ڈیجیٹل ٹوئن:کل کا خواب آج کی حقیقت
اسپیشل فیچر
جب ہم لفظ '' ٹوئن ‘‘سنتے ہیں تو ذہن میں فوراً دو ایک جیسے انسانوں کا خیال آتا ہے ‘ ایسے بہن بھائی جو چہرے مہرے، عادات اور حرکات میں حیران کن حد تک مشابہ ہوں۔ مگر آج کی دنیا میں خصوصاً ٹیکنالوجی کے دور میں ''ٹوئن‘‘ کا بالکل نیا مفہوم اختیار کر چکا ہے۔ یہ ہیں ڈیجیٹل جڑواں (Digital Twins)یعنی وہ مجازی عکس جو کسی شے یا نظام کا صرف عکس نہیں بلکہ اس کی روح کی نمائندگی کرتا ہے۔
ڈیجیٹل ٹوئنز کیا ہیں؟
ڈیجیٹل ٹوئن دراصل کسی حقیقی نظام، مشین یا جسم کا ورچوئل ہمزاد ہوتا ہے جورئیل ٹائم ڈیٹا سے فیڈ ہو کر بالکل اسی طرح برتاؤ کرتا ہے جیسے اصل شے۔یوں سمجھیے کہ یہ ایک ذہین آئینہ ہے جو صرف عکس نہیں دکھاتا بلکہ اس عکس سے سیکھتا بھی ہے۔ آپ کی ہر حرکت، ہر تبدیلی کا مشاہدہ کر کے آنے والے لمحے کی پیش گوئی کرتا ہے۔یہ محض ایک نظریہ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہے۔ ہوابازی کے شعبے میں جہازوں کے انجنوں کے ڈیجیٹل ٹوئن تیار کیے جاتے ہیں تاکہ کسی خرابی کا اندازہ پہلے ہی لگا لیا جاسکے۔ کار ساز ادارے ڈرائیوروں کے رویے اور ڈیٹا سے سیکھ کر ایسی گاڑیاں تیار کر رہے ہیں جو خود اپنی کارکردگی بہتر بنا سکیں۔ حتیٰ کہ کارخانوں میں بھی پیداوار بڑھانے اور نقصانات کم کرنے کے لیے ڈیجیٹل جڑواں کا استعمال عام ہوتا جا رہا ہے۔
کھیتوں سے کلینک تک
اب یہی ٹیکنالوجی زراعت اور طب کے میدانوں میں نئی راہیں کھول رہی ہے۔ماہرینِ زراعت ڈیجیٹل ماڈلز کے ذریعے یہ پیشگوئی کر سکتے ہیں کہ موسمیاتی تغیرات یا زمین کی ساخت میں تبدیلی فصلوں کو کس طرح متاثر کرے گی۔اسی طرح طب میں خاص طور پر دل کی بیماریوں کے علاج میں ڈیجیٹل ٹوئنز نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔آج ممکن ہے کہ کسی مریض کے دل کا عین اسی کی ساخت اور دھڑکن کے مطابق ڈیجیٹل ماڈل بنایا جائے۔ یہ ماڈل بتاتا ہے کہ کوئی مخصوص دوا یا علاج اس دل پر کس طرح اثر انداز ہوگا ، وہ بھی بغیر مریض کو کسی خطرے میں ڈالے۔یوں طب میں ایک نیا باب کھل چکا ہے جہاں علاج تجربے پر نہیں بلکہ پیشگوئی اور ذاتی مطابقت پر مبنی ہے۔
دل کے بعد دماغ کی باری
انسانی دماغ وہ پیچیدہ ترین نظام ہے جو ہماری یادداشت، توجہ، جذبات اور رویے کو کنٹرول کرتا ہے۔عمر ، ذہنی دباؤ، ڈپریشن یا الزائمر جیسی بیماریاں اس نازک توازن کو بگاڑ دیتی ہیں۔ یہاںآرٹیفشل انٹیلی جنس اور ڈیجیٹل ٹوئنز کا امتزاج نئی امیدیں پیدا کر رہا ہے۔ڈیوک یونیورسٹی، کولمبیا یونیورسٹی، سپین کی نیبریخا یونیورسٹی اورcognifit کے سائنسدانوں نے حال ہی میں ڈیجیٹل کوگنیٹیو ٹوئنزیا دماغی ہمزاد کا تصور پیش کیا ہے۔یہ ایسے ورچوئل ماڈلز ہیں جو انسان کے دماغی افعال، رویے، نیند کے معمولات، جذباتی ردعمل اور روزمرہ عادات کا ڈیٹا جمع کر کے سیکھتے رہتے ہیں۔مصنوعی ذہانت ان تمام معلومات کو جوڑ کر ایک ایسا زندہ ماڈل تشکیل دیتی ہے جو ہر لمحہ اپنی پیش گوئی بہتر بناتا رہتا ہے۔سوچیے اگر ہر شخص کے پاس اپنے دماغ کا ایک ڈیجیٹل ہمزاد ہو ، جو پہلے ہی بتا سکے کہ یادداشت یا توجہ میں کمی کب آنے والی ہے تو علاج اور احتیاط کتنی آسان ہو جائے!
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس انقلاب کی بنیاد وہی آلات بن رہے ہیں جو ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں، سمارٹ واچز، فٹ بٹس، اور نیند کے سینسر ۔یہ آلات دل کی دھڑکن، نیند کے معیار، ایکٹویٹی اور دباؤ کے اعداد و شمار جمع کر رہے ہیں۔اگر یہی ڈیٹا کسی ڈیجیٹل ٹوئن کو مسلسل فراہم کیا جائے تو وہ نہ صرف آپ کی جسمانی بلکہ ذہنی کیفیت کو بھی سمجھ کر فوری تجاویز دے سکتا ہے کہ کب آرام کریں، کب دماغی مشقت کریں اور کب اپنی توجہ کسی مثبت سرگرمی پر مرکوز کریں۔مصنوعی ذہانت اس سارے نظام میں ایک موسیقی کے کنڈکٹر کی طرح کردار ادا کرتی ہے ، ہر آلہ ہر ڈیٹا پوائنٹ کو ہم آہنگ کرتے ہوئے ایک ایسا نظام تشکیل دیتا ہے جو صرف ردِعمل نہیں دیتا بلکہ پیشگی اندازہ لگا کر رہنمائی کرتا ہے۔
دماغی تربیت کا نیا دور
اب تک جو برین ٹریننگ ایپس دستیاب تھیںوہ محض چند عام کھیلوں تک محدود تھیں مگرDigital cognitive ٹوئنز اس سے کہیں آگے کی دنیا ہے۔یہ ایک ایسا متحرک نظام ہے جو ہر شخص کی ذہنی کیفیت، عادات اور ضرورت کے مطابق خود کو ڈھالتا رہتا ہے۔یہ صرف مشق نہیں بلکہ سائنسی شواہد اور ماہرین کی نگرانی میں تیار کردہ مکمل تربیتی نظام ہے۔یوں صحت کی دنیا میں ایک ہی نسخہ سب کے لیے کے بجائے ہر شخص کے لیے الگ نسخہ کا نظریہ سامنے آ رہا ہے ۔یقیناً اس نئے نظام کے ساتھ کچھ بڑے سوالات بھی اٹھتے ہیں مثلاًمصنوعی ذہانت کے فیصلے کتنے شفاف اور اخلاقی ہوں گے؟بہرحال حالیہ تحقیقی مطالعات ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے درست استعمال سے ذہنی کمزوری اور یادداشت کی خرابی کے امکانات نمایاں طور پر کم کیے جا سکتے ہیں۔