ڈیجیٹل ٹوئن:کل کا خواب آج کی حقیقت

ڈیجیٹل ٹوئن:کل کا خواب آج کی حقیقت

اسپیشل فیچر

تحریر : وقاص ریاض


جب ہم لفظ '' ٹوئن ‘‘سنتے ہیں تو ذہن میں فوراً دو ایک جیسے انسانوں کا خیال آتا ہے ‘ ایسے بہن بھائی جو چہرے مہرے، عادات اور حرکات میں حیران کن حد تک مشابہ ہوں۔ مگر آج کی دنیا میں خصوصاً ٹیکنالوجی کے دور میں ''ٹوئن‘‘ کا بالکل نیا مفہوم اختیار کر چکا ہے۔ یہ ہیں ڈیجیٹل جڑواں (Digital Twins)یعنی وہ مجازی عکس جو کسی شے یا نظام کا صرف عکس نہیں بلکہ اس کی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹوئنز کیا ہیں؟
ڈیجیٹل ٹوئن دراصل کسی حقیقی نظام، مشین یا جسم کا ورچوئل ہمزاد ہوتا ہے جورئیل ٹائم ڈیٹا سے فیڈ ہو کر بالکل اسی طرح برتاؤ کرتا ہے جیسے اصل شے۔یوں سمجھیے کہ یہ ایک ذہین آئینہ ہے جو صرف عکس نہیں دکھاتا بلکہ اس عکس سے سیکھتا بھی ہے۔ آپ کی ہر حرکت، ہر تبدیلی کا مشاہدہ کر کے آنے والے لمحے کی پیش گوئی کرتا ہے۔یہ محض ایک نظریہ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہے۔ ہوابازی کے شعبے میں جہازوں کے انجنوں کے ڈیجیٹل ٹوئن تیار کیے جاتے ہیں تاکہ کسی خرابی کا اندازہ پہلے ہی لگا لیا جاسکے۔ کار ساز ادارے ڈرائیوروں کے رویے اور ڈیٹا سے سیکھ کر ایسی گاڑیاں تیار کر رہے ہیں جو خود اپنی کارکردگی بہتر بنا سکیں۔ حتیٰ کہ کارخانوں میں بھی پیداوار بڑھانے اور نقصانات کم کرنے کے لیے ڈیجیٹل جڑواں کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
کھیتوں سے کلینک تک
اب یہی ٹیکنالوجی زراعت اور طب کے میدانوں میں نئی راہیں کھول رہی ہے۔ماہرینِ زراعت ڈیجیٹل ماڈلز کے ذریعے یہ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یا زمین کی ساخت میں تبدیلی فصلوں کو کس طرح متاثر کرے گی۔اسی طرح طب میں خاص طور پر دل کی بیماریوں کے علاج میں ڈیجیٹل ٹوئنز نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔آج ممکن ہے کہ کسی مریض کے دل کا عین اسی کی ساخت اور دھڑکن کے مطابق ڈیجیٹل ماڈل بنایا جائے۔ یہ ماڈل بتاتا ہے کہ کوئی مخصوص دوا یا علاج اس دل پر کس طرح اثر انداز ہوگا ، وہ بھی بغیر مریض کو کسی خطرے میں ڈالے۔یوں طب میں ایک نیا باب کھل چکا ہے جہاں علاج تجربے پر نہیں بلکہ پیشگوئی اور ذاتی مطابقت پر مبنی ہے۔
دل کے بعد دماغ کی باری
انسانی دماغ وہ پیچیدہ ترین نظام ہے جو ہماری یادداشت، توجہ، جذبات اور رویے کو کنٹرول کرتا ہے۔عمر ، ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا الزائمر جیسی بیماریاں اس نازک توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ یہاںآرٹیفشل انٹیلی جنس اور ڈیجیٹل ٹوئنز کا امتزاج نئی امیدیں پیدا کر رہا ہے۔ڈیوک یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی، سپین کی نیبریخا یونیورسٹی اورcognifit کے سائنسدانوں نے حال ہی میں ڈیجیٹل کوگنیٹیو ٹوئنزیا دماغی ہمزاد کا تصور پیش کیا ہے۔یہ ایسے ورچوئل ماڈلز ہیں جو انسان کے دماغی افعال، رویے، نیند کے معمولات، جذباتی ردعمل اور روزمرہ عادات کا ڈیٹا جمع کر کے سیکھتے رہتے ہیں۔مصنوعی ذہانت ان تمام معلومات کو جوڑ کر ایک ایسا زندہ ماڈل تشکیل دیتی ہے جو ہر لمحہ اپنی پیش گوئی بہتر بناتا رہتا ہے۔سوچیے اگر ہر شخص کے پاس اپنے دماغ کا ایک ڈیجیٹل ہمزاد ہو ، جو پہلے ہی بتا سکے کہ یادداشت یا توجہ میں کمی کب آنے والی ہے تو علاج اور احتیاط کتنی آسان ہو جائے!
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انقلاب کی بنیاد وہی آلات بن رہے ہیں جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، سمارٹ واچز، فٹ بٹس، اور نیند کے سینسر ۔یہ آلات دل کی دھڑکن، نیند کے معیار، ایکٹویٹی اور دباؤ کے اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں۔اگر یہی ڈیٹا کسی ڈیجیٹل ٹوئن کو مسلسل فراہم کیا جائے تو وہ نہ صرف آپ کی جسمانی بلکہ ذہنی کیفیت کو بھی سمجھ کر فوری تجاویز دے سکتا ہے کہ کب آرام کریں، کب دماغی مشقت کریں اور کب اپنی توجہ کسی مثبت سرگرمی پر مرکوز کریں۔مصنوعی ذہانت اس سارے نظام میں ایک موسیقی کے کنڈکٹر کی طرح کردار ادا کرتی ہے ، ہر آلہ ہر ڈیٹا پوائنٹ کو ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دیتا ہے جو صرف ردِعمل نہیں دیتا بلکہ پیشگی اندازہ لگا کر رہنمائی کرتا ہے۔
دماغی تربیت کا نیا دور
اب تک جو برین ٹریننگ ایپس دستیاب تھیںوہ محض چند عام کھیلوں تک محدود تھیں مگرDigital cognitive ٹوئنز اس سے کہیں آگے کی دنیا ہے۔یہ ایک ایسا متحرک نظام ہے جو ہر شخص کی ذہنی کیفیت، عادات اور ضرورت کے مطابق خود کو ڈھالتا رہتا ہے۔یہ صرف مشق نہیں بلکہ سائنسی شواہد اور ماہرین کی نگرانی میں تیار کردہ مکمل تربیتی نظام ہے۔یوں صحت کی دنیا میں ایک ہی نسخہ سب کے لیے کے بجائے ہر شخص کے لیے الگ نسخہ کا نظریہ سامنے آ رہا ہے ۔یقیناً اس نئے نظام کے ساتھ کچھ بڑے سوالات بھی اٹھتے ہیں مثلاًمصنوعی ذہانت کے فیصلے کتنے شفاف اور اخلاقی ہوں گے؟بہرحال حالیہ تحقیقی مطالعات ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے درست استعمال سے ذہنی کمزوری اور یادداشت کی خرابی کے امکانات نمایاں طور پر کم کیے جا سکتے ہیں۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
علم ریاضی کی ترقی میں مسلم ریاضی دانوں کا حصہ

علم ریاضی کی ترقی میں مسلم ریاضی دانوں کا حصہ

ریاضی انسانی تہذیب کی قدیم ترین سائنسی شاخوں میں سے ایک ہے۔ مصری، بابل اور یونانی تہذیبوں میں اس علم کی بنیادیں رکھی گئیں مگر جس دور میں ریاضی نے منظم سائنسی اور نظریاتی ترقی کی وہ اسلامی تہذیب کا سنہرا دور تھا۔ ساتویں صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک جب یورپ علمی زوال میں تھا اُس وقت مسلم دنیا میں بغداد، دمشق، بخارا، سمرقند، قاہرہ، قرطبہ اور غرناطہ جیسے علمی مراکز میں ریاضی کے نئے در وا ہو رہے تھے۔ مسلمانوں نے نہ صرف یونانی، ہندی اور ایرانی علوم کا ترجمہ کیا بلکہ ان میں اضافے اور اصلاحات کے ذریعے جدید ریاضی کی بنیاد رکھی۔الخوارزمی: الجبرا کا بانیمحمد بن موسیٰ الخوارزمی (780-850ء) کو الجبرا کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بغداد کے بیت الحکمہ میں مامون الرشید کے دور میں کام کرتے تھے۔ ان کی مشہور کتاب ''الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ‘‘نے ریاضی کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس سے لفظ ''الجبر‘‘ نکلاجو بعد میں یورپی زبانوں میں Algebra بن گیا۔الخوارزمی نے پہلی بار ریاضی کے مساواتی مسائل کو منظم طریقے سے حل کرنے کا طریقہ دیا۔انہی کے نام سے لفظ Algorithm بھی نکلا جو آج کمپیوٹر سائنس کی بنیادی اصطلاح ہے۔الخوارزمی کی دیگر تصانیف مثلاً ''کتاب الجمع و التفریق بالحساب الہندی‘‘ میں ہندسوں کے استعمال کا ذکر ہے جس کے ذریعے ہندسے (0 تا 9) عرب دنیا سے یورپ پہنچے اور آج کے Arabic numeralsکہلاتے ہیں۔الکندیابویوسف یعقوب بن اسحاق الکندی (801-873ء) نے ریاضی کو فلسفیانہ تجزیے کا ذریعہ بنایا اور علمِ موسیقی، منطق اور طبیعیات میں ریاضیاتی اصولوں کا اطلاق کیا۔ الکندی نے ہندسوں کے تناسب، زاویوں اور اشکال کے باہمی تعلقات پر گہرے مطالعے کیے۔ ان کا شمار اُن اولین سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کرپٹوگرافی یعنی رمزیات کی ریاضیاتی بنیاد رکھی۔ثابت بن قرہ ثابت بن قرہ (826-901ء) حرّان کے رہنے والے تھے اور یونانی ریاضی دان اقلیدس اور ارشمیدس کے نظریات کے نقاد و مفسر تھے۔ انہوں نے اعدادِ اوّلیہ، جیومیٹری اور میکانکس پر گرانقدر کام کیا۔ ثابت بن قرہ نےFriendly Numbers (دوستانہ اعداد) کا نظریہ پیش کیا جو بعد میں مغربی ریاضی میں بھی زیرِ بحث آیا۔ عمر خیام: الجبرا اور جیومیٹری مشہور فارسی شاعر عمر خیام (1048- 1131ء) صرف شاعرنہ تھے ایک عظیم ریاضی دان، ماہر فلکیات اور فلسفی بھی تھے۔ ان کی کتاب ''رسالۃ فی شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس‘‘نے جیومیٹری میں نئے تصورات متعارف کروائے۔ عمر خیام نے مکعب مساوات (Cubic Equations) کے حل کے لیے جیومیٹری کا استعمال کیا اور ایسا طریقہ وضع کیا جو جدید الجبرا میں ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ان کی تیار کردہ شمسی تقویم بھی اپنی درستگی کے لحاظ سے جدید گریگورین کیلنڈر سے بہتر تھی۔ اس کیلنڈر کا حساب بھی ریاضیاتی اصولوں پر مبنی تھا۔البیرونی: ریاضی اور فلکیات ابوریحان محمد بن احمد البیرونی (973-1048ء ) ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور طبیعیات کے جامع عالم تھے۔ انہوں نے زمین کے radius کا حساب حیرت انگیز درستگی کے ساتھ لگایا۔ البیرونی نے دائرے کے محیط اور زاویے کے باہمی تعلقات پر تحقیق کی اور ان کے کام نے بعد میں یورپ میں نیوٹن اور کیپلر جیسے سائنسدانوں کے لیے راہ ہموار کی۔ابن الہیثمابوعلی الحسن بن الہیثم (965-1040ء) جنہیں لاطینی میں Alhazen کہا جاتا ہے Optics کے بانی شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے روشنی، عکس اور زاویہ انعکاس پر ریاضیاتی بنیادوں پر تحقیق کی۔ ان کی کتاب ''کتاب المناظر‘‘ نے یورپ میں صدیوں تک ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم کو متاثر کیا۔ انہوں نے Parabola اور جیومیٹرک ساختوں پر بھی کام کیا جو بعد میں کیمرہ، لینز اور ٹیلی سکوپ کی تیاری میں بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔نصیر الدین طوسی: مثلثات کا ماہرخواجہ نصیر الدین طوسی (1201-1274ء) نے مثلثات کو ریاضی کی ایک علیحدہ شاخ کے طور پر متعارف کرایا۔ ان کی کتاب ''التحریر فی اصول اقلیدس‘‘ اور ''الزیج الایلخانی ‘‘فلکیات اور ریاضی دونوں میں بے حد اہم ہیں۔ انہوں نے سائن اور کوسائن کے قوانین کو واضح شکل دی جو آج بھی جیومیٹری اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں۔ مغربی ریاضی میں ان کے نظریات کو بعد میں کوپرنیکس نے اپنی شمسی نظریہ میں استعمال کیا۔ ترجمہ اور تدریسبغداد میں قائم بیت الحکمہ، قاہرہ میں دارالحکمہ اور اندلس میں قرطبہ و غرناطہ کی لائبریریاں علمی مراکز کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔ یہاں مسلمان علما نے یونانی اور سنسکرت ریاضی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان پر اپنے تبصرے شامل کیے۔ یہ تراجم بعد میں لاطینی میں منتقل ہوئے اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے علمی بنیاد بنے۔مسلمان ریاضی دانوں کی خدمات صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ جدید سائنس کی بنیاد ہیں۔یہ تمام کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلم مفکرین نے ریاضی کو محض حساب کتاب نہیں سمجھا بلکہ اسے کائنات کی زبان جانا ۔ انہی کی بدولت یورپ علمی تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آیا اور آج کی جدید سائنس انہی بنیادوں پر کھڑی ہے۔

زمین کے پھیپھڑے بند ہو رہے ہیں

زمین کے پھیپھڑے بند ہو رہے ہیں

کرہ ارض کاربن جذب کرنے کی صلاحیت کھو رہا ہےدنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کا انکار کرنے والوں کی ایک عام دلیل یہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نقصان دہ نہیں بلکہ فائدہ مند گیس ہے۔ اُن کے مطابق جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھتی ہے تو پودے زیادہ تیزی سے اگتے ہیں، زمین سرسبز ہوتی ہے اور زندگی کے لیے زیادہ سازگار ماحول بنتا ہے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اگر انسان فوسل فیول یا معدنی ایندھن جلا کر کاربن خارج کرے تو زمین کو اس سے فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ پودے اس اضافی کاربن کو جذب کر لیتے ہیں۔ مگر یہ دلیل ادھوری اور گمراہ کن ہے۔ جیسا کہ اکثر ایسے دعوؤں کے ساتھ ہوتا ہے، اس میں کچھ سچائی ضرور موجود ہے لیکن تصویر کا بڑا حصہ چھپا دیا جاتا ہے۔ ماحولیاتی ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں کے دوران زمین کے زمینی ماحولیاتی نظام جیسے جنگلات اور چراگاہیں واقعی بڑی مقدار میں کاربن جذب کر رہے ہیں۔ یہی نظام ''کاربن سنک‘‘ کہلاتا ہے ،یعنی زمین کے وہ قدرتی حصے جو فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچ کر اپنے اندر محفوظ کر لیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق 1960ء کی دہائی میں جب پہلی بار یہ دریافت ہوا کہ زمین فضا سے کاربن کا ایک بڑا حصہ جذب کر رہی ہے تو سائنسدان حیران رہ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ جتنی مقدار میں پودے کاربن جذب کرتے ہیں اتنی ہی جلد وہ اسے واپس فضا میں خارج بھی کر دیتے ہیں مگر نتائج نے ظاہر کیا کہ زمین ایک نیٹ ابزوربر (Net absorber) ہے یعنی وہ خارج ہونے والے کاربن کا ایک حصہ اپنے اندر روک لیتی ہے۔یہ نظام اب تک انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے تقریباً چوتھائی سے ایک تہائی حصے کو ہر سال جذب کرتا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر زمین کے یہ قدرتی ذخیرے کاربن کو نہ روکتے تو آج کرۂ ارض کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار کہیں زیادہ ہوتی اور درجہ حرارت میں اضافہ مزید تیز ی سے ہوتا۔ یہ ایک طرح سے زمین کا قدرتی بریک تھا جو انسانی بے احتیاطیوں کے باوجود ماحولیاتی توازن کو کچھ دیر تک برقرار رکھے ہوئے تھا۔لیکن اب یہ بریک ٹوٹنے کے خطرے سے دوچار ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زمین کے کاربن جذب کرنے کے یہ نظام ہمیشہ کے لیے اسی رفتار سے کام نہیں کر سکتا۔ جنگلات، مٹی، گھاس اور دیگر قدرتی ذخیروں کی جذب کی ایک حد ہے۔ جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اس نظام پر دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے مثلاً زیادہ گرمی اور طویل خشک سالی درختوں کی افزائش کو متاثر کرتی ہے۔ جنگلات میں لگنے والی شدید آگ ان درختوں کو جلا دیتی ہیں جو برسوں سے کاربن ذخیرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ درخت تباہ ہوتے ہیں دوسری طرف ان کے جلنے سے دوبارہ کاربن فضا میں شامل ہو جاتا ہے۔ یہی عمل ان ذخائر کو کاربن جذب کرنے کے بجائے خارج کرنے والابنا دیتا ہے۔اسی طرح آرکٹک خطے میں برف کے پگھلنے سے زمین کی گہرائیوں میں محفوظ نامیاتی مادے گلنے سڑنے لگے ہیں اور وہ بڑی مقدار میں میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کر رہے ہیں۔ میتھین ایک ایسی گیس ہے جو گرمی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ دیر تک روکتی ہے۔ اس طرح زمین کے قدرتی پھیپھڑے جو اَب تک فضا کو صاف رکھتے تھے، خود آلودگی پھیلانے لگے ہیں۔تازہ ترین مشاہدات مزید تشویشناک ہیں۔ 2023ء اور 2024ء میں ہونے والے مطالعات کے مطابق زمین کا مجموعی زمینی کاربن سنک تقریباً ختم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ سائنسدان ابھی اس کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا یہ وقتی تبدیلی ہے یا زمین واقعی اس مقام پر پہنچ چکی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔اگر یہ رجحان مستقل ثابت ہوا تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ زمین کا درجہ حرارت پہلے ہی صنعتی دور سے 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے، اگر قدرتی کاربن سنک اپنی صلاحیت کھو دیتا ہے تو فضا میں کاربن کی مقدار زیادہ تیزی سے بڑھے گی، برف پگھلے گی، سمندر گرم ہوں گے اور شدید موسموں، جیسا کہ طوفان، بارشیں، ہیٹ ویوز اور خشک سالی مزید بڑھ جائے گی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین کے اس قدرتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے جنگلات کے تحفظ، درختوں کی افزائش، زمین کے پائیدار استعمال اور فوسل فیول پر انحصار کم کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ اگر ہم نے یہ موقع کھو دیا تو زمین کی فضا میں کاربن کا توازن ہاتھ سے نکل جائے گا ۔یہ سچ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پودوں کے لیے خوراک کی حیثیت رکھتی ہے لیکن صرف اس صورت میں جب پانی، درجہ حرارت اور غذائی اجزاکا توازن برقرار ہو۔ جب گرمی اور خشک سالی کی شدت بڑھ جائے تو اضافی کاربن فائدے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، پودوں کی نشوونما رک جاتی ہے، فصلیں کمزور ہو جاتی ہیں اور زمین بنجر ہونے لگتی ہے۔یعنی وہی گیس جسے ماحولیاتی تبدیلیوں کے منکر زمین کے لیے اچھا قرار دیتے ہیں،زمین کے قدرتی توازن کو برباد کر رہی ہے۔ کاربن میں اضافے سے وقتی طور پر سبزہ بڑھ سکتا ہے لیکن لمبے عرصے میں یہی سبزہ زرد ہو کر زمین کو مزید گرم کر دیتا ہے۔ سائنسدان اب اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ مختلف خطے جیسے ایمیزون کے جنگلات، افریقی سوانا، برفانی ٹنڈرا اور ایشیائی مون سون زون زمین کے کاربن توازن میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تحقیقات کا مقصد یہ سمجھنا ہے کہ ہم کب تک قدرت کے اس تحفے پر انحصار کر سکتے ہیں اور کب ہمیں مکمل طور پر اپنی روش بدلنی ہوگی۔آخرکار زمین کا نظام بھی ایک جسم کی طرح ہے، اگر ہم اسے مسلسل زہر دیتے رہیں تو ایک وقت آئے گا جب وہ اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا۔ یہی لمحہ زمین کے لیے نہیں انسانیت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہوگا۔اگر کاربن سنک ختم ہو گیا تو؟٭فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تیزی سے بڑھے گی۔٭درجہ حرارت میں تیز اضافہ ہوگا۔ ٭ہیٹ ویو، خشک سالی، سیلاب عام ہوں گے۔٭زمین کا قدرتی توازن ٹوٹ سکتا ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

گن پاؤڈرسازشانگلینڈ میں یہ ایک بڑی سازش تھی جسے کیتھولک باغیوں نے 5 نومبر 1605ء کو انجام دینے کی کوشش کی۔ مقصد یہ تھا کہ پروٹسٹنٹ بادشاہ جیمز اول اور پارلیمنٹ کے ارکان کو ہلاک کر کے حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ سازش کے مرکزی کردار گائی فاکس کو پارلیمنٹ کے تہہ خانے سے گرفتار کر لیا گیا جہاں دھماکے کے لیے بارود چھپایا گیا تھا۔ اس منصوبے کی ناکامی کے بعد برطانیہ میں ہر سال ''Guy Fawkes Night‘‘ کے طور پر یہ رات آتشبازی اور مشعل بردار جلوسوں سے منائی جاتی ہے۔ یہ واقعہ برطانیہ کی مذہبی و سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ روس باخ کی جنگ یہ جنگ 5 نومبر 1757ء کو لڑی گئی جو سات سالہ جنگ کا حصہ تھی۔ پروشیا کے بادشاہ فریڈرک دی گریٹ نے فرانس اور ہولی رومن ایمپائر کی مشترکہ فوج کو فیصلہ کن شکست دی۔ پروشیا کی فوج تعداد میں کم ہونے کے باوجود اپنی شاندار حکمتِ عملی، تیز رفتار گھڑسوار حملوں اور توپ خانے کے مؤثر استعمال کی وجہ سے غالب آئی۔ یہ فتح یورپ میں طاقت کے توازن کو پروشیا کے حق میں لے آئی اور فریڈرک کی عسکری قابلیت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ سوزن بی انتھونی کا ووٹ 5 نومبر 1872ء کو امریکی سماجی رہنما سوزن بی انتھونی نے صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈال کر خواتین کے حقِ رائے دہی کی تحریک میں نئی جان ڈال دی۔ اُس وقت امریکہ میں خواتین کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں تھی لہٰذا انہیں اس اقدام پر گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں اُن پر مقدمہ چلایا گیا اور جرمانہ عائد کیا گیا۔مگر یہ واقعہ عورتوں کے سیاسی حقوق کی تحریک میں سنگِ میل ثابت ہوا جس کے نتیجے میں 1920 ء میں امریکی آئین میں 19ویں ترمیم کے ذریعے خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ روزویلٹ کی ہیٹرک5 نومبر 1940ء کو امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ مسلسل تیسری بار صدارتی انتخاب جیت گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی امریکی صدر کو تین بار منتخب کیا گیا۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران عوام نے روزویلٹ کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ بعد ازاں امریکہ اتحادی طاقتوں کی مدد کے لیے جنگ میں شامل ہوا۔ اس انتخاب نے امریکی سیاست میں طویل مدتی تبدیلیاں پیدا کیں جس کے نتیجے میں بعد میں آئینی ترمیم کر کے صدر کیلئے زیادہ سے زیادہ دو مدتوں کی حد مقرر کی گئی۔ فورٹ ہڈ فائرنگ 5 نومبر 2009ء کو امریکی ریاست ٹیکساس کے فوجی اڈے فورٹ ہڈ پر ایک فوجی ماہرِ نفسیات میجر نضال حسن نے فائرنگ کر کے 13 افراد کو ہلاک اور 30 سے زیادہ کو زخمی کر دیا۔ یہ واقعہ امریکی فوجی تنصیبات پر ہونے والے سب سے خطرناک داخلی حملوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس سانحے کے بعد امریکہ میں فوجی نظم و ضبط، سکیورٹی اقدامات اور اہلکاروں کی ذہنی صحت کے نظام پر گہری نظرِ ثانی کی گئی۔ 

دماغی صحت کے دشمن:پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات

دماغی صحت کے دشمن:پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات

ہم اپنی جسمانی صحت کے معاملے میں اکثر دل، جگر، گردوں اور بلڈ پریشر پر توجہ دیتے ہیں مگر ایک ایسا عضو ہے جس کی صحت کو ہم عام طور پر نظرانداز کر دیتے ہیں وہ ہے دماغ۔ہمارا دماغ ہماری سوچ، یادداشت، فیصلے اور شخصیت کو متعین کرتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں الزائمر اور ڈیمنشیا جیسے امراض کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ماہرینِ صحت کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔اب امریکہ کی ورجینیا ٹیک یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق سے یہ انکشاف کیا ہے کہ ہماری خوراک میں شامل چند عام مگر خطرناک جنک فوڈز دماغی صحت کی سب سے بڑی دشمن ثابت ہو رہی ہیں۔یہ تحقیق یونیورسٹی آف مشی گن ہیلتھ اینڈ ریٹائرمنٹ سٹڈی کے اعداد و شمار پر مبنی ہے جس میں 4750 امریکی شہریوں کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 55 برس یا اس سے زیادہ تھیں۔یہ مطالعہ 2014ء سے 2020ء تک جاری رہا اور ہر دو سال بعد مختلف ٹیسٹوں کے ذریعے شرکاکی یادداشت، ارتکاز اور دماغی کارکردگی پرکھی گئی۔تحقیق کا بنیادی مقصد یہ جاننا تھا کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز یعنی وہ غذائیں جو فیکٹریوں میں کیمیکل، مصنوعی ذائقوں، چکنائیوں اور پریزرویٹیوز کے ذریعے تیار کی جاتی ہیں دماغی صحت پر کس قدر اثرانداز ہوتی ہیں۔پچھلی دہائی میں متعدد مطالعات یہ واضح کر چکے ہیں کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کا زیادہ استعمال موٹاپے، ٹائپ ٹو ذیابیطس، امراضِ قلب، ڈپریشن حتیٰ کہ قبل از وقت موت کے خطرے کو بھی بڑھاتا ہے۔تاہم اب تک یہ بات واضح نہیں تھی کہ ان میں سے کون سی خاص اقسام دماغ کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔ورجینیا ٹیک کی اس تازہ تحقیق نے پہلی بار واضح کیا ہے کہ الٹرا پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات دماغی صحت کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مطالعے کے نتائج کے مطابق وہ افراد جو روزانہ پراسیسڈ گوشت (جیسے ساسجز، برگر پیٹیز یا ڈبہ بند گوشت) کی ایک اضافی سرونگ استعمال کرتے تھے ان میں دماغی صلاحیتوں میں کمی کا خطرہ 17 فیصد زیادہ پایا گیا۔اسی طرح وہ شرکاجو روزانہ ایک اضافی بوتل کولڈ ڈرنک یا میٹھے مشروب کی پیتے تھے ان میں یادداشت اور توجہ میں کمی کا خطرہ 6 فیصد زیادہ رہا۔تحقیق کے دوران شرکاکی فوری اور تاخیر سے یاد کرنے کی صلاحیت، حسابی ذہانت اور ارتکازکی کارکردگی کو جانچنے کے لیے مختلف ٹیسٹ کیے گئے جن میں الٹا گننا اور تسلسل سے اعداد منفی کرنا شامل تھا۔مجموعی طور پر 1363 افراد میں علمی زوال یا ذہنی کمزوری (Cognitive Impairment) کی علامات ظاہر ہوئیں۔ہر پراسیسڈ فوڈ مضر نہیںتحقیق کا ایک غیر متوقع نتیجہ یہ بھی سامنے آیا کہ الٹرا پراسیسڈ فوڈز کا مجموعی استعمال دماغی زوال سے نمایاں طور پر وابستہ نہیں تھا۔مثلاً مٹھائیاں، بسکٹ، چپس،اناج یا ڈیری مصنوعات پر مبنی سنیکس کا براہِ راست تعلق ذہنی کمزوری سے ثابت نہیں ہوا۔یعنی نقصان دہ اثرات مخصوص اقسام تک محدود ہیں اور الٹرا پراسیسڈ گوشت کے ساتھ میٹھے مشروبات کا امتزاج گویا دماغ کے لیے ڈبل دھماکہ ثابت ہوتا ہے۔ماہرین کے مطابق پراسیسڈ گوشت میں سچوریٹڈ چکنائی، سوڈیم، نائٹریٹس اور دیگر کیمیائی اجزاکی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جو خون کی نالیوں کو سخت کرتے ہیں، دماغ میں آکسیجن کی فراہمی کو متاثر کرتے ہیں اور سوزش بڑھاتے ہیں۔اس کے نتیجے میں دماغی خلیات متاثر ہوتے ہیں اور یادداشت کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے ۔ میٹھے مشروبات دوسری طرف خون میں شکر کی سطح کو غیر متوازن کر دیتے ہیں۔ بار بار شوگر کی زیادتی انسولین کے ردعمل کو کمزور کرتی ہے اور دماغ کے خلیات کے درمیان رابطے کی کارکردگی کو متاثر کرتی ہے جس سے الزائمر اور ڈیمنشیا کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔تحقیق کی شریک مصنفہ پروفیسر برینڈا ڈیوی کے مطابق:زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو آپ خود بدل سکتے ہیں۔ خوراک میں اعتدال اور توازن ہی صحت کا بہترین نسخہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اگر لوگ صرف پراسیسڈ گوشت اور میٹھے مشروبات میں کمی لے آئیں تو وہ نہ صرف دماغی بلکہ مجموعی جسمانی صحت میں بھی نمایاں بہتری لا سکتے ہیں۔پاکستان کے تناظر میں خطرے کی گھنٹییہ مسئلہ صرف مغربی دنیا تک محدود نہیں، ہمارے ملک میں بھی فاسٹ فوڈ کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔فریزر میں رکھے ریڈی ٹو کُک کھانے، نگٹس، ساسجز، برگر پیٹیز اور روزانہ کولڈ ڈرنک پینے کا رجحان عام ہو چکا ہے۔چونکہ ہمارے معاشرے میں پہلے ہی ذیابیطس، بلڈ پریشر اور موٹاپے کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے ایسے میں پراسیسڈ فوڈز کا بے دریغ استعمال دماغی امراض کی شرح میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔کیا کیا جائے؟پروفیسر ڈیوی اور دیگر ماہرین کا مشورہ یہ ہے کہ مکمل پرہیز نہیں کر سکتے تو دانشمندانہ اعتدال اپنائیں:٭ پراسیسڈ گوشت کے بجائے قدرتی پروٹین (چکن، مچھلی، انڈے، دالیں) استعمال کی جائیں۔٭ کولڈ ڈرنکس کے بجائے پانی، لیموں پانی یا تازہ پھلوں کا جوس استعمال کریں۔٭اگر کبھی فاسٹ فوڈ کھایا بھی جائے تو ساتھ سبزیوں اور فائبر سے بھرپور غذا ضرور شامل کریں تاکہ نقصان کم ہو۔اس تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دماغی صحت کا تعلق صرف ذہنی دباؤ، نیند یا بڑھاپے سے نہیں ہماری روزمرہ خوراک سے بھی ہے ۔ہم جو کچھ کھاتے ہیں وہی ہماری یادداشت، سوچ اور شعور کو متاثر کرتا ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ بڑھاپے میں ہمارا ذہن تروتازہ، یادداشت مضبوط اور سوچ واضح رہے تو ہمیں اپنی خوراک کے معاملے میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرنا پڑے گا۔چاہے اس کے لیے ہمیں اپنا پسندیدہ پیزا، برگر یا کولڈ ڈرنک سے انکار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔  

آج کا دن

آج کا دن

توت عنخ آمون کی دریافت4 نومبر 1922ء کو برطانوی ماہرِ آثارِ قدیمہ ہاورڈ کارٹر نے مصر کی وادیِ ملوک میں فرعون توت عنخ آمون کا مقبرہ دریافت کیا۔ یہ دریافت قدیم مصر کی تاریخ میں آثارِ قدیمہ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ کارٹر اور ان کی ٹیم کئی سال سے فرعونی مقبروں کی تلاش میں مصروف تھی۔ 4 نومبر کو جب انہیں ایک زینہ ملا جو زیرِ زمین جا رہا تھا تو اندازہ ہوا کہ وہ کسی اہم مقام تک پہنچ گئے ہیں۔ بعد ازاں 26 نومبر کو جب مقبرے کا دروازہ کھولا گیا تو اندر موجود خزانہ، زیورات، تخت، سونا اور شاہی ممی نے دنیا کو حیران کر دیا۔ یہ واحد فرعونی مقبرہ تھا جو تقریباً مکمل حالت میں ملا۔ہنگری پر سوویت یونین کا حملہ1956ء میں ہنگری کے عوام نے سوویت تسلط کے خلاف بغاوت کی جسے ہنگرین ریولوشن کہا جاتا ہے۔ ابتدا میں مظاہرے اصلاحات اور آزادیٔ اظہار کے لیے تھے مگر جلد ہی یہ تحریک سوویت اقتدار کے خاتمے کا مطالبہ بن گئی۔ 4 نومبر کو سوویت یونین نے بغاوت کچلنے کے لیے ٹینک اور ہزاروں فوجی بوداپیسٹ بھیجے۔ ہنگری کی حکومت گر گئی، وزیراعظم ایمری ناگی کو گرفتار کر کے بعد میں پھانسی دی گئی۔ اس فوجی کارروائی میں تقریباً 2500 ہنگرین باشندے مارے گئے جبکہ دو لاکھ سے زائد جلاوطن ہوگئے۔ امریکی سفارت خانے پر قبضہ4 نومبر 1979ء کو ایرانی طلبہ نے تہران میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور 52 امریکی سفارت کاروں کو یرغمال بنا لیا۔ یہ واقعہ ایرانی انقلاب کے فوراً بعد پیش آیا جب شاہ ایران امریکہ میں تھا اور انقلابی طلبہ نے مطالبہ کیا کہ امریکہ شاہ کو ایران واپس بھیجے تاکہ اس پر مقدمہ چلایا جا سکے۔ یرغمالیوں کو 444 دن تک تحویل میں رکھا گیا ۔ یہ بحران امریکہ اور ایران کے تعلقات میں گہری دراڑ کا سبب بنا۔ اس واقعے نے امریکی سیاست میں بھی بھونچال پیدا کیا جس کے نتیجے میں صدر جمی کارٹر 1980ء کا انتخاب ہار گئے۔ اسحاق رابین کا قتل4 نومبر 1995 ء کو اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کو تل ابیب میں ایک ریلی کے دوران ایک شدت پسند اسرائیلی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ رابین نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے ساتھ اوسلو معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دیرپا امن قائم کرنا تھا۔ قدامت پسند حلقے اس معاہدے کے مخالف تھے۔رابین کے قتل کے بعد اسرائیل بھر میں سوگ کی فضا چھا گئی جبکہ دنیا بھر کے رہنماؤں نے رابین کو '' امن کا شہید‘‘ قرار دیا۔ باراک اوباما صدر منتخب4 نومبر 2008ء کو باراک حسین اوباما نے امریکہ کے صدارتی انتخابات جیت کر تاریخ رقم کی۔ وہ امریکہ کے پہلے افریقی نژااد صدر بنے۔ ان کا نعرہ ''Yes we can‘‘ امریکی عوام میں امید اور تبدیلی کی علامت بن گیا۔ اوباما نے ریپبلکن امیدوار جان مکین کو شکست دی اور 20 جنوری 2009ء کو منصب سنبھالا۔ ان کی جیت نے امریکہ کے نسل پرستی کے تاریک ماضی پر ایک نئی بحث چھیڑ دی اور دنیا بھر میں ان کی قیادت کو امید کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔۔ مصر میں روسی طیارہ حادثہ4 نومبر 2015 ء کو روسی ایئرلائن میٹرو جیٹ کا طیارہ سینائی میں حادثے کا شکار ہوا۔ طیارہ شرم الشیخ سے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ جا رہا تھا کہ پرواز کے صرف 23 منٹ بعد ہوا میں پھٹ گیا۔ طیارے میں 224افراد سوار تھے ، تمام ہلاک ہو گئے۔ بعد ازاں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ دہشت گرد حملہ تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔   

’’جسمانی سرگوشیاں‘‘ بیماری کی پوشیدہ نشانیاں

’’جسمانی سرگوشیاں‘‘ بیماری کی پوشیدہ نشانیاں

رات کے پسینے کینسر کی ابتدائی نشانی ہو سکتے ہیں،ناخن پر نشان کومعمولی نہ سمجھیںانسانی جسم اکثر اپنی زبان میں ہمیں خبردار کرتا ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہم عموماً ان خاموش اشاروں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ماہرین صحت کے مطابق جسم کی کچھ بظاہر معمولی لگنے والی علامات یا ''جسم کے سگنلز‘‘ (Body Whispers)دراصل سنگین بیماریوں کی ابتدائی نشاندہی ہو سکتے ہیں۔ ماہر ڈاکٹروں نے ان نشانیوں کی فہرست جاری کی ہے جنہیں اکثر مریض نظر انداز کر دیتے ہیں، حالانکہ وہ جگر کے مسائل، کینسر، دل کے امراض یا دیگر خطرناک بیماریوں کی طرف اشارہ کر سکتی ہیں۔ ان علامات میں ناخنوں پر ہلکے نشانات، پیٹ کے دائیں جانب مسلسل درد، رات کے وقت غیر معمولی پسینہ آنا، جلد یا آنکھوں کا پیلا پن اور اچانک تھکن یا وزن میں کمی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان خاموش علامتوں پر بروقت توجہ دی جائے تو متعدد مہلک بیماریوں کو ان کے آغاز ہی میں قابو کیا جا سکتا ہے۔ناخن پر معمولی نشان یا رنگت کی تبدیلی ماہرین کا کہنا ہے کہ ناخن دراصل جسم کے اندرونی نظام کا آئینہ ہوتے ہیں۔ مثلاً ناخنوں پر نیلاہٹ جگر یا دل کے نظام میں آکسیجن کی کمی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ زرد رنگت جگر کے مسائل یا فنگل انفیکشن کی علامت ہو سکتی ہے، جبکہ سفید دھاریاں پروٹین کی کمی یا جگر کی خرابی کا عندیہ دے سکتی ہیں۔مسلسل یا معمولی دردڈاکٹروں کے مطابق درد جسم کا الارم سسٹم ہے۔ اگر کوئی درد بار بار ایک ہی جگہ پر ہوتا ہے، چاہے وہ ہلکا ہی کیوں نہ ہو، تو اسے معمولی نہ سمجھیں۔ پیٹ میں مسلسل درد السر، جگر یا لبلبے کی خرابی کا عندیہ دے سکتا ہے۔ کمر کے نچلے حصے میں مسلسل درد گردوں کی بیماری کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔چہرے کی رنگت میں تبدیلیچہرے کا پیلا پن یا بے جان رنگ صرف تھکن نہیںبلکہ خون کی کمی، جگر کی خرابی یا ہارمونل عدم توازن کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر جلد پیلی پڑ جائے تو یہ جگر یا بلڈ سے متعلق بیماریوں کا اشارہ ہے۔ چہرہ یا ہونٹ نیلے پڑ جائیں تو یہ سانس یا دل کے نظام میں خرابی کی علامت ہے۔آنکھوں کے نیچے سوجن اور سیاہ حلقےاکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ نیند کی کمی کی وجہ سے آنکھوں کے نیچے حلقے بن جاتے ہیں، لیکن اگر یہ مستقل رہیں تو معاملہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ گردوں کی خرابی، الرجی یا خون میں نمکیات کی زیادتی ان حلقوں کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی طرح آنکھوں کی پْتلی یا سفیدی میں زردی بھی جگر کے بگڑتے نظام کی علامت ہے۔وزن میں اچانک کمی یا اضافہاگر آپ نے اپنی خوراک یا ورزش میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی اور پھر بھی وزن تیزی سے کم یا زیادہ ہو رہا ہے، تو یہ کسی پوشیدہ بیماری کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔وزن میں تیزی سے کمی عموماً تھائیرائیڈ کی زیادتی، ذیابطیس یا کینسر جیسی بیماریوں سے جڑی ہو سکتی ہے۔ جبکہ وزن میں اچانک اضافہ ہارمونل بگاڑ یا جگر کے سست نظام کا عندیہ ہے۔رات کے پسینے، ممکنہ کینسر کا اشارہاگر آپ کو نیند کے دوران بار بار پسینہ آتا ہے، جبکہ درجہ حرارت معمول کے مطابق ہے، تو یہ محض موسمی اثر نہیں۔ ماہرین کے مطابق رات کے پسینے بعض اوقات لیمفوما (Lymphoma) یا لیوکیمیا (Leukemia) جیسے خون کے کینسر کی ابتدائی علامت ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ تپ دق (TB) اور ہارمونل عدم توازن بھی اس کی بڑی وجوہات ہیں۔مسلسل تھکن کبھی کبھی ہم سمجھتے ہیں کہ نیند پوری نہ ہونے سے جسم تھکا ہوا ہے، لیکن اگر بھرپور آرام کے باوجود بھی تھکن برقرار ہے تو ممکن ہے جسم کسی اندرونی جدوجہد سے گزر رہا ہو۔ آئرن کی کمی، دل کے مسائل یا شوگر کے بگاڑ کی وجہ سے جسم توانائی پیدا نہیں کر پاتا، جس سے تھکن مستقل رہتی ہے۔منہ کی بدبو اگر روزانہ برش کے باوجود منہ سے بدبو آ رہی ہے، تو یہ محض صفائی کا مسئلہ نہیں۔ یہ جگر یا گردوں کی کارکردگی میں کمی کی علامت ہو سکتی ہے۔ جگر جب زہریلے مادوں کو فلٹر کرنے میں ناکام ہوتا ہے تو ان کے اثرات سانس اور لعاب میں ظاہر ہونے لگتے ہیں۔بالوں کا تیزی سے گرنابالوں کا جھڑنا عموماً وٹامنز کی کمی، ذہنی دباؤ یا ہارمونل عدم توازن سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن اگر بال جھڑنے کے ساتھ ساتھ ناخن کمزور اور جلد خشک ہو جائے تو یہ تھائیرائیڈ گلینڈ کے مسائل یا آئرن کی شدید کمی کا اشارہ ہو سکتا ہے۔جسم کا لرزنا یا ہاتھوں کا کانپنااگر بغیر کسی خاص وجہ کے ہاتھ کانپنے لگیں تو اسے بڑھاپے کا حصہ نہ سمجھیں۔ یہ اعصابی نظام کی خرابی یا پارکنسن (Parkinson) بیماری کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح جسم کا بے وجہ کپکپانا بلڈ شوگر کی کمی یا ہارمونز کے بگاڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ڈاکٹروں کا مشورہماہرین کے مطابق، جسم کبھی بھی اچانک بیمار نہیں ہوتا بلکہ بیماری ہمیشہ بتدریج پیدا ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہم ان ابتدائی اشاروں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اگر ہم ان ‘‘جسمانی سرگوشیوں'' کو وقت پر پہچان لیں تو بڑی بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے۔ ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ معمولی سی تبدیلی جیسے بھوک میں کمی، تھکن، رنگت کا بگڑنا یا وزن میں فرق کو نظر انداز نہ کریں۔ سال میں کم از کم ایک مرتبہ عمومی چیک اپ ضرور کروائیں، کیونکہ وقت پر تشخیص، نصف علاج کے برابر ہے۔