہے درو دیوار اتنے پیلے پڑ جائیں کہ نیا وال پیپر ڈالنا پڑے۔اس صورتحال میں یا تو ایسا حل نکالا جائے کہ کچھ عرصہ سگریٹ پر ہی پابندی لگائی جائے یا دھویں کا مناسب سدباب کیا جائے تاکہ گھر کی اندرونی آب و ہوا صاف اور ترو تازہ رہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک صدی میں دنیا کا بڑا حصہ کاٹھ کباڑ چیزوں سے بھر گیا۔ سمندر کوڑے دان بنتے چلے گئے، کنکریٹ کے جنگل بڑھتے چلے گئے، دریا سوکھتے چلے گئے، اصل جنگل کٹتے کٹتے بیابان میدان بنتے چلے گئے۔آج ہم نے دیکھا جب وبائوں نے بغیر کسی رنگ، نسل اور امیر غریب ملک کی تمیز کے انسانوں کو سینوں سے پکڑ کر جھنجوڑنا شروع کیا تو آج کے انسان کی عقل ذرا ٹھکانے لگی اور اس چھوٹے سے سیارے کے باسیوں کے چودہ طبق بھی روشن ہوئے اور انسان گہری نیند سے ذرا جاگے۔ آج گزشتہ دو صدیوں کی تاریخ انسانی میں پہلی بار سب ممالک سر جوڑے اس خطرے کو سنجیدگی سے دیکھنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔آج ہم دیکھتے ہیں دنیا بھر میں نئے قوانین بنائے جا رہے ہیں، جنگلات کو کاٹنے کی بجائے جنگلات لگانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ میں جس ملک میں رہائش پذیر ہوں وہاں کی موٹر کار بنانے کی کمپنیز نے گاڑیوں میں پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم درجہ پر کرنے کی شروعات کر دی ہے۔ پلاسٹک بیگ کے استعمال کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ ہر نئی چیز کو بنانے سے پہلے اس کو ری سائیکل کیسے کیا جائے گا، اس پر پہلے سے زیادہ توجہ کی جا رہی ہے۔ فوسل تیل سے چلنے والی گاڑیاں مکمل ختم کرکے موٹر کار کمپنیاں اگلے دس سال میں صرف ریچارج ایبل بیٹری سے چلنے والی گاڑیوں کے ہدف کو حاصل کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ ہر نئے گھر کی بجلی صرف سولرپینل کے ذریعے حاصل کی جائے گی۔ کچھ دور اندیش یورپی ممالک تو ان تمام اہداف کو کامیابی سے حاصل بھی کر چکے مگر اب بھی بہت سے ایسے انسان ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو وقتی فائدے کیلئے ان تمام مثبت تبدیلیوں کو وقت کا ضیاع سمجھ کر کرہ زمین کو باقی نظامِ شمسی کے سیاروں کی طرح دوزخ بنانے کی طرف لے جانے کی ضد کا شکار ہیں۔

جزائر ہوائی:بحرالکاہل کی جنت

جزائر ہوائی:بحرالکاہل کی جنت

جس طرح کسی مہتابی جھیل میں کنول کے پھول تیرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں، بالکل اسی طرح بحراکاہل میں بکھرے ہوئے ہوائی کے جزیرے بھلے لگتے ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرالکاہل میں ہوائی کے جزیرے ایک بڑے صحرا میں نخلستان کی مانند ہیں۔ امریکہ کے مغربی ساحل سے لے کر چین، جاپان اور روس کی بندرگاہ ولاڈی واسٹک تک بحرالکاہل پھیلا ہوا ہے اور اس کے تقریباً وسط میں ہوائی کے جزیروں کا وجود قدرت کا ایک حسین شاہکار ہے۔ ان جزائر کی خوبصورتی کی وجہ سے ہوائی کو بحرالکاہل کی ملکہ (Queen of Pacifie)اور بحرالکاہل کی ''جنت‘‘ (Paradise fo Pacifie)جیسے خوبصورت ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ہوائی کے جزیروں کی کل تعداد 132ہے لیکن ان میں صرف 8جزائر ایسے ہیں جن کو بڑے جزیرے کہا جاتا ہے۔ باقی سوا سو کے قریب جزیرے صرف نام کے ہی جزیرے ہیں، ان پر آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے عملاً ہوائی کی ریاست ان آٹھ جزیروں پر ہی مشتمل ہے۔دنیا کا سب سے بڑا سمندر بحرالکاہل جو کہ جنوب میں نیوزی لینڈ سے لے کر شمال میں آبنائے بیرنگ تک اور کیلیفورنیا سے لے کر چین، جاپان اور روس کے ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہی وہ سمندر ہے جس کی گہرائی (36400فٹ) دنیا کے سب سے بڑے پہاڑ کوہ ہمالیہ کی چوٹی مائونٹ ایورسٹ (29028فٹ) سے بھی زیادہ ہے اور یہی وہ سمندر ہے جس کے پیٹ میں ہزاروں آتش فشاں چھپے ہوئے ہیں۔ یہی آتش فشاں جب پھٹتے ہیں تو کئی طرح کے سونامی جنم لیتے ہیں۔ حقیقت میں جزائر ہوائی بھی آتش فشانوں کی ہی پیداوار ہیں۔ خطۂ جاپان سے لے کر ہوائی تک کا علاقہ آتش فشاں پہاڑوں کی آماجگاہ ہے۔ ہوائی کے جزیروں پر اور ان کے ارد گرد سیکڑوں آتش فشاں موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا آتش فشاں پہاڑ جس کی بلندی 13679فٹ ہے، ہوائی ہی میں سرتانے کھڑا ہے۔ اسی مناسبت سے کسی شاعر کا ایک شعر یاد آ گیا جو جزائر ہوائی پر صادق آتا ہے۔ہزاروں خار دامن میں چھپے رہتے ہیں غنچوں کےبظاہر دیکھنے میں ہر کلی معصوم ہوتی ہےکچھ ایسی ہی صورتحال جزائر ہوائی اور اس کے قریب و جوار کی ہے۔ دراصل بحرالکاہل کے اندر آتش فشانوں کا ایک جہاں آباد ہے۔ریاست ہوائی امریکہ کی پچاسویں اور جونیئر ترین ریاست ہے۔ اس لئے اس کو کمسن ریاست بھی کہا جاتا ہے۔ ہوائی کو 21اگست 1959ء میں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ اس سے قبل 60سال ہوائی امریکہ کی مقبوضہ کالونی رہی۔ ایک عرصہ سے ہوائی پر بادشاہوں کی حکومت رہی۔ 1810ء سے لے کر 1893ء تک ہوائی میں تجارت کی غرض سے آئے ہوئے امریکیوں اور یورپی تاجروں نے شاہی حکمران کے خلاف سازش کرکے اسے تخت سے محروم کر دیا۔1894ء سے لے کر 1898ء تک ہوائی ایک آزاد جمہوریہ رہی۔1898ء میں ہوائی کے جزائر امریکہ کے مقبوضات رہے اور 60 سال تک امریکہ نے ہوائی کو اپنی کالونی بنائے رکھا۔ امریکہ نے یہاں پر کاروباری سرگرمیوں کے علاوہ یہاں کی دفاعی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہوائی میں دفاعی تنصیبات اور فوج بھی تعینات کردی۔ہوائی کی ریاست کا کل رقبہ 642مربع میل اور 2010ء کے اعداد و شمار کے مطابق آبادی 136030 نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کا دارالخلافہ ہونولولو ہے جو جزیرہ اور آہو پر واقع ہے۔ ہوائی کے آٹھ جزائر میں سب سے بڑا جزیرہ ہوائی ہے جس کو Big Islandبڑا جزیرہ کہتے ہیں اور یہی وہ جزیرہ ہے جس پر زیادہ آتش فشاں پائے جاتے ہیں۔جزیرہ OAHU جزیرہ ہوائی سے رقبہ کے لحاظ سے چھوٹا لیکن آبادی سب جزیروں سے زیادہ (تقریباً دو تہائی) ہے۔ بڑی بندرگاہ پرل ہاربر اور بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی اسی جزیرہ پر موجود ہے۔انفرادیت:ریاست ہوائی چند خصوصیات کی وجہ سے امریکہ کی باقی ریاستوں سے ممتاز اور انفرادی حیثیت کی حامل ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔(1)ہوائی امریکہ کی واحد ریاست ہے جو شمالی امریکہ میں نہیں بلکہ امریکہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔(2)ہوائی میں امریکہ کی دوسری ریاستوں کی طرح ''ڈے لائٹ سیونگ ٹائم‘‘ مستعمل نہیں ہے۔ (3) ریاست ہوائی میں دو زبانوں انگریزی اور ہوائی کو سرکاری زبانیں تسلیم کیا گیا ہے۔(4)یہ امریکہ کی واحد ریاست ہے جو جزائر پر مشتمل ہے۔ (5) ہوائی کی سرحدیں کسی دوسرے ملک بلکہ اپنے ملک کی بھی کسی ریاست سے نہیں ملتیں۔(6)آتش فشانوں کے لاوا اگلنے کی وجہ سے اس کا رقبہ بڑھتا رہتا ہے۔(7)ہوائی زبان کے صرف 12حروف تہجی ہیں۔محل و قوع:ہوائی کی ریاست امریکہ کے مغربی ساحلی شہر سان فرانسسکو سے 2397میل، مغربی میں جاپان سے 3850 میل، چین کے ساحل سے 4900میل، فلپائن کے شہر منیلا سے 5293میل اور جنوب میں خط استوا سے 1800میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ ہوائی خط سرطان پر واقع ہے۔ ہوائی کے چھوٹے بڑے 132جزیرے ہیں جو کہ جنوبی اور سب سے بڑے جزیرے ہوائی سے شمالی مغرب کی جانب ایک قوس کی شکل میں 1522میل کی لمبائی میں پھیلے ہوئے ہیں۔نک نیم :اس ریاست کے کئی نک نیم ہیں جو درج ذیل ہیں:الوہاسٹیٹ: الوہا Alohaہوائی زبان میں ہیلو کو کہتے ہیں اور یہ لفظ اس ریاست میں آنے والوں کیلئے خوش آمدید کے طور پر بولا جاتا ہے۔ یہ نک نیم سرکاری طور پر اس وقت رکھا گیا جب ہوائی کو 1959ء میں ریاست کا درجہ دیا گیا۔ ہونولولو کی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے ٹاور کے اوپر بھی Aloha موٹے حروف میں لکھا ہوا ہے۔بحرالکاہل کی جنت:ہوائی کو Paradise of Pacific اس کے خوبصورت محل وقوع کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ سیاح تو اس کو بحرالکاہل کی ملکہ Queen of Pacificکے نام سے بھی پکارتے ہیں۔پائن ایپل سٹیٹ:کیونکہ اس ریاست میں بہت زیادہ مقدار میں انناس پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے اس ریاست کو پائن ایپل سٹیٹ بھی کہتے ہیں اور دنیا کا 25فیصد اننا اس ریاست سے برآمد کیا جاتا ہے۔رینبو( Rainbow) سٹیٹ:وہ اس وجہ سے کہ اس ریاست کے جزائر قوس قزح کی طرف ایک قوس کی شکل میں پھیلے ہوئے ہیں۔کمسن ریاست:ہوائی کی ریاست امریکہ کی 50 ریاستوں میں سب سے آخر میں وفاق میں شامل ہوئی تھی۔ اس لئے اس ریاست کو کمسن ریاست کہا جاتا ہے۔سینڈوچ آئی لینڈ:برطانوی جہاز راں کیپٹن جیمز کک 1778ء میں ہوائی کے جزائر میں لنگر انداز ہوا تو اس نے ان جزائر کو سینڈوچ آئی لینڈ کا نام دیا۔ دراصل کیپٹن جیمز کک کو مالی مدد دینے والا برطانیہ کا ایک سیاستدان اور حکومت کا اہم رکن تھا۔ اس سفر کے تمام خراجات اسی نے برداشت کئے تھے۔ اس لئے جیمز کک نے ہوائی کے جزائر کی دریافت کو اپنے Spensorکے نام پر سینڈوچ کے نام سے منسوب کیا۔مشہور امریکی مصنف مارک ٹوئن نے ہوائی کے جزائر کو دیکھ کر ان الفاظ میں تبصرہ کیا: "Hawaii is the Lovliest fleet of Islands, that lies anchored in any ocean" یعنی( ہوائی کے) جزائر خوبصورت جہازوں کے بیڑے کی مانند ایک خاص ترتیب سے کسی سمندر میں لنگر انداز ہیں۔ ہوائی کے جزائر کیونکہ براعظم امریکہ اور براعظم ایشیاء کے درمیان واقع ہیں اس لئے ان دونوں براعظموں کے کلچر کا حسین امتزاج ہوائی کے جزائر میں پایا جاتا ہے۔

اکبری دربار کے گویے

اکبری دربار کے گویے

اکبر کے دربار میں جتنے گویے اور سازندے تھے، ان میں اکثریت گوالیار والوں کی تھی، جو راجہ مان سنگھ گوالیاری کی وجہ سے موسیقی کا بڑا مرکز تھا۔ ابوالفضل نے آئین اکبری میں اکبر کے درباری ماہرین فن کے حسب ذیل نام لکھے ہیں۔تان سین گوالیاری،باز بہادر مالوی،رامداس گوالیاری،سبحان خاں، ہرگیان خان گوالیاری،میان چند گوالیاری،بچتر خاں گوالیاری،محمد خان ڈھاری،سلطان حافظ حسین مشہدی، دائود ڈھاری، سرود خاں گوالیاری،میاں لال گوالیاری،تان ترنگ خاں،ملا اسحاق ڈھاری،سورداس گوالیاری،چاند خاں،رنگ سین اگرئی،رحمت اللہ،حافظ خواجہ علی مشہدی،پیرزادہ خراسانی،نائک چرجوگوالیاری۔تان سین: ان میں انمول ہیرا تان سین تھے،جس نے حضرت غوث ؒ گوالیاری کے سایہ عاطفت میں پرورش پائی''خزینۃ الاصفیا‘‘ کے مصنف کا بیان ہے کہ حضرت غوث نے اس کو اپنا خلیفہ بھی بنایا تھا۔ موسیقی کی تعلیم راجہ مان سنگھ کے قائم کردہ گانودیالیہ میں پائی، جہاں بڑے بڑے ارباب کمال جمع ہو گئے تھے۔ نائک بخشو کا اس وقت انتقال ہو چکا تھا، اس لئے تان سین کو بخشو سے فیض حاصل نہ کرنے کا قلق رہا لیکن کہا جاتا ہے کہ بخشو نے اپنے سینہ کی ساری دولت اپنی لڑکی کو دے دی تھی، اس لئے تان سین نے اسی سے کسب فیض کیا۔ پھر بندر ابن پہنچ کر باباہری داس سے بھی تربیت حاصل کی اور جب کمال حاصل کر لیا تو راجہ چندر بھتہ(ریواں) کے یہاں آکر ملازمت کی۔ اکبر نے اس کی شہرت سنی تو اس کو اپنے یہاں مدعو کیا اور جس روز وہ دربار میں آیا اسی روز اس کو دو کروڑ دام یعنی دو لاکھ روپے کے انعام سے نوازا۔ اکبر خود موسیقی کا ماہر تھا، اس لئے تان سین کی بڑی قدر کرتا رہا۔ وہ تان سین کے ساتھ اس کے استاد بابا ہری داس کے پاس جاتا جو اپنے عہد کے سب سے بڑے استاد اور بھگت سمجھے جاتے تھے۔ تان سین جب کوئی چیز ہری داس کے سامنے گاتا تو اکبر اس کو غلط طریقہ پر گانے کیلئے اشارہ کرتا تو اس وقت تان سین کو ہری داس ٹوکتے اور خود گا کر بتانے لگتے جس کو سن کر اکبر محظوظ ہوتا۔ تان سین نے دھرپدکے مشکل راگ کو آسان بنا کر سو بہار ایجاد کیا۔''راگ درپن‘‘ میں ہے کہ اس نے ملہار اور کانہڑا، کلیاں اساوری اور دیوکندھار اور پھر کانہڑا کو درباری کانہڑا اور کلیان سے ملا کر راگنیاں پیدا کیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کی موسیقی کو جو عروج حاصل ہوا وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک زریں باب ہے۔ مشہور ہے کہ وہ جنگل میں گاتا تو چرندے اور درندے مست ہو جاتے، یا دریا کے کنارے راگ چھیڑ دیتا تو پانی سے شعلے نکلنے لگتے۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں لکھا ہے کہ تان سین جیسا گانے والا ہزار برس میں بھی پیدا نہ ہو سکا۔ ''اقبال نامہ جہاں گیری‘‘ میں لکھا ہے کہ تان سین کے ہزاروں گیت ابھی تک رائج ہیں، جن میں بہت سے اکبر کے نام پر ہیں۔تان سین نے 997ھ(مطابق1589ء) میں وفات پائی، اکبر نے اس کی وفات پر کہا کہ اب دنیا سے نغمہ سرائی ختم ہو گئی۔ گوالیار میں اس کا مزار حضرت غوث گوالیاریؒ کے مقبرہ میں ہے، اس کے مزار پر نیم کا ایک درخت ہے جس کے بارہ میں مشہور ہے کہ گانے والے اس کی پتیاں کھا لیتے ہیں تو ان کی آواز پہلے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ تان سین کے تین بیٹے بلاس خان، صورت سین اور تان ترنگ خاں تھے۔ ان تینوں نے موسیقی وراثت میں پائی۔ اکبری دربار کے مذکورہ بالا گویوں کی فہرست میں تان ترنگ خاں کا بھی نام ہے ۔باز بہادر: اکبری دربار کا دوسرا ماہر فن سلطان باز بہادر تھا، وہ مالوہ کا حکمراں تھا لیکن مالوہ پر اکبر کی لشکر کشی کے بعد شاہی دربار سے وابستہ ہو گیا۔ ابو الفضل نے آئین اکبری میں لکھا ہے کہ گانے میں اس کی مثال نہ تھی، اس کے گانے کی طرز باز خانی کے نام سے مشہور ہوئی۔وہ سازو آہنگ دونوں کا ماہر تھا۔