موسم سرما کی سوغات

موسم سرما کی سوغات

اسپیشل فیچر

تحریر : شازیہ کنول


ستمبر کے آخری ہفتے اور نومبر کے آغاز سے ہوائوں میں خنکی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نومبر کے آخر تک موسم سرما اپنی تمام تر جوبن کے ساتھ سرد ہوائوں کے ساتھ ہرطرف ٹھنڈک بکھیرنا شروع کردیتا ہے۔ ایسے میں سردموسم میں ٹھنڈ سے محفوظ رہنے کیلئے موسم کے سرما کے پکوان خاصی اہمیت اختیار کرجاتے ہیں ۔جن کے استعمال سے ہم اپنے جسم کو سردی سے محفوظ رکھتے ہوئے اس موسم کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرسکیں۔چونکہ پاکستان میں سردیاں زیادہ طویل وقت کیلئے نہیں آتیں لہٰذا لوگ اس خاص موسم کی خاص سوغاتوں کو بنانے اور کھانے کا اہتمام بڑے ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔
گاجر کا حلوہ
گاجر کا حلوہ سردیوں کی خاص سوغات ہے اور یہ صحت کیلئے نہایت مفید بھی ہے، اس حلوے کا سب سے اہم جزو گاجر ہے، جو کہ وٹامن اے، وٹامن سی، وٹامن کے اور فائبر سے بھرپور سبزی ہے۔
کشمیری چائے
دیکھا جائے تو کشمیر میں سردی کا موسم طویل ہوتا ہے اس لیے کشمیر کے لوگ اس چائے کو بہت زیادہ پیتے ہیں۔ پاکستان بھر میں کشمیری چائے بہت مشہور ہے بلکہ یہ شادی بیاہ کے مواقع پر بھی کھانے کے ساتھ رکھی جاتی ہے۔
مچھلی
سردی کے موسم میں ذائقے اور افادیت سے بھر پور غذا مچھلی کا استعمال لوگ بہت شوق سے کرتے ہیں۔مچھلی میں وافر مقدار میں سیلینیم پایا جاتا ہے ،یہ جز و مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے میں اہم کردارادا کرتاہے۔
مونگ پھلی
مونگ پھلی صحت مند چربی، پروٹین اور فائبر کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔اس میں بہت سے وٹامنز پوٹاشیم، فاسفورس اور میگنیشیم پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ مونگ پھلی میں کیلوریز زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں اور ان میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔
پائے
پائے برصغیر کی بہترین اور سب سے زیادہ پسند کی جانے والی ڈش ہے اس کو پکنے میں کافی دیر لگتی ہے۔اس کا اصل مزہ اس میں شامل کیے گئے پائے کے گودے کا ہوتا ہے اور اسی سے جسم کو طاقت بھی ملتی ہے۔
سوپ
موسم سرما کا ذکر ہو اور جسم کو گرماہٹ دینے والی غذاؤں کی فہرست میں سوپ کا نام نہ شامل ہو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے، یہ جلد ہضم ہونے والی غذا ہے۔
سوپ افادیت کے لحاظ سے لاجواب ہے، بلکہ یہ نظامِ ہضم کی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ویسے تو مرغی اور بکرے کا سوپ بے حد مفید ہے لیکن سبزیوں سے تیار کردہ سوپ بھی انتہائی لذیذ اور قوت بخش ہوتا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

جمیل الدین عالی قابل ستائش انسان

پاکستانی شعر و ادب کی دنیا میں جن شخصیات نے اپنی انفرادیت کے نقوش چھوڑے ہیں، اُن میں جمیل الدین عالی بھی شامل ہیں۔ وہ صحیح معنوں میں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ جہاں اُنہوں نے کئی مقبول اور یاد گار ملی نغمے اور گیت لکھے تو دوسری طرف اُْنہوں نے دوہے جیسی مترنم اور نغمگی سے بھرپور مگر نظر انداز کی گئی صنف کو اپنی تخلیقی قوت کے سبب ایک نئی زندگی دی۔ یہی نہیں جمیل الدین عالی پاکستانی شعرو ادب میں نمایاں ترین کردار ادا کرنے کے ساتھ علمی اور تعمیری میدانوں میں بھی کئی اہم کارناموں کے باعث قابلِ ستائش ہیں۔ اردو کے حوالے سے بھی جمیل الدین عالی کی خدمات بہت ہیں۔ انہوں نے ہر دور میں اردو کے نفاذ کا بیڑا اٹھائے رکھا۔جمیل الدین عالی صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ ایک پورے عہد کا نام ہے۔ اس پورے عہد میں ان کی شخصیت کے انگنت رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر رنگ میں ان کی شخصیت درجہ کمال کو چھوتی نظر آتی ہے۔ ملی نغمے لکھے تو لازوال، مصرعے ایسے کہ زبان زدعام ہو گئے۔ اردو زبان کے نجات دہندہ ہونے کا شرف ملاتو بہت سے ایسے کام کر گئے جو ناممکن دکھائی دیتے تھے۔ مولوی عبدالحق بابائے اردو کی وفات کے بعد 1962ء میں انجمن ترقی اردو کے اعزازی سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور پھر انجمن کی ترقی کیلئے صحیح معنوں میں کام کیا۔ انگریزی زبان کی کشش اور یلغار کے سامنے اردو کی اہمیت اور ضرورت کو قائم رکھنا اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش نظر اردو زبان کی نئی اصطلاحیں رائج کرنا‘ اور اردو زبان کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنا کوئی آسان ٹاسک نہ تھا، مگر جمیل الدین عالی نے شب و روز ایک کر کے اردو زبان کی ترقی کیلئے کام کیا اور انجمن ترقی ادب کراچی کے ساتھ پچاس برس کی رفاقت نہایت محبت سے نبھائی۔ اس دور میں کم و بیش ساڑھے تین سو کتب ایسی شائع کروائیں جو اردو لسانیات کے حوالے سے ایک سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آج اگر عدالتی حکم نامے کے مطابق پاکستان کی سرکاری زبان کا درجہ بھی اردو کو مل چکا ہے تو اس کے پیچھے عالی جی جیسے دیوانوں کی اردو زبان سے محبت اور محنت شامل ہے جنہوں نے ہر دور میں اردو زبان کو رائج کرنے کا بیڑا اٹھائے رکھا۔ ایسا ہی ایک اور قابل قدر کارنامہ عالی جی نے یہ سرانجام دیا کہ اردو کالج کراچی سے وابستہ ہوئے تو اسے وفاقی اردو یونیورسٹی تک پہنچایا یعنی ''جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے‘‘ کے مصداق عالی جی نے جو بھی کام کرنے کی ذمہ داری لی،اسے احسن طریقے سے نبھایا اور اسے دوسروں کیلئے مثال بنا دیا۔ان کی شخصیت کا ایک اور روپ کالم نگار کا ہے۔ مقامی اخبار میں پچاس برس تک اپنا کالم ''نقار خانے میں‘‘ لکھتے رہے۔ کالم نگاری میں بھی ان کا اپنا ہی انداز سامنے آیا۔ اُن کے کالموں میں علمی اور ادبی موضوعات کے ساتھ سماجی، تہذیبی اورسیاسی مسائل کی رنگ آمیزی بھی شامل رہی۔ ایک ہی کالم میں کئی موضوعات پر یوں لکھتے جیسے سامنے بیٹھے ہوئے شخص سے باتیں کر رہے ہوں۔ کالم نگاری سے ہٹ کر عالی جی نے جو نثر لکھی وہ ادبی شہ پارے ہیں مگر اخبار کے کالم میں انہوں نے سادہ اور بے تکلف سا انداز تحریر اپنایا۔ جمیل الدین عالی کا ذکر ہو اور دوہے کی بات نہ ہو، ایسا ممکن نہیں۔ اردو میں جدید دوہے کے بانی بھی عالی جی ہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عالی جی کو ہر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑنے کا کچھ ایسا چسکا تھا کہ انہوں نے اردو شاعری میں بھی وہ صنف چنی جو شعراء کی نظر میں کم کم تھی اور یوں پارٹیشن کے بعد پاکستان میں دوہے کی روایت کے بانی عالی جی ہی بنے اور آج بھی جمیل الدین عالی اور اردو دوہے کا ذکر لازم و ملزوم ہے۔ عالی جی کی زندگی اتنی بھر پور گزری کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک ہی شخص زندگی کے کتنے محاذوں پر جتا رہا اور کہیں بھی اس نے شکست نہیں کھائی۔ جمیل الدین عالی نے ایک طویل، بھرپور اور خوشحال زندگی گزاری۔ جتنا کام، کامیابیاں، پذیرائی اور محبتیں انہوں نے اپنی زندگی میں سمیٹیں، لوگ ان کا خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ عمر کے آخری چند برسوں میں وہ عارضہ قلب سمیت مختلف امراض کا شکار ہو گئے اور 90 سال جینے کے بعد خالق ِ حقیقی سے جا ملے، تاہم اُن کی شخصیت کی اثر انگیزی اور تخلیقی کاموں کی گونج اب تک برقرار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ عالی جس کا فن سخن میں اک انداز نرالا تھا نقد سخن میں ذکر یہ آیا دوہے پڑھنے والا تھا جانے کیوں لوگوں کی نظریں تجھ تک پہنچیں ہم نے تو برسوں بعد غزل کی رو میں اک مضمون نکالا تھا بھٹکے ہوئے عالی سے پوچھو گھر واپس کب آئے گا کب یہ در و دیوار سجیں گے کب یہ چمن لہرائے گا سوکھ چلے وہ غنچے جن سے کیا کیا پھول ابھرنے تھے اب بھی نہ ان کی پیاس بجھی تو گھر جنگل ہو جائے گا حقیقتوں کو فسانہ بنا کے بھول گیا میں تیرے عشق کی ہر چوٹ کھا کے بھول گیا ذرا یہ دورء احساس حسن و عشق تو دیکھ کہ میں تجھے ترے نزدیک آ کے بھول گیا بہت دنوں سے مجھے تیرا انتظار ہے آ جا اور اب تو خاص وہی موسم بہار ہے آ جا کہاں یہ ہوش کہ اسلوب تازہ سے تجھے لکھوں کہ روح تیرے لیے سخت بے قرار ہے آ جا  

آج کا دن

آج کا دن

نیوشیپرڈ(New Shepard)نیو شیپرڈ ایک عمودی ٹیک آف اور لینڈنگ کرنے والاخلائی جہاز تھا جسے بلیو اوریجن نے خلائی سیاحتی پروگرام کیلئے تیار کیا تھا۔ بلیو اوریجن ایمیزون کے بانی جیف بیزوس کی ملکیت ہے۔اس جہاز کا نام امریکہ کے پہلے خلاء باز ایلن شیپرڈ کے نام سے منسوب کیا گیا ہے جو امریکی خلائی ادارہ کے مرکری سیون کے خلا بازوں میں سے ایک تھے۔ 23نومبر2015ء کو100.5کلومیٹر انچائی تک پہنچنے کے بعداس نے کامیابی کے ساتھ عمودی لینڈنگ کی۔اس تجرنے کے بعد یہ کامیاب عمودی لینڈنگ کرنے والا پہلا جہاز بن گیا۔ اس کا ٹیسٹ پروگرام2016ء اور2017ء میں جاری رہا۔میگنڈناؤ قتل عاممیگنڈناؤ قتل(Maguindanao) عام جسے امپاٹوان(Ampatuan) قتل عام بھی کہا جاتا ہے ۔اس قتل عام کا نام اس قصبے کے نام سے منسوب کیا گیا جہاں متاثریں کی اجتمائی قبریں موجود ہیں۔یہ خوفناک واقعہ 23نومبر 2009ء کی صبح میگنڈناؤ،فلپائن کے قصبے امپاٹوان میں پیش آیا۔58افراد بلوآن کے نائب میئر اسماعیل منگودادا تو کیلئے امیدواری سرٹیفکیٹ جمع کروانے جا رہے تھے جب انہیں اغوا کر نے کے بعد قتل کر دیا گیا۔ مارے جانے والے افراد میں منگوداداتو کی بیوی، اس کی دو بہنیں، صحافی، وکلاء، معاونین، اور گاڑی چلانے والے بھی شامل تھے ۔عراق بم دھماکے23نومبر2006ء کو عراق کے صدر سٹی میں ہونے والے دھماکے دراصل کاربموں اور مارٹر حملوں کا ایک سلسلہ تھا ۔صدر شہر کی ایک بستی میں حملے پر چھ کار بم اور دو مارٹر راؤنڈ استعمال کئے گئے۔ان حملوں میں کم از کم 215افراد ہلاک اور تقریباً100زخمی ہوئے۔2003ء میں عراق جنگ کے بعد یہ سب سے مہلک حملوں میں یہ ایک سمجھا جاتا ہے۔حملوں کے بعد عراقی حکومت نے بغداد میں 24گھنٹے کیلئے کرفیو لگا دیا۔عراق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی تجارتی اور مسافر پروازوں کیلئے بند کردیا گیا اور بصرہ میں بھی ڈاک اور ہوئی اڈوں کی سروس کو معطل کر دیا گیا۔مصری طیارہ اغوامصر ی ائیر لائن کی پرواز648ایتھنز کے ایلی نیکن انٹرنیشنل ائیرپورٹ کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔جہاز قاہرہ انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کیلئے تیار تھا کہ 23نومبر1985ء کو ایک دہشت گرد تنظیم نے جہاز کو اغوا کر لیا اور جہاز میں موجود تمام سواریوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ مصری فوجیوں کی طرف جہاز کو بازیاب کروانے کیلئے اس پر چھاپہ مارا گیا جس کے نتیجے میں درجنوں ہلاکتیںہوئیں جس کی وجہ سے فلائٹ648کا اغوا ایوی ایشن کی تاریخ کا مہلک ترین حادثہ تصور کیا جاتا ہے۔

20نومبر بچوں کا عالمی دن

20نومبر بچوں کا عالمی دن

دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی تربیت اور مذہبی تربیت سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ''یونیورسل چلڈرن ڈے ‘‘منانے کا اعلان 1954ء میں اقوامِ متحدہ میں کیا گیا۔اقوام متحدہ نے 1954 ء میں تجویز پیش کی تھی کہ دنیا بھر کے ممالک 20نومبر کو بچوں کی فلاح و بہبود کے طور پر منائیں۔ اس تجویز پر جنرل اسمبلی نے 1959ء کو بچوں کے حقوق کا ڈکلیریشن جاری کیا، جس کے بعد اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس قرارداد کو''ڈکلیریشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ‘‘کہا گیا ،جس کا بنیادی مقصد بچوں کی فلاح و بہبود کو اور معاشرہ میں بچوں کے حقوق کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی اس تجویز کا دنیا کے تمام ہی ممالک نے خیر مقدم کیا۔بچوں کا عالمی دن منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں میں تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ ہم ایک مہذب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لیکن بچوں کو اپنے بڑوں کے نارواسلوک، ظلم و زیادتی اور تشدد کا سامنا ہے، آج بھی دنیا بھر میں ہر سال بچوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، جبکہ اس قسم کا سلوک بچوں کی نشوؤنما پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کیلئے بنائے گئے کنونشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کنونشن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 ملین بچے آبادی کا حصہ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 20 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں تمام سہولیات میسر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کے بارے میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اگر صرف صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ملک میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہر چھ میں سے ایک بچہ انتقال کر جاتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھی اس دن کو منانے کیلئے اپنابھرپور کردارادا کرتا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کیلئے، ان کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں ملک بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔بچے پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں، ہم سب کو مل کر انہیں مرجھانے سے بچانا ہو گا۔تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کانفرنسز بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور جبری مشقت کے خاتمے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔بچوں کے حقوق کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔سب سے پہلے وجہ دور کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔بچوں کے بنیادی حقوق٭-اچھی زندگی کے حقوق ٭-معاشرے میں پہچان کا حق ٭-معیاری تعلیم کا حق٭-مناسب صحت کی دیکھ بھال کا حق ٭-محفوظ ہونے کا حق پاکستان میں 2کروڑ62لاکھ بچے سکول سے باہرپنجاب 11.73 ملین سندھ 7.63 ملینخیبرپختونخواہ 3.63ملینبلوچستان 3.13 ملین         

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ماحولیات پر اثرات کو کم کر سکتے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے۔ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانے پر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔ اے آئی سے متعلقہ اخراج ممکنہ طور پر اس انڈسٹری کو سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔محققین نے حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ ان اخراج کے پیمائش کے پیمانوں کا تعین کیے جانے کے ساتھ ان کو حد میں رکھنے کیلئے نئے ضوابط یقینی بنائے جائیں۔نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان یائوکر رہی تھیں، انہوں نے مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتی ہے، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق 2026 ء تک ڈیٹا سینٹرز، کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بجلی کی کھپت سالانہ عالمی توانائی کے استعمال کا 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو تقریباً جاپان جیسے پورے ملک کی استعمال شدہ بجلی کے برابر ہے۔ مصنوعی ذہانت کی توانائی کے استعمال کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے؟کے سوال کے جواب میں یوان یائو جو ییل اسکول آف دی انوائرمنٹ میں صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیںکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔ توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پر کن طریقوں سے اثر ڈالتی ہےتوانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ماحول کیلئے مثبت پہلو مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ان اثرات کی درست مقدار معلوم نہ ہو، ان چیلنجز کو مؤثر طریقے سے کم یا حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کو شفاف کاربن کاؤنٹنگ ٹولز تیار کرکے حل کیا جا سکتا ہے ۔  

آج کا دن

آج کا دن

لوزان معاہدے کا آغاز20 نومبر1922ء کو ترکی کی خود مختاری پر مبنی لوزان معاہدے کا آغاز سوئس شہر لوزان میں ہوا۔اس کانفرنس میں ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ عصمت ان اونو نے کی۔ جنگ عظیم اوّل کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایاجانے والا یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ء سے نافذ العمل ہوا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔کونڈسرمحل میں آتشزدگی20 نومبر 1992ء کو ونڈسر محل میں آگ بھڑک اٹھی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آباد قلعہ اور برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ آگ کی وجہ سے قلعہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ۔اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اس کی مرمت میں کئی سال لگ گئے جس پر36.5ملین پاؤنڈلاگت آئی۔ ایک تخمینے کے مطابق اس آتشزدگی کی وجہ سے کل50ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ونڈو1.0لانچ کی گئیمائیکروسافٹ کی جانب سے 20نومبر 1985ء کو ''ونڈوز1.0‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ یہ مائیکروسافٹ کی جانب سے پرسنل کمپیوٹر کیلئے تیارکردہ پہلا گرافک آپریٹنگ سسٹم تھا۔ امریکہ میں اسے پہلی مرتبہ 1985ء میں مینوفیکچرنگ کیلئے پیش کیا گیا جبکہ یورپی ورژن مئی1986ء میں ریلیز کیا گیا۔ اس ونڈوز میں ملٹی ٹاسکنگ کی سہولت موجود تھی جبکہ ماؤس کا استعمال بھی اسی ونڈوز کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔فارمنگٹن کان حادثہفارمنگٹن کان حادثہ 20نومبر1968ء کو پیش آیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر تقریباً 19کلومیٹر دور فیئر مونٹ میں بھی محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے وقت99کان کن اندر موجود تھے۔21کان کن اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر78 افرادکو کان سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ اس دھماکے کی وجہ کا تعین بھی نہیںکیا جا سکا کہ آخر یہ دھماکہ کیوں ہوا تھا۔ایویو امپیکس فضائی حادثہایویو امپیکس فلائٹ110ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی۔ یہ 20نومبر 1993ء کو جنیوا سے سکوپجے جاتے ہوئے تباہ ہو گئی۔طیارے میں تقریباً 116افراد سوار تھے۔ جہازاوہرڈ ائیر پورٹ کے قریب برفانی طوفان کی وجہ سے اپنے روٹ سے بھٹک گیا اور کیپٹن طیارے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات میں پائلٹ کی لاپرواہی کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔  

کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

وہ شخص جس نے 1940ء میں انگلینڈ کو بچایا اور امریکہ کو جنگ کی تیاری کیلئے موقع مہیا کیا۔ کینیڈا کے گھنے جنگلات میں پیدا ہوا تھا اور اپنی زندگی کے پہلے اڑتیس برس میں اٹکسن کے نام سے مشہور تھا۔ لیکن آج دنیا اسے لارڈ بیور بروک (Lord Beaverbrook)کے نام سے جانتی ہے۔لارڈ بیوربروکنے 1940ء میں انگلینڈ کو بچانے میں کس طرح مدد کی تھی؟ جب لندن لیور پول اوردوسرے شہروں میں جرمنی کے بم پھٹ رہے تھے، وہ دن جب برطانوی سلطنت کی سلامتی مشکوک نظر آتی تھی۔ان ایام میں ونسٹن چرچل نے محسوس کیا کہ اگر جنگی طیاروں کی پیداوار دگنی نہ کی گئی تو انگلینڈ ہار جائے گا۔ تیس دن کے اندر اندر جہازوں کی پیداوار دگنی کرنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ لہٰذا چرچل نے یہ کام انجام دینے کیلئے اس ''معجزہ گر‘‘ کی خدمات حاصل کیں۔ لارڈ بیور بروک نے مئی 1940ء سے5اگست1940ء کے درمیانی عرصے میں برطانوی جہازوں کے پیداوار نو سوماہوار سے اٹھارہ سوماہوار کر دی اور اس طرح انگلینڈ کو جرمنوں کے حملے سے بچا لیا اور آئندہ ایک ہزار سال تک تاریخ کا رخ بدل دیا۔لارڈ بیور بروک نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سکول نہ گیا اور جب سکول جانے لگا تو وہ تعلیم کے بجائے لڑکوں سے لڑنے جھگڑنے میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ وہ سکول میں اس قدر ہنگامہ بپا کرتا کہ تقریباً ہر روز استاد اس کی پٹائی کرتا۔ شروع شروع میں اس نے جس کام پر ہاتھ ڈالا اس میں ناکام رہا۔ ایک بیمہ ایجنٹ کی حیثیت سے وہ ناکام رہا۔ سپلائی کی مشین فروخت کرنے میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے ایک اخبار نکالا مگر وہ بھی نہ چل سکا۔ ایک لاء سکول میں داخل ہونے کیلئے اس نے امتحان دیا تو اس میں بھی پاس نہ ہو سکا۔بیس برس کی عمر میں وہ بھوکا ننگا تھا۔ لیکن تیس برس کی عمر میں اس کے پاس لاکھوں روپے تھے۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ اسے کینیڈا میں ایک بنکر کے پاس بطور سیکرٹری ملازمت مل گئی۔ پھر اس نے اپنی محنت کی بدولت کئی بنک، لوہے کے کارخانے اور بجلی گھر قائم کر لئے۔ دس برس میں اس کے پاس اتنا روپیہ آ گیا کہ کینیڈا کا کوئی دوسرا دولت مند اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس سے بھی بڑی فتوحات پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔وہ کینیڈا چھوڑ کر انگلینڈ چلا آیا اور سیاست میں حصہ لینے لگا۔ اس نے ایک سنسنی خیز سیاسی تحریک شروع کی اور پارلیمان کا ممبر منتخب ہو گیا۔ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کیلئے اس نے لندن کا ایک اخبار ڈیلی ''ایکسپریس‘‘ خرید لیا۔ پہلے سال اسے اس اخبار میں 20پونڈ خسارہ اٹھانا پڑا۔ دوسرے سال یہ خسارہ ایک تہائی رہ گیا اور آخر میں اس سے سالانہ 20پونڈ نفع کمانے لگا۔ اس نے اخبار میں سنسنی خیز واقعات شائع کرکے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ وہ اپنے اخبار کے صحافیوں اور اس میں مضامین لکھنے والوں کو تحائف دیتا رہتا اور گھوڑے کی ریس پر اتنے اچھے اندازے شائع کرتا جو عموماً صحیح ثابت ہوتے۔ڈیلی ایکسپریس کی اشاعت700فیصد بڑھ گئی۔ یہ 3لاکھ سے 25لاکھ ہو گئی۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اخبار کی اشاعت نہیں۔ کامیابی کے نشے میں چور لارڈ بیور بروک نے ایک اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ خرید لیا اور ایک تیسرا اخبار ''سنڈے ایکسپریس‘‘ خود جاری کیا۔ برطانوی وزارت کو بنانے اور توڑنے میں اب لارڈ بیور بروک کو بہت عمل دخل تھا۔ لائیڈ جارج کو برطانیہ کا وزیراعظم بنانے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ایک چیز جس کا وہ دلی طور پر متمنی تھا اسے مل نہ سکی، وہ برطانیہ کا وزیراعظم بننا چاہتا تھا وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اسے نظر انداز کیا جائے لہٰذا اس نے اپنے آپ پر ایک انعامی تنقیدی مضمون کا اعلان کیا۔ یہ انعام اس کے ایک ملازم نے حاصل کیا۔جب وہ انگلینڈ کے ایک ذہین کارٹونسٹ ڈلوڈلو نے ایک دوسرے اخبار میں لارڈ بیور بروک پر حملہ کیا تو لارڈ بیور بروک نے اس سے کہا ''لوؔ! اگر تم میرے اخبار میں ملازم ہو کر کارٹونوں کے ذریعے میرا مذاق اڑائو تو میں تمہیں سالانہ دس ہزار پونڈ دیا کروں گا‘‘ ۔لوؔ نے یہ پیشکش قبول کر لی وہ اکثر اپنے مالک کے مضحکہ خیز کارٹون بنایا کرتا تھا۔1943ء میں لارڈ بیورک نے چرچل کی وزارت میں یکے بعد دیگرے پانچ وزارتیں سنبھالیں۔ پہلے وہ ہوائی جہازوں کی پیداوار بڑھانے کے شعبے کا وزیر تھا پھر وہ وزیر ریاست اور پھر پیداوار کا وزیر بنایا گیا۔ اس کا آخری عہدہ لارڈ پریوی سپل کا تھا۔انگلینڈ میں لارڈ بیور بروک کو اکثر'' دی بیور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنا موجودہ نام اس نے اس لئے منتخب کیا ہے کہ کینیڈا میں بچپن کے ایام میں وہ اکثر بیوربروک نامی ایک ندی سے مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ وہ ہر روز گھڑ سواری کرتا ہے اور گھڑ سواری کے دوران میں حبشیوں کے مذہبی گیت گاتا رہتاتھا۔ایک زمانے میں دو حجام بیک وقت لارڈ بیور بروک پر '' مصروف کار‘‘ رہتے تھے۔ ایک اس کی شیو بناتا اور دوسرااس کے سر کے بال تراشتا، آخر وقت بچانے کی خاطر ایک برقی بال تراش خرید لیا اور وہ اب اپنے سر کی حجامت بھی خود ہی کرتاتھا۔ایک زمانے میں اس نے ایک چھوٹا سا ریڈیو خریدا اور اسے ایک دھاگے میں پرُوکر اپنے گلے میں لٹکا لیا۔ وہ موسیقی کے دھن پر اکثر رقص کرتا رہتا۔ اس نے اپنے مکان کے ہر کمرے میں ٹیلی فون لگوا رکھے تھے۔ ان میںغسل خانے بھی شامل ہیں۔ پانی کے ٹب میں بیٹھا وہ اکثر دیر دیر تک ٹیلی فون پر باتیں کرتا رہتا ۔وہ آٹھ پونڈ میں جوتوں کا جوڑا خریدا کرتا لیکن اس کا سوٹ جوتوں سے نصف قیمت کا ہوتا تھا۔ اس کی قمیص بڑے قیمتی کپڑے کی ہوتی مگر جب کسی کف کا کوئی بٹن ٹوٹ جاتا تو وہ اس کی جگہ سیفٹی پن استعمال کرتا تھا۔لارڈ بیور بروک نے اپنے مکان کے قریب قبروں پر نصب کیا جانے والا صلیب کا ایک بڑا سا نشان لگوا رکھا تھا جو رات کے وقت بلبوں کی روشنی میں جگمگاتا رہتا۔لارڈ بیور بروک کا کہنا تھا کہ یہ نشان اسے احساس دلاتا رہتا ہے کہ وقت بھاگا جا رہا ہے اور ہمیں ہر لمحے سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ موت ہماری گھاٹ میں بیٹھی ہے۔