کچھوے: روئے زمین کی قدیم ترین مخلوق
جنگلی حیات کے تحفظ کی ایک بین الاقوامی تنظیم '' انٹرنیشنل کنزرویشن آف نیچر ‘‘ (IUCN ) نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ کچھووں کی 300اقسام میں سے 129 اقسام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کچھووں کی نسل ''بلیک پانڈ‘‘کی معدومیت بارے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے WWF نے بھی اس طرف حکومتی توجہ مبذول کرائی ہے ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ کچھوے اس روئے زمین پر لگ بھگ 21 کروڑ سال پہلے وجود میں آئے تھے۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ کچھوے ڈائنو سا ر کے ہم عصر تھے۔ ان کی اوسط عمر بہت طویل ہوتی ہے ، ویسے تو عام طور پر ان کی عمر 30 سے 50 سال ہے لیکن بعض اوقات 100سالہ کچھوے بھی پائے گئے ہیں۔ اب تک تاریخ کا سب سے طویل العمر کچھوا بحرالکاہل کے جزیرہ ٹونگا میں پایا گیا تھا ، جس کی عمر 188 سال تھی۔
پاکستان میں کچھووں کی مجموعی طور پر 11 اقسام پائی جاتی ہیں۔جن میں آٹھ میٹھے یا تازہ پانیوں اور تین سمندری ( نمکین )پانی میں پائی جاتی ہیں۔میٹھے پانی کا کچھوا دریائے سندھ ، اس سے منسلک دریاوں ، ندی نالوں ، چشموں اور تالابوں میں پایا جاتا ہے۔یہ گھاس سے لے کر سمندری مخلوق حتی کہ مردہ آبی مخلوق بھی کھا لیتے ہیں۔ آبی ماہرین علوم کہتے ہیں کچھوے، گدھ کی طرح '' فطرت کے خاکروب‘‘ ہوتے ہیں کیونکہ یہ مردہ اجسام کو کھا کر زمین کو صاف رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
سمندری کچھوے سائز میں بھاری بھر کم ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے چھوٹی نسل ''کیمپس رڈلی‘‘جو تقریباً 70 سنٹی میٹر لمبا ہے اس کا وزن 40کلوگرام تک دیکھا گیا ہے جبکہ ''لیدر بیگ‘‘ نسل کچھوا 180 سنٹی میٹر لمبا اور 500 کلوگرام کے قریب اس وزن ہے۔ آج تک سب سے بڑے لیدر بیگ کا ریکارڈ 2.5 میٹر لمبائی اور 900 کلوگرام وزن کا ہے۔
بلیک پانڈ کچھوے۔۔قیمتی کیوں ؟
کچھووں کی یہ نسل تازہ پانی کی نسل ہے جو عموماً بارشوں ، دریاوں ، ندی نالوں یا نہروں میں پائے جاتے ہیں۔عام طور پر جب بارشوں کے بعد دریاوں یا نہروں میں پانی کم ہو جاتا ہے تو بننے والے چھوٹے تالابوں یا گڑھوں میں کچھوے رہ جاتے ہیں جو عام طور پر کالے رنگ کے ہوتے ہیں اس وجہ سے انہیں '' بلیک پانڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں کچھووں، بالخصوص بلیک پانڈ کی بہت مانگ ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ بعض اقسام کی قیمت فی کچھوا 1500ڈالر(تقریباً 4 لاکھ روپے) کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ویسے تو اس نسل کے کچھووں کی درآمد پر پابندی ہے جس کی وجہ سے یہ جنوبی کوریا، سنگاپور، ویتنام، ہانگ کانگ ، انڈونیشیا، نیپال غیر قانونی طور پر سمگل ہو جاتے ہیں۔چین کچھووں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جہاں یہ بیش قیمت ادویات میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان کی بڑھتی طلب کا ایک سبب یورپ، امریکہ اور چین کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ان کا بطور پالتو جانور بڑھتا رجحان بھی ہے۔
ماحول دوست جانور
کچھووں کی موجودگی سمندروں، دریائوں، نہروں، جھیلوں اور تالابوں کے پانی کو صحت کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ کچھوے اس کرہ ارض پر فطرت کی ''فوڈ چین‘‘ کا کردار ادا کرتے ہیں ۔یہ آبی ایکو سسٹم کو متوازن رکھنے میں لاشعوری طور پر اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔کچھوے پانی کے اندر مضر صحت اشیاء اور جراثیموں کو بطور غذا استعمال کرتے ہیں جس سے پینے کا پانی مختلف بیماریوں کا باعث بننے سے محفوظ رہتا ہے۔ کچھووں کی اس خصوصیت کی وجہ سے انہیں چاول کی کھڑی فصلوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے ، جب فصلوں میں کئی فٹ پانی کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ پانی میں موجود فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑے مکوڑوں کو کھا کر فصلوں کو ضائع ہونے سے بچا لیتے ہیں۔
سمندری کچھوے مونگے اور چٹانوں کو چاٹتے رہتے ہیں جس سے ان چٹانوں میں جمی کائی اور دیگر گھاس ختم ہو جاتی ہے اور مونگے کی چٹانوں کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔جبکہ میٹھے پانی کے کچھوے پانی میں مردار جانوروں سمیت کوڑے کو کھا کر پانی کو صاف بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
دلچسپ حقائق
٭... تقریباً 6 کروڑ50 لاکھ سمندری کچھوے باقی ہیں۔٭... ساتوں اقسام خطرے سے دوچارہیں۔
٭... ایک ہزار میں سے صرف ایک بمشکل بالغ ہونے تک زندہ رہتا ہے۔
٭...سمندری کچھوے 50 سال یا اس سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔
٭... کچھ سمندری کچھوے طویل فاصلے تک ہجرت کرتے ہیں، جبکہ کچھ اپنے گھروں کے قریب ہی رہتے ہیں۔ چمڑے والے کچھوے اور لاگر ہیڈ ہر سال ہزاروں میل سفر کر سکتے ہیں۔
٭...کچھووں کی ہر قسم کی خوراک مختلف ہوتی ہے۔ چمڑے والے کچھوے زیادہ تر جیلی فش کھاتے ہیں، سبز کچھوے سمندری گھاس کھاتے ہیں، لاگر ہیڈس اکثر کیکڑے پسند کرتے ہیں۔
٭... زیادہ تر کچھوے چیمبرز کھودتے ہیں جہاں انڈے رکھے جاتے ہیں۔
٭... محققین سمندری کچھووں کو ٹریک کرنے اور ان کے خوراک کے مقامات اور ہجرت کے پیٹرن کے بارے میں جاننے کیلئے سیٹلائٹ ٹیگ کا استعمال کرتے ہیں۔
لاحق خطرات
ماہرین کچھووں کی ممکنہ معدومیت کو ان کی آبادیوں میں کمی کی وجوہات ،ان کا بے دریغ شکار ، دن بدن ان کی کم ہوتی پناہ گاہوں اور غیر قانونی تجارت کو ٹھہراتے ہیں۔ چین ہانگ کانگ اور ویتنام میں کچھوے کے خول کے سوپ کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس کی وجہ سے اس کی مانگ میں اضافے اور ان کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے کچھووں کی غیرقانونی تجارت میں اضافہ کردیا ہے۔ سمندروں میں کشتیوں اور بحری جہازوں سے ٹکرا کر ہلاک ہونے کے واقعات بھی روزمرہ کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔ کچھووں کی ایک کثیر تعداد سمندر میں بچھائے شکاریوں کے جال میں پھنس کر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی، بالخصوص پلاسٹک آلودگی اور گلوبل وارمنگ تمام آبی مخلوق کی زندگیوں کیلئے خطرہ بن چکے ہیں۔