کچھوے: روئے زمین کی قدیم ترین مخلوق

کچھوے: روئے زمین کی قدیم ترین مخلوق

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


جنگلی حیات کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم '' انٹرنیشنل کنزرویشن آف نیچر ‘‘ (IUCN ) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھووں کی 300اقسام میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کچھووں کی نسل ''بلیک پانڈ‘‘کی معدومیت بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے WWF نے بھی اس طرف حکومتی توجہ مبذول کرائی ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کچھوے اس روئے زمین پر لگ بھگ 21 کروڑ سال پہلے وجود میں آئے تھے۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ کچھوے ڈائنو سا ر کے ہم عصر تھے۔ ان کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے ، ویسے تو عام طور پر ان کی عمر 30 سے 50 سال ہے لیکن بعض اوقات 100سالہ کچھوے بھی پائے گئے ہیں۔ اب تک تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحرالکاہل کے جزیرہ ٹونگا میں پایا گیا تھا ، جس کی عمر 188 سال تھی۔
پاکستان میں کچھووں کی مجموعی طور پر 11 اقسام پائی جاتی ہیں۔جن میں آٹھ میٹھے یا تازہ پانیوں اور تین سمندری ( نمکین )پانی میں پائی جاتی ہیں۔میٹھے پانی کا کچھوا دریائے سندھ ، اس سے منسلک دریاوں ، ندی نالوں ، چشموں اور تالابوں میں پایا جاتا ہے۔یہ گھاس سے لے کر سمندری مخلوق حتی کہ مردہ آبی مخلوق بھی کھا لیتے ہیں۔ آبی ماہرین علوم کہتے ہیں کچھوے، گدھ کی طرح '' فطرت کے خاکروب‘‘ ہوتے ہیں کیونکہ یہ مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
سمندری کچھوے سائز میں بھاری بھر کم ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی نسل ''کیمپس رڈلی‘‘جو تقریباً 70 سنٹی میٹر لمبا ہے اس کا وزن 40کلوگرام تک دیکھا گیا ہے جبکہ ''لیدر بیگ‘‘ نسل کچھوا 180 سنٹی میٹر لمبا اور 500 کلوگرام کے قریب اس وزن ہے۔ آج تک سب سے بڑے لیدر بیگ کا ریکارڈ 2.5 میٹر لمبائی اور 900 کلوگرام وزن کا ہے۔
بلیک پانڈ کچھوے۔۔قیمتی کیوں ؟
کچھووں کی یہ نسل تازہ پانی کی نسل ہے جو عموماً بارشوں ، دریاوں ، ندی نالوں یا نہروں میں پائے جاتے ہیں۔عام طور پر جب بارشوں کے بعد دریاوں یا نہروں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو بننے والے چھوٹے تالابوں یا گڑھوں میں کچھوے رہ جاتے ہیں جو عام طور پر کالے رنگ کے ہوتے ہیں اس وجہ سے انہیں '' بلیک پانڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں کچھووں، بالخصوص بلیک پانڈ کی بہت مانگ ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض اقسام کی قیمت فی کچھوا 1500ڈالر(تقریباً 4 لاکھ روپے) کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ویسے تو اس نسل کے کچھووں کی درآمد پر پابندی ہے جس کی وجہ سے یہ جنوبی کوریا، سنگاپور، ویتنام، ہانگ کانگ ، انڈونیشیا، نیپال غیر قانونی طور پر سمگل ہو جاتے ہیں۔چین کچھووں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں یہ بیش قیمت ادویات میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی بڑھتی طلب کا ایک سبب یورپ، امریکہ اور چین کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کا بطور پالتو جانور بڑھتا رجحان بھی ہے۔
ماحول دوست جانور
کچھووں کی موجودگی سمندروں، دریائوں، نہروں، جھیلوں اور تالابوں کے پانی کو صحت کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ کچھوے اس کرہ ارض پر فطرت کی ''فوڈ چین‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔یہ آبی ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے میں لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔کچھوے پانی کے اندر مضر صحت اشیاء اور جراثیموں کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریوں کا باعث بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ کچھووں کی اس خصوصیت کی وجہ سے انہیں چاول کی کھڑی فصلوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے ، جب فصلوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ پانی میں موجود فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر فصلوں کو ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں۔
سمندری کچھوے مونگے اور چٹانوں کو چاٹتے رہتے ہیں جس سے ان چٹانوں میں جمی کائی اور دیگر گھاس ختم ہو جاتی ہے اور مونگے کی چٹانوں کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔جبکہ میٹھے پانی کے کچھوے پانی میں مردار جانوروں سمیت کوڑے کو کھا کر پانی کو صاف بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

دلچسپ حقائق

٭... تقریباً 6 کروڑ50 لاکھ سمندری کچھوے باقی ہیں۔
٭... ساتوں اقسام خطرے سے دوچارہیں۔
٭... ایک ہزار میں سے صرف ایک بمشکل بالغ ہونے تک زندہ رہتا ہے۔
٭...سمندری کچھوے 50 سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔
٭... کچھ سمندری کچھوے طویل فاصلے تک ہجرت کرتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے گھروں کے قریب ہی رہتے ہیں۔ چمڑے والے کچھوے اور لاگر ہیڈ ہر سال ہزاروں میل سفر کر سکتے ہیں۔
٭...کچھووں کی ہر قسم کی خوراک مختلف ہوتی ہے۔ چمڑے والے کچھوے زیادہ تر جیلی فش کھاتے ہیں، سبز کچھوے سمندری گھاس کھاتے ہیں، لاگر ہیڈس اکثر کیکڑے پسند کرتے ہیں۔
٭... زیادہ تر کچھوے چیمبرز کھودتے ہیں جہاں انڈے رکھے جاتے ہیں۔
٭... محققین سمندری کچھووں کو ٹریک کرنے اور ان کے خوراک کے مقامات اور ہجرت کے پیٹرن کے بارے میں جاننے کیلئے سیٹلائٹ ٹیگ کا استعمال کرتے ہیں۔

لاحق خطرات

ماہرین کچھووں کی ممکنہ معدومیت کو ان کی آبادیوں میں کمی کی وجوہات ،ان کا بے دریغ شکار ، دن بدن ان کی کم ہوتی پناہ گاہوں اور غیر قانونی تجارت کو ٹھہراتے ہیں۔ چین ہانگ کانگ اور ویتنام میں کچھوے کے خول کے سوپ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانگ میں اضافے اور ان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے کچھووں کی غیرقانونی تجارت میں اضافہ کردیا ہے۔ سمندروں میں کشتیوں اور بحری جہازوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے کے واقعات بھی روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کچھووں کی ایک کثیر تعداد سمندر میں بچھائے شکاریوں کے جال میں پھنس کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، بالخصوص پلاسٹک آلودگی اور گلوبل وارمنگ تمام آبی مخلوق کی زندگیوں کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں:جنید جمشیددل دل پاکستان سے دل بدل دے تک کاکامیاب سفر

یادرفتگاں:جنید جمشیددل دل پاکستان سے دل بدل دے تک کاکامیاب سفر

7دسمبر کو جب دنیا میں سول ایوی ایشن کا دن منایا جا رہا ہوتا ہے وہیں پاکستان میں بہت سے خاندانوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں،جن کے پیارے 2016ء میںآج ہی کے دن ہونے والے ایک فضائی حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ پی آئی اے کی چترال سے اسلام آباد جانے والی پرواز حویلیاں کے قریب گر کر تباہ ہوگئی تھی جس میں تمام عملہ اور مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔ حادثے کا شکار ہونے والے پی آئی اے کے اس طیارے میں پاکستان کے معروف نعت خواں اور ماضی کے مقبول گلوکار جنید جمشید بھی سوار تھے۔ جنید جمشید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد واپس آ رہے تھے۔جنید جمشید ایک ہمہ جہت شخصیت تھے، وہ معروف سماجی شخصیت، سابق گلوکار،نعت خواں ،مبلغ ،ٹی وی ہوسٹ کے ساتھ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے۔وہ 3 ستمبر 1969ء کو کراچی میں پیدا ہوئے،ان کے خاندان کا تعلق پاکستان ائیر فورس سے رہا ہے جس کی بناء پر اہلِ خانہ کی کوشش تھی کہ جنید جمشید بھی فوجی بنیں۔وہ فوجی تو نہ بن سکے مگر لاہور کی یو ای ٹی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ پاک فضائیہ میں سول کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام ضرور کیا۔ موسیقی کوکرئیر بنانے کیلئے انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیااور ملی نغمہ''دل دل پاکستان‘‘گا کر عالمی شہرت حاصل کی۔ ان کے گروپ ''وائٹل سائنز‘‘ کو بھی اسی ملی نغمے سے پہچان ملی۔2002ء میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعلیمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔ 2004ء میں جنید جمشید نے گلوکاری چھوڑنے اور اپنی زندگی تبلیغی کاموں کیلئے وقف کرنے کا اعلان کیا۔انہوں نے نعت خوانی شروع کی تو اس میں بھی نام کمایا۔ چترال میں جہاں وہ تبلیغ دین کیلئے گئے تھے ان کا قیام ایک مسجد میں تھا ان کے ایک دوست کے مطابق جنید جمشید نے وہاں شرکاء کو قصیدہ بردہ شریف خوش الحانی کے ساتھ سنایا۔ وہ اکثر ٹی وی چینلوں پر نعت، حمد اور مناجات پیش کرتے تھے۔ان کی مقبول نعتوں میں ''میرا دل بدل دے‘‘،''محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے‘‘،''دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے‘‘ نمایاں ہیں۔بطور نعت خواں، مبلغ کامیابیاں سمیٹنے والے جنید جمشید نے اپنا کلاتھنگ برانڈ متعارف کرا کربزنس کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ وہ ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان بھی نمایاں رہے۔وہ فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے، کراچی میں کچرا اٹھانے کی مہم کی بھی قیادت کی۔2007ء میں جنید جمشید کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔داڑھی رکھ کر اسلام کی تبلیغ شروع کرنے کے باعث عوام نے انہیں مبلغِ اسلام کہنا اور سمجھنا بھی شروع کردیا تھا۔ مبلغِ اسلام جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 661 کے ایک حادثے میں وفات پا گئے۔ آج معروف گلوکار اور مبلغِ اسلام کی برسی کے موقع پر لوگ جنید جمشید کے ساتھ ساتھ اس افسوسناک حادثے کو بھی ضرور یاد کریں گے۔ایک گلوکار سے ایک مبلغ تک کا سفر طے کرنے والے جنید جمشید کو پاکستان میں وہ شہرت نصیب ہوئی جو دنیا میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جس کی وجہ ان کی ذاتی محنت و صلاحیت کے ساتھ ساتھ اسلام کیلئے محبت بھی تھی۔ پاکستان کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں جس گلوکار یا اداکار نے اپنا شعبہ چھوڑ کر کچھ اور کرنا چاہا، وہ رات کی سیاہی میں کھو گیا۔ بات اگر صرف جنید جمشید کی ہی کی جائے تو ایسی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، جس شخصیت کی وفات پر شوبز کی دنیا پر بھی سکتہ چھاگیا تھا اور مذہبی حلقے سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی آنسو بہا رہے تھے۔ مقبول نعتیں ٭...میرا دل بدل دے٭...محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے٭...دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے٭...الٰہی تیر چوکھٹ پر٭... میں تو امتی ہوں مقبول نغمات ٭... جاں جاں پاکستان(ملی نغمہ)٭...ایسے ہم جیئے(ملی نغمہ)٭...سانولی سلونی سی محبوبہ(رومانوی گیت)٭...وہ کون تھی(لائٹ ٹریک)٭...تمہارا اور میرا نام(رومانوی گیت) 

مالٹا :بہترین سیاحتی ملک

مالٹا :بہترین سیاحتی ملک

اس جزیرے کو قدرت نے بے پناہ حسن بخشا ہےیورپ اور شمالی افریقہ کے درمیان واقع 122مربع میل رقبہ پر مشتمل جزیرہ مالٹا کا چپہ چپہ قابل دید ہے۔ کچھ تو اس جزیرے کو قدرت نے بے پناہ حسن بخشا ہے اور کچھ یہاں کے رہنے والوں نے بھی اسے خوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بحراوقیانوس میں واقع اس جزیرہ کی آبادی 4لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اس جزیرے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ لاکھوں سال پہلے یہ یورپ اور افریقہ کے درمیان پل کا کام دیتا تھا اور یہ جزیرہ نہیں تھا۔ یہاں کے باشندے مثلاً اہل قرطاجنہ سے ہیں اور مذہباً کیتھولک عیسائی ہیں۔ یہ جزیرہ سسلی کے جنوب میں 54میل اور شمالی افریقہ کے ساحل کے شمال میں 118میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یوں تو مالٹا کے بارے میں زیادہ لوگ نہیں جانتے لیکن سیاحت کا شوق رکھنے والا کوئی بھی شخص اس نام سے ناآشنا نہیں ہے کیونکہ یہاں وہ سب کچھ ہے جو کوئی بھی سیاح دیکھنے کی خواہش کر سکتا ہے۔ سرسبز پہاڑ، لہلہاتی وادیاں اور چاروں طرف پھیلا ہوا گہرا نیلا سمندر، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی خوابوں کی سرزمین ہو۔ جزیرے کا شاید ہی کوئی ایسا مقام ہو جہاں سے سمندر نظر نہ آتا ہو۔ ایک سیاح کے مطابق یہ سمندر اتنا خوبصورت، نیلگوں اور پرسکون ہے کہ اس سے پیار کرنے کو دل چاہتا ہے۔مالٹا بہت قدیم تاریخ رکھتا ہے۔ بعض مورخین کے مطابق ہزاروں سال پرانی تحریروں میں بھی اس جزیرے کا ذکر ملتا ہے۔ جزیرے کی عمارتیں بھی اس بات کی گواہ ہیں کہ یہاں تعمیر و ترقی کا عمل بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ یہاں سیاحوں کی کثیر تعداد آتی ہے اس لئے یہاں بے شمار ہوٹل قائم ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ زیادہ تر ہوٹل قدیم عمارتوں میں قائم ہیں۔ ہوٹل کے علاوہ کافی شاپس اور ریستوران بھی مالٹا کے گلی کوچوں میں جا بجا کھلے ہیں۔مالٹا کے صدر اور وزیر اعظم کے دفاتر بھی یہاں کی قدیم ترین عمارتوں میں قائم ہیں۔ ملکی پارلیمنٹ ہائوس کی عمارت بھی صدیوں پرانی ہے۔ یورپ اور شمالی افریقہ کے عین درمیان میں واقع ہونے کی وجہ سے مالٹا کی ہمیشہ سے ہی بڑی اہمیت رہی ہے کیونکہ یہاں بیٹھ کر یورپ اور شمالی افریقہ کے بحری راستے کو بخوبی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ مالٹا پر کنٹرول حاصل کر لینے کا مطلب دو براعظموں کے درمیان ہونے والی بحری تجارت پر بھی کنٹرول حاصل کر لینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف ادوار میں یہاں مختلف قوموں کا قبضہ رہا ہے۔ یہاں کے آقائوں میں یونانی، کار تھیجین، رومن، اطالوی، عرب فرانسیسی اور برطانوی شامل رہے ہیں۔870ء میں یہ جزیرہ عربوں کے قبضے میں آیا۔1595ء میں اسے سسلی کی حکومت نے فتح کر لیا۔1530ء میں سینٹ جان کے نائٹوں نے اسے تسخیر کر کے اپنا ہیڈ کوارٹر بنا لیا۔12جون 1798ء کو نپولین نے مصر جاتے ہوئے اس پر اچانک قبضہ کر لیا۔1814ء میں معاہدہ پیرس کی شرائط کے مطابق یہ برطانیہ کے قبضے میں آیا۔ ان سب اقوام کے یہاں آنے کا مقصد یورپ اور افریقہ کے درمیان ہونے والی بحری تجارت کو کنٹرول کرنا تھا۔ ان تمام اقوام کے اقتدار کے نشانات آج بھی یہاں بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔ ہر قوم نے اپنے اپنے کلچر کے مطابق یہاں تعمیرات کیں۔ یہاں کوئی عمارت فرانسیسی طرز تعمیر کا نمونہ ہے تو اس کے بالکل ساتھ والی عمارت وکٹورین طرز تعمیر کا شاہکار ہے۔ ساتھ ہی عربوں کا کلچر نظر آتا ہے۔ مالٹا پر عربوں کی حکومت کا عرصہ 200سال یعنی 870ء سے 1090ء تک محیط رہا۔ اس دوران عربوں نے یہاں بے شمار عمارتیں تعمیر کیں اور عربی زبان کو فروغ دیا۔ یہاں کی سرکاری زبان مالٹی (Maltese)ہے جو عربی سے اپنا رشتہ جوڑتی ہے۔ یہاں کے لوگ عربی بخوبی سمجھ لیتے ہیں۔ ''میڈنا‘‘(مدینہ) کا شہر بھی عربوں کا ہی تعمیر کردہ ہے جو ایک عرصے تک مالٹا کا دارالحکومت بھی رہا۔ اس شہر کے ارد گرد فصیل بھی تعمیر کی گئی تھی جس کا مقصد شہر کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھنا تھا۔ اس شہر کو ''خاموش شہر‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔مالٹا کا دارالحکومت ویلٹا اس جزیرے کا واحد شہر ہے جسے باقاعدہ منصوبہ بندی کرکے تعمیر کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران یہ شہر جرمن فضائیہ کا خاص نشانہ بنا رہا تھا کیونکہ اس شہر کی بندرگاہ سے اتحادیوں کے بحری جہاز تیل اور رسد حاصل کرتے تھے۔ ویلٹا کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے بلند مقامات سے مالٹا کے دوسرے شہروں کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ 122 مربع میل رقبہ پر مشتمل مالٹا میں 5شہر اور 100سے زیادہ دیہات ہیں۔مالٹا کے ساتھ دو اور جزیرے ''گوزو‘‘ اور ''کومینو‘‘ بھی مالٹا کا ہی حصہ ہیں۔ یہ تینوں جزائر آپس میں ''بوٹ سروس‘‘ اور تیز رفتار ہیلی کاپٹر سروس کے ذریعے منسلک ہیں۔ جزیرہ گوزو دوسرے دونوں جزائر سے زیادہ زرخیز ہے۔ اس جزیرے کو خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے بھی بہت شہرت حاصل ہے۔ مالٹا دنیا کے ان چند ایک ممالک میں شامل ہے جہاں ہر موسم میں سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ مالٹا پانی کی ہر قسم کی کھیلوں کیلئے بھی انتہائی مناسب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کھیلوں کے شوقین دنیا کے کونے کونے سے مالٹا کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ جزیرے کے ارد گرد واقع زیر آب آبی غاروں میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔ جب چھوٹی کشتیاں ان غاروں میں داخل ہوتی ہیں تو قدرت کی ہیبت دیکھنے والوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ بوٹس کے نیچے بحراوقیانوس کا نیلا پانی اور ارد گرد بلندو بالا پتھریلی دیواریں دیکھنے والوں پر عجیب و غریب قسم کا تاثر چھوڑتی ہیں۔ 

آج کا دن

آج کا دن

پرل ہاربر پر حملہپرل ہاربر پر حملہ امپیریل جاپانی نیوی ایئر سروس کی طرف سے 7 دسمبر 1941ء کو ہوائی کے علاقے ہونولولو میں پرل ہاربر بیس پر کیا گیا۔یہ جاپان کی جانب سے امریکہ پر کیا جانے والا حیران کن حملہ تھا کیونکہ اس وقت امریکہ پوری طرح سے عالمی جنگ میں حصہ بھی نہیں لے رہا تھا اور ایک غیر جانبدار ملک تھا۔یہی حملہ امریکہ کا دوسری عالمی جنگ میں شامل ہونے کی وجہ بنااور حملے کے دوسرے ہی دن امریکہ بھرپور انداز میں جنگ میں شامل ہو گیا۔جاپان نے یہ حملہ ایک احتیاطی کارروائی کے طور پر کیاتھا اس کا مقصد امریکہ کو جنوب مشرقی ایشیا میں فوجی کارروائیوں میں مداخلت سے روکنا تھا۔ جاپانیوں نے تین کروزر، تین ڈسٹرائر، ایک طیارہ شکن تربیتی جہاز اور ایک مائن لیئر کو نقصان پہنچایا۔ 180 سے زیادہ امریکی طیارے تباہ ہوئے،2ہزار 403 امریکی مارے گئے اورایک ہزار 178 دیگر زخمی ہوئے۔بلیو ماربلبلیو ماربل زمین کی ایک تصویر ہے جو 7 دسمبر 1972ء کو چاند پر جاتے ہوئے اپالو17خلائی جہاز کے عملے کی جانب سے سیارے کی سطح سے تقریباً 29ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے لی گئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر بحیرہ روم سے لے کر انٹارکٹیکا تک زمین کو دکھاتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اپالو کی رفتار نے جنوبی قطب کی تصویر کشی ممکن بنائی۔ جزیرہ نما عرب اور مڈغاسکر کے علاوہ افریقہ کی تقریباً پوری ساحلی پٹی اور بحیرہ ہند کا بیشتر حصہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔خلا بارو ں کے مطابق اگر دنیا کو فاصلے سے دیکھا جائے تو وہ ایک نیلے رنگ کے ماربل کی طرح نظر آتی ہے اس لئے ناسا کی جانب سے خلابازوں کی لی گئی تصویر کا نام بھی بلیو ماربل رکھا گیا۔وائنکوف ہوٹل میں آتشزدگی7 دسمبر 1946 ء کو وائنکوف ہوٹل میں لگنے والی آگ، امریکی تاریخ کی کسی بھی ہوٹل میں لگنے والی سب سے مہلک آگ تھی، جس میں ہوٹل کے اصل مالکان سمیت 119 افراد ہلاک ہوئے۔ جارجیا کے اٹلانٹا میں 176 پیچ ٹری اسٹریٹ پر واقع وائنکوف ہوٹل کو ''فائر پروف‘‘ کے طور پر مشہور کیا گیا تھا جبکہ ہوٹل کاڈھانچہ بھی سٹیل سے بنایا گیا تھاتاکہ آگ سے محفوظ رہ سکے لیکن اس کے اندرونی حصے آتش گیر تھے اور عمارت سے خروج کا نظام ٹھیک سے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ امرجنسی کی صورت میں عمارت سے نکلنے کیلئے 15منزلوں کیلئے صرف ایک ہی راستہ تھا جو سیڑھیوں سے ہوتا ہوا باہر کی جانب جاتا تھا۔ آگ تیسری منزل سے شروع ہوئی اور اس سے اوپر کے تمام افراد ہوٹل میں ہی پھنس گئے۔ آگ سے بچ جانے والوں کو یا تو اوپری منزل کی کھڑکیوں سے بچایا گیا یا پھر فائر مین کے پکڑے ہوئے جالوں میں کود گئے۔لانگ آئی لینڈ ریل شوٹنگلانگ آئی لینڈ ریل شوٹنگ کا واقعہ7 دسمبر 1993ء کو پیش آیا۔جیسے ہی ٹرین میریلن ایونیوسٹیشن پہنچی ٹرین میں سوار مسافر فرگوسن سے دوسرے مسافروں پر نیم خودکار پستول سے فائرنگ شروع کر دی۔شوٹنگ سے 6 مسافریں ہلاک جبکہ19شدید زخمی ہوئے۔ اس سے قبل کے فرگیوسن مزید قتل عام کرتا،ٹرین میں موجود مسافروں نے اسے پکڑ لیا۔ اسے فروری 1995ء میں چھ افراد کو قتل اور 19کو شدید زخمی کرنے پر سزا سنائی گئی۔  

باڈی شیمنگ کیا ہے ؟

باڈی شیمنگ کیا ہے ؟

کسی انسان میں جسمانی کمی یا تبدیلی کی وجہ سے طعنہ زنی کا نشانہ بننے کی کیفیت کے عمل کو ''باڈی شیمنگ‘‘کہا جاتا ہے۔ اسے مزید آسان الفاظ میں اس طرح بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی بھی انسان کو ہئیت یا سائز کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنایا جائے تو اسے باڈی شیمنگ کہا جائے گا۔ عام طور پر ہمارے معاشروں میں پستہ قد ، طویل القامت، بہت موٹے، بہت دبلے اور سیاہ رنگت والے افراد باڈی شیمنگ کا زیادہ نشانہ بنتے دیکھے گئے ہیں۔باڈی شیمنگ، ہمارے معاشرے میں صدیوں سے چلی آ رہی ہے ، کہیں کسی کو اگر موٹاپے کا طعنہ دیا جا رہا ہے تو اسے تضحیک آمیز انداز میں ''اوئے موٹے‘‘کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی شخص دبلا پتلا ہے تو اسے ''اوئے کانگڑی پہلوان‘‘ کہا جاتا ہے۔اسی طرح کالی رنگت والے کو ''اوئے کالے‘‘ کا طعنہ دے کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ گویا ہمارے معاشرے میں کسی کی جسمانی ہئیت یا شکل و صورت کا مذاق اڑانا عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔باڈی شیمنگ سروے چند سال پہلے ایک معروف بین الاقوامی میڈیا گروپ نے فیس بک کے ذریعے ایک آن لائن سروے منعقد کرایا تھا، جس کا عنوان تھا ''سب سے زیادہ باڈی شیمنگ کون کرتا ہے ؟، کس بارے کرتا ہے؟ عمر کے کس حصے تک باڈی شیمنگ ہوتی ہے؟ اور انسانی زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟‘‘۔سروے کروانے والے گروپ کو اس کے بہت حوصلہ افزا جواب موصول ہوئے تھے۔ سروے کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی۔باڈی شیمنگ کون کرتے ہیں ؟ اس سروے میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ انہیں سب سے زیادہ گھر والے ہی باڈی شیمنگ کا نشانہ بناتے ہیں کیونکہ ان کا بیشتر وقت گھر پر گزرتا ہے۔سروے کے مطابق 50 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں گھر والوں سمیت رشتہ داروں کے طعنوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے، 25 فیصد کا ماننا تھا کہ انہیںدوستوں، 12 فیصد کے مطابق کلاس فیلوز اور دفتری ساتھی جبکہ 13 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں اجنبی لوگوں کے ہاتھوں تنقید اور طعنوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ انسانی زندگی کس قدر متاثر ہوتی ہے ؟ باڈی شیمنگ سے متاثرہ انسان پر بہت زیادہ نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ باڈی شیمنگ کے انسانی کی نفسیات پر کسی نہ کسی حد تک اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں ، جبکہ ایک قلیل تعداد کا خیال تھا کہ انسانی نفسیات پر باڈی شیمنگ کے اثرات نہ ہونے کے برابر مرتب ہوتے ہیں۔کس عمر میں زیادہ باڈی شیمنگ ہوتی ہے 77 فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ باڈی شیمنگ کا سامنا زیادہ تر نوجوانی میں ہوتا ہے ۔ 18 فیصد کی رائے تھی کہ ایسا زیادہ تر بچپن میں ہوتا ہے جبکہ 5 فیصد کا خیال تھا کہ ایسا بڑھاپے اور ادھیڑ پن میں ہوتا ہے۔ 70 فیصد شرکاء کی رائے کے مطابق ہر انسان کو زندگی میں کسی نہ کسی مرحلے پر ضرور باڈی شیمنگ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کیا کہتے ہیں ؟ معروف ماہر نفسیات بشری عسکری کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ کے باعث لوگوں کے دماغ پر شدید اثرات مرتب ہوتے ہیں جن کے باعث ان میں خود اعتمادی کی کمی، ذہنی دباو اور ڈپریشن کے باعث ان میں کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔عام طور پر باڈی شیمنگ کا شکار بننے والے افراد لوگوں سے رابطے ختم یا کم از کم محدود کر دیتے ہیں۔ نتیجتاً وہ خود کو تنہائی کا شکار بنا لیتے ہیں۔ سینئر ماہر نفسیات دان روحی جو ایک این جی او کے ساتھ کام کرتی ہیں نے اپنے ایک انٹرویو میں باڈی شیمنگ سے متعلق بتا یاکہ انہیں ہر ماہ نفسیاتی مسائل سے متعلق لگ بھگ 50 لوگوں کے مسائل سننے سے واسطہ پڑتا ہے۔ان مسائل میں 10 سے 20 لوگوں کے مسائل کے درپردہ باڈی شیمنگ ایک جزو کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ایک اور ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ باڈی شیمنگ سے متاثرہ افراد بعض اوقات ان رویوں کے باعث جارحانہ پن کا شکار ہو کر غصے اور چڑچڑے پن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہر نفسیات کہتے ہیں ، جب ایک شخص مسلسل باڈی شیمنگ کی زد میں رہتا ہے یا پھر کسی شخص کے چہرے کے نقوش مسلسل تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تب اس شخص کے ذہن میں منفی جذبات شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ جس کے باعث باڈی شیمنگ کا شکار بننے والوں میں اپنی ہر چیز سے نفرت کرنے کا رجحان جنم لے سکتا ہے، خواہ وہ چہرے کے نقوش ہوں یا پھران کی مکمل شخصیت۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کو دراصل اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس قدر ناشائستہ اور غیر مہذبانہ انداز میں مسلسل دیگر لوگوں کی جسمانی ساخت پر نکتہ چینی کر رہے ہیں اور ان کے اعتماد کو مجروح کر رہے ہیں۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس طرح ہم اپنی زندگی میں کسی کی بے جا مداخلت کو کسی طور بھی پسند نہیں کرتے تو پھر ہمیں کیا حق ہے کہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں دخل اندازی کر کے انہیں بے سکون کریں۔ ماہر نفسیات بشریٰ عسکری کہتی ہیں کہ باڈی شیمنگ اکثر وہی لوگ کرتے ہیں جو خود گہرے تنازعات میں جکڑ چکے ہوتے ہیں کیونکہ صحت مند ذہن کا مالک کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاتا۔ متاثرین کو کرنا کیا ہو گا ؟باڈی شیمنگ ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے جو نہ صرف تیزی سے ہماری صفوں میں پھیلتا چلا گیا بلکہ یہ ہماری روایات اور اقدار میں سرایت کر چکا ہے۔ اگرچہ ماہرین نفسیات اس کا علاج متاثرین کی ''کونسلنگ‘‘، سیمینارز اور ٹریننگ سیشنز کے ذریعے تجویز کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک کٹھن اور صبر آزما کوشش سے زیادہ کچھ نہیں۔بحیثیت فرد ہمارا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہم ہر ایک میں صرف اور صرف خوبصورتی تلاش کریں، ہمیں دوسروں کے چہروں کے نقوش اور جسمانی ساخت کا مذاق اڑانے سے پہلے اپنے ذہن میں یہ سوچ پیدا کرنا ہو گی کہ بہت ممکن ہے کہ ہمارے اندر بھی ایسے بے شمار نقائص پوشیدہ ہوں جن کے بارے ہمیں علم ہی نہ ہو۔دوسری طرف بیشتر ماہرین اس کا جو سب سے موثر حل تجویز کرتے ہیں وہ ''اپنی مدد آپ‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔آپ جیسے بھی ہیں خود کو قبول کیجئے ، اردگرد دیکھئے یقینی طور پر آپ کے ارد گرد آپ سے بڑھ کر بھی متاثرین ہوںگے۔اپنی شکل و صورت اور جسمانی ساخت کو قبول کرنا کامیابی کی طرف بنیادی قدم ہو گا۔خود کو صحت مند سرگرمیوں کا عادی بنائیے۔مثلاً آپ کسی نیک اور رفاہی کام میں حصہ ڈال کر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ 

عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

عمر خیام عظیم مسلمان سائنسدان

عمر خیام کا شمار بلا مبالغہ دنیا کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔عمر خیام کا جب بھی نام لیا جاتا ہے تو ان کی شاعری اور رباعیاں سامنے آ جاتی ہیں جبکہ وہ صرف ایک شاعر نہ تھے، مصنف اور فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماہر علم نجوم، ریاضی دان اور ماہر فلکیات بھی تھے۔عمر خیام کا ایک کارنامہ رصدگاہ میں تحقیقات کر کے مسلمانوں کو ایک نیا کیلنڈر بنا کر دینا بھی ہے۔عمر خیام نے 18 مئی 1048ء میں نیشا پورکے ایک خیمہ سینے والے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کاپورا نام ابو الفتح عمر خیام بن ابرہیم نیشاپوری تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نامور اساتذہ سے تعلیم حاصل کی۔ان کے استادوں میں عبدالرحمن الخازنی ،قاضی ابو طاہر اور مصطفی نیشا پوری کے نام قابل ذکر ہیں۔ فلسفہ میں وہ مشہور فلسفی بوعلی سینا کے ہم عصر تھے۔ ان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے سلجوقی سلطان ، ملک شاہ نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر لیااور انہیں اصفہان کے اندر ایک عظیم الشان رصدگاہ تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اس کی تعمیر 1073 ء میں شروع ہوئی اور ایک سال بعد یعنی 1074ء میں اس رصد گاہ کی تعمیر مکمل ہوگئی۔ عمر خیام کو یہاں کا انچارج مقرر کر دیا گیا جبکہ ان کے علاوہ چند مشہور سائنس دانوں نے بھی یہاں کام کیا جن میں ابوالغفار الاسفیزاری ،میمن ابن نجیب الوسیطی اور محمد بن عماد البیہقی کے نام زیادہ مشہور ہیں۔ سلطان ملک شاہ نے عمر خیام کو ایک نیا کیلنڈر بنانے کا حکم دیا۔ملک شاہ کے کہنے پر انہوں نے جو کیلنڈر تیار کیا اسے جلالی کیلنڈر کہا جاتا ہے اور جو ایک زمانے تک رواج میں رہا اور آج کا ایرانی کلینڈر بھی بہت حد تک اسی پر مبنی ہے۔ جلالی کیلنڈر، شمسی کیلنڈر ہے اور سورج کے مختلف برجوں میں داخل ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ رائج انگریزی یا گریگورین کیلنڈر سے زیادہ درست ہے اور اسے آج تک سب سے زیادہ درست کیلنڈر کہا جاتا ہے۔ اس میں 33 سال پر لیپ ایئر آتا ہے جبکہ گریگوین میں ہر چار سال پر اضافی دن والا سال آتا ہے۔ اس کے بعد وزیر نظام الملک نے اصفہان مدعو کیا جہاں کی لائبریری سے انہوں نے استفادہ کیا اور اقلیدس اور اپولینیس کے علم الحساب کا بغور مطالعہ شروع کیا اور انہوں نے اس سلسلے میں کئی اہم تصانیف چھوڑیں۔ ریاضی کے میدان میں مکعب اور متوازی کے نظریے پر ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے۔ انہیں اقلیدس میں جو اشکالات نظر آئے ان پر عربی زبان میں ایک کتاب تحریر کی جس کا عنوان''رسالہ فی شرح اشکال من مصدرات کتاب اقلیدس‘‘تھا۔عمر خیام کا اصل میدان علم ہیت یا علم نجوم، ریاضی اور فلسفہ رہا لیکن ان کی عالمی شہرت کی واحد وجہ ان کی شاعری ہے جو گاہے بگاہے لوگوں کی زبان پر آ ہی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کو زندہ کرنے کا کارنامہ انگریزی شاعر اور مصنف ایڈورڈ فٹزجیرالڈ کا ہے جنہوں نے 1859ء میں عمرخیام کی رباعیات کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور اس کا عنوان ''رباعیات آف عمر خیام‘‘ رکھا اور عمر خیام کو فارس کا نجومی شاعر کہا۔ اس ترجمے کو انگریزی شاعری کے اعلیٰ ترین شاہ کاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نہ صرف انگریزی شاعری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، بلکہ سب سے زیادہ نقل کی جانے والی کتاب بھی یہی ہے۔ اردو میں تو بہت سے لوگوں نے ان کی رباعیوں کا منظوم ترجمہ بھی کیا ہے۔ عمر خیام کی پزیرائی مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے ۔ اس عظیم مسلمان سائنسدان کا انتقال 4دسمبر 1131ء کو ایران میں ہوا، آج ان کی برسی ہے۔رباعیاتہوئی سحر تو ، پکارا یہ پیر مے خانہارے وہ مست کہاں ہے سدا کا دیوانہبلانا اس کو کہ جلدی سے اس کا جام بھریںمبادا، موت نہ بھر ڈالے اس کا پیمانہ٭٭٭٭دیتی ہے اجل کس کو اماں اے ساقی بھر جام مرا جلدی سے ہاں اے ساقیدنیا کے پکھیڑوں کیلئے رونا کیامشہور دو روزہ ہے جہاں اے ساقی٭٭٭٭ہاں عقل یہ کہتی ہے کریں اب توبہہر روز ارادہ ہے کہ امشب توبہاب موسمِ گل آہی چکا اور سہیاس فصل میں توبہ کریں یا رب توبہ٭٭٭٭کڑھتا ہے کیوں گناہوں پہ بیکار کیلئےحق کے کرم کو موقع ہے اظہار کیلئےمعصوم و بیگناہ کو رحمت سے کیا غرضفی الاصل مغفرت ہے گنہگار کیلئے اعزازات٭... 1970ء میں چاند کے ایک گڑھے کا نام عمر خیام رکھا گیا۔ یہ گڑھا کبھی کبھی زمین سے بھی نظر آتا ہے۔٭... 1980ء میں ایک سیارچے ''3095‘‘ کو عمر خیام کا نام دیا گیا۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مغلیہ سلطنت کاخاتمہ 4 دسمبر 1858ء کو انگریزوں نے ہندوستان کے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کو تخت سے معزول کرتے ہوئے برما جلا وطن کر دیا۔ اس طرح سے سر زمین ہند سے مغلیہ سلطنت ختم ہوئی۔مغلیہ سلطنت کی بنیاد ظہیر الدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت میں دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریباً پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی، یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت، اور بنگلہ دیش کے ممالک پر مشتمل خطے پر ان کا دور دورہ تھا۔تھامس آتشزدگیتھامس آتشزدگی جنگل میں لگنے والی ایک بڑی آگ تھی جس نے وینٹورا اور سانتا باربرا کاؤنٹیز کو متاثر کیا۔ آتشزدگی کی ابتدا 4دسمبر 2017ء کو ہوئی۔اس آگ سے تقریباً 2لاکھ 81ہزار 893 ایکٹر رقبہ جل کر راکھ ہو گیا۔جدید کیلیفورنیا کی تاریخ میں اسے بدترین آتشزدگی تصور کیا جاتا ہے۔سرکاری طور پریکم جون2018ء کو آگ بجھنے ہونے کا اعلان کیا گیا۔اس آگ سے2.2ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔تھامس آتشزدگی کی وجہ سے وینٹورا کی زراعت کی صنعت کو کم از کم پونے دو کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔دسمبر احتجاج4دسمبر 2005ء کو ہانگ کانگ میں ہزاروں افراد نے جمہوریت کے حق میں احتجاج کیا اور حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ بین الاقوامی اور مساوی حق رائے دہی کا حق فراہم کرے۔ مظاہرین نے چیف ایگزیکٹو اور قانون ساز کونسل کی تمام نشستوں کو براہ راست منتخب کرنے کے حق کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے حکومت پر یہ بھی زور دیا کہ حکومت کی اصلاحاتی تجویز کی حدود کے جواب میں ضلع کونسلوں کی مقرر کردہ نشستیں ختم کر دی جائیں۔ سول ہیومن رائٹس فرنٹ اور جمہوریت کے حامی قانون سازوں کے زیر اہتمام، یہ احتجاج وکٹوریہ پارک میں فٹ بال کی پچز سے شروع ہوا۔ ایک اندازے کے مطابق اس احتجاج میںتقریباًڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی۔پین امریکن ورلڈ ائیر کے آپریشنز کا اختتامپین امریکن ورلڈ ائیر ویز جو ''پین ایم‘‘ کے نام سے بھی جانی جاتی تھی ایک امریکی فضائی کمپنی تھی جسے20ویں صدی کے پیشتر حصے تک امریکہ کی سب سے بڑی غیر سرکاری ہوائی جہاز کمپنی تصور کیا جاتا تھا۔یہ دنیا بھر میں اڑان بھرنے والی پہلی ایئر لائن تھی اور اس نے جدید ایئر لائن انڈسٹری جیسے جمبو جیٹ، اور کمپیوٹرائزڈ ریزرویشن سسٹم جیسی سہولیات کا آغاز کیا۔4دسمبر1991ء میں اس کمپنی کے آپریشنز بند ہونے تک ''پین ایم‘‘ دنیا بھر میں تمام آسائشوں کے ساتھ سفر کرنے والی فضائی کمپنی تھی۔ ملائیشین طیارہ اغواملائیشین ایئر لائن کی پرواز 653 ملائیشیا میں پینانگ سے کولالمپور کیلئے ایک طے شدہ ڈومیسٹک پرواز تھی، جو ملائیشین ایئر لائنز کے ذریعے آپریٹ کی جارہی تھی۔ 4 دسمبر 1977 ء کی شام کو'' بوئنگ 737‘‘ طیارہ کپانگ، جوہر، ملائیشیا میں گر کر تباہ ہو گیا، جبکہ مبینہ طور پر ہائی جیکرز نے اسے سنگاپور کی طرف موڑ دیا تھا۔ یہ ملائیشیا ایئر لائنز کا پہلا مہلک ہوائی حادثہ تھا۔ اس حادثے میں 93 مسافر اور عملے کے 7افراد ہلاک ہوئے۔ پرواز کو بظاہر ہائی جیک کر لیا گیا تھا ۔ جن حالات میں ہائی جیکنگ اور اس کے نتیجے میں حادثہ پیش آیا وہ ابھی تک حل طلب ہیں۔