راہِ ہدایت
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ ختم ہوجاتا ہے اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی ہے (کہ کبھی ختم نہیں ہوگا)اور جن لوگوں نے صبرکیا۔ہم ان کے اعمال کابہت اچھا بدلہ دیں گے ۔ (سورۃ النحل آیت نمبر96)

جڑواں شہروں میں 230 ملی میٹر بارش، نالے بپھر گئے، گاڑیاں بہہ گئیں، انخلا کا حکم


راولپنڈی: (دنیا نیوز) راولپنڈی اور اسلام آباد میں کل رات سے ہونے والی موسلا دھار بارش نے جل تھل ایک کر دیا، نالہ لئی میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث خطرے کے الارم بجا دیئے گئے ہیں اور قریبی آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔


اشتہار

اسلام آباد(خصوصی نیوز رپورٹر،نامہ نگار،دنیا نیوز)برطانیہ نے پاکستانی ائیر لائنز کی پروازوں پر عائد پابندی ختم کردی۔وزیراعظم شہباز شریف نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تحریک انصاف کے ارکان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے ملک کو عالمی سطح پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا ،شکر ہے پی آئی اے پھر برطانوی فضاؤں میں پرواز کرے گی۔

راولپنڈی،کوئٹہ، قلات،ڈی آئی خان (خصوصی نیوز رپورٹر،نامہ نگار،دنیا نیوز،نیوز ایجنسیاں)بلوچستان میں ایک اور بس پر حملے میں 3 مسافر جاں بحق، 12 زخمی، سکیورٹی فورسز کے آپریشن میں فتنہ الہندوستان کے 3 دہشت گرد ہلاک جبکہ میجر شہید ہو گیا۔

لاہور(کرائم رپورٹر، سٹاف رپورٹر سے، اپنے کامرس رپورٹر سے، نمائندگان، نامہ نگاران) پنجاب میں مون سون بارشوں نے ہرطرف تباہی مچادی، لاہور اور دیگر شہروں میں چھتیں، دیواریں گرنے اورکرنٹ لگنے سے ایک ہی خاندان کے پانچ افرادسمیت 36 افرادجاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

لاہور(اپنے نامہ نگار سے)وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ پنجاب کا کوئی شہر اب ترقی کے ثمرات سے محروم نہیں رہے گا۔ پنجاب بھر کے 189 شہروں کو لاہور کی طرز پر خوبصورت اور ترقی یافتہ بنائیں گے۔

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ترقی کے اہل افسر کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پروموشن دی جا سکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے سابق ایڈیشنل آئی جی غلام قادر تھیبو کو گریڈ 22 میں ترقی نہ ملنے کیخلاف کیس میں سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور کہا ترقی کیلئے ہر سرکاری ملازم کو زیر غور لایا جانا بنیادی حق ہے۔۔۔

لاہور(نیوز ایجنسیاں)وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ جیل میں سہولیات کا شور مچانے والے درحقیقت غیرمعمولی آسائشوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، جہاں ان کے لیے علیحدہ باورچی، اپنا مخصوص مینو اور روزانہ کی ورزش جیسی سہولیات میسر ہیں۔

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پنجاب میں بارش کے دوران جانی و مالی نقصان پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب بھر کے بارش متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑے گی اورمتاثرین کو ان کا حق دلوائیں گے۔

لاہور(سپیشل رپورٹر)گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا کہ موجودہ حکومت صدر آصف علی زرداری کے سیاسی ویژن کی وجہ سے چل رہی ہے۔ بلاول بھٹو کی بدولت پاکستان کو سفارتی کامیابی حاصل ہوئی۔ اپنے ورکرز کا دفاع نہ کرسکا تو گورنر شپ چھوڑ دوں گا۔

متفرقات

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی پاکستان کا نیونارمل

موسمیاتی تبدیلی عہدِ حاضر کی ایک اٹل حقیقت، جسے نیو نارمل کہا جاسکتا ہے۔ بڑھتا ہوا درجہ حرارت، موسمیاتی تغیرات اور قدرتی آفات میں اضافے کے ذریعے زمین کا ماحول تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ اگرچہ موسمیاتی بحران عالمی ہے مگر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک پر اس کے اثرات شدید تر ہیں، حالانکہ پاکستان کا عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ان تبدیلیوں میں قدرتی عوامل کا بھی عمل دخل ہے لیکن 1800ء کے بعد سے انسانی سرگرمیاںخصوصاً کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز کا بڑھتا ہوا استعمال اس کی بنیادی وجہ سمجھی جاتی ہے۔ ان سرگرمیوں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں زمین کی فضا میں حرارت کو جذب کرتی ہیں جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے۔موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں، اور پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو اس کے اثرات سے شدید متاثر ہو رہے ہیں۔تازہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تغیرات کا سب سے زیادہ شکار ہونے والے 10 ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ عالمی ماحولیاتی خطرات کی رپورٹ (Global Climate Risk Index ) کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں موسمیاتی آفات کے باعث 10 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کر چکا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کا کاربن اخراج عالمی سطح پر ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اس کے باوجود موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات یہاں شدت سے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق گزشتہ 50 برسوں میں ملک کا اوسط درجہ حرارت تقریباً 1.1 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ چکا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 2050ء تک یہ اضافہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں گلیشیئر پگھلنے، پانی کی کمی اور شدید گرمی کی لہروں میں اضافہ ہوگا۔2022ء کے تباہ کن سیلاب اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث کن بحرانوں کا سامنا ہے۔ ان سیلابوں نے ملک کے تین کروڑ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، 1700 سے زائد اموات ہوئیں اور معیشت کو تقریباً 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ ورلڈ بینک کے مطابق ان آفات کی وجہ سے پاکستان کی جی ڈی پی میں 2 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ پاکستان میں زراعت جو کہ جی ڈی پی کا 20 فیصد اور افرادی قوت کا 40 فیصد حصہ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔ خشک سالی اور بے وقت بارشوں نے گندم، کپاس، اور چاول کی پیداوار میں نمایاں کمی کی ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر اقدامات نہ کیے گئے تو 2040ء تک پاکستان کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مزید برآں، شہری علاقوں میں شدید گرمی کی لہروں اور فضائی آلودگی نے صحت کے مسائل بڑھا دیے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 28 ہزاراموات آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے سبب ہوتی ہیں، جن میں ایک بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔ حکومت نے نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی 2021ء کے تحت اقدامات شروع کیے تھے لیکن ماہرین کے مطابق ان پر عملدرآمد کی رفتار ناکافی ہے۔اگر پاکستان نے فوری طور پر موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا ادراک نہ کیا تو آنے والے برسوں میں معاشی، زرعی اور ماحولیاتی نظام ناقابلِ تلافی نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پائیدار ترقی، متبادل توانائی، اور بین الاقوامی ماحولیاتی فنڈز کے استعمال پر توجہ دی جائے تاکہ مستقبل کی نسلوں کو ایک محفوظ ماحول فراہم کیا جا سکے۔دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سطح سمندر میں اضافہ، ماحولیاتی نظام کی تباہی، خوراک اور پانی کی قلت، معاشی نقصان (زراعت، ماہی گیری، صحت، سیاحت) جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے شمالی پہاڑوں میںگلیشیئرز دریاؤں کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث یہ گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے پانی کی قلت اور گلیشیئر جھیلوں کے پھٹنے جیسے خطرناک واقعات جنم لے رہے ہیں۔ پاکستان میں مون سون بارشوں کی شدت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے،جبکہ سال کے کئی ماہ سندھ اور بلوچستان کے کئی علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں جس سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں اور خوراک کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ جیکب آباد اور تربت جیسے شہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت ریکارڈ کر چکے ہیں اورگرمی کی لہر جان لیوا بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر غریب طبقات کے لیے۔دوسری جانب کراچی اور ٹھٹھہ جیسے ساحلی علاقے سمندر کی سطح بلند ہونے اور زمینی کٹاؤ کا سامنا کر رہے ہیں جس سے زراعتی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیںپاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ آنے والے خطرات کو کم کیا جا سکے اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جا سکے۔ اس کے لیے جنگلات کا تحفظ اور درختوں کی کٹائی کی روک تھام کیلئے سخت قوانین، شہری علاقوں میں اربن فارسٹ ، نئے ڈیموں اور آبی ذخائر کی تعمیر،زرعی شعبے میں پانی کے ضیاع کو روکنا، ڈرپ ایری گیشن سسٹم کا فروغ، زراعت میں ٹیکنالوجی کا فروغ، کسانوں کو موسموں سے متعلق پیشگی خبروں کی فراہمی، فوسل فیولز (کوئلہ، گیس) پر انحصار کم کرنا، شہروں میں گرین سپیسز (پارکس) کا اضافہ، نکاسی آب کا بہتر نظام تاکہ بارشوں سے سیلاب نہ ہو، NDMA اور دیگر امدادی اداروں کی صلاحیت میں اضافہ، ریسرچ اداروں کی مالی امداد تاکہ وہ موسمیاتی ڈیٹا اکٹھا کریں اور حل تجویز کریں اور کاربن اخراج کے لیے ریگولیشن سسٹم بنانا ضروری ہے۔ 

زمین کی تہہ میں چھپے راز

زمین کی تہہ میں چھپے راز

دنیا میں آتش فشانی دھماکے قدرت کا ایک ایسا مظہر ہیں جنہوں نے صدیوں سے انسانی تہذیب اور ماحول پر ناقابل یقین اثرات مرتب کیے ہیں۔ زمین کی سطح سے ہزاروں کلومیٹر نیچے گرم چٹانوں کی ایک ٹھوس تہہ ہے جسے زیریں مینٹل کہا جاتا ہے۔ نصابی کتابوں کے خاکوں میں لوئر مینٹل کو ہموار اور یک رنگ بتایا جاتا ہے، حقیقت میں وہاں دو بہت بڑے بلاکس ہیںجن کا رقبہ شاید پورے براعظم کے برابر ہے ۔مذکورہ تحقیق کی رہنما، آسڑیلیا کی Wollongong یونیورسٹی سے وابستہ وولکینوجسٹ اینالیسی ککیرو(Annalise Cucchiaro) اور ان کے ساتھی محقق نکولس فلیمنٹ(Nicholas Flament) کے مطابق یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے کہ یہ بلاکس ایک مقررہ مقام پر ہیں یا مستقل حرکت میں، تاہم جدید ڈیٹا ماڈلنگ سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ یہ حرکت پذیر ہوسکتے ہیں اور ان سے سطح زمین پر مینٹل اخراج(Mantle plumes) کا امکان ہو سکتا ہے، جو آتش فشاں کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور سطح زمین پر طاقتور دھماکو ں کا سبب بن سکتاہے۔زمین کے اندر سے تقریباً تین ہزار کلومیٹر کی گہرائی سے اُٹھنے والے Mantle plumes کے سطح پر پہنچ کر آتش فشانی صورتحال پیدا ہونے کے واقعات ماضی میں بھیانک واقعات کا واقعات سبب بنے تھے ، جیسا کہ ڈائنوسار کا خاتمہ۔ ککیرو کے ماڈلز بتاتے ہیں کہ یہ بلاکس ہی وہ مقام ہیں جہاں سے میگما کی لہر ابھرتی ہے ۔مذکورہ تحقیق میں آتش فشانوں کے ارتقاکا مطالعہ کیا گیا اور معلوم ہوا کہ تقریباً 30 کروڑ سال پہلے ہونے والے عظیم اخراج کے مقامات ان بلاکس اور ان سے اٹھنے والے میگمائی پلیومز سے اچھی طرح میل کھاتے ہیں ۔ ماڈلز کے مطابق کہیں پر ان دھماکوں نے بلاک کے ٹھیک اوپر سے میگما نکالا اور کہیں سے افقی لہر نکلی۔ مستقبل کے لیے تحقیق کی سمت اب مرکزی سوال یہ ہے کہ آیا یہ BLOBS حقیقت میں حرکت پذیر ہیں یا ایک جگہ ٹھہرے رہتے ہیں؟ اگر یہ حرکت کرتے ہیں توحرات کے عملِ اتصال اور زمین کی پرتوں میں تبدیلی ان پر کیا اثرات مرتب کر رہی ہے؟ مستقبل میں ان سوالات کا جواب دینے کے لیے Tomographic ڈیٹا اور جدید ماڈلنگ پر انحصار کیا جائے گا۔ آتش فشانی تباہی کے واقعاتبڑے آتش فشانی دھماکے نہ صرف سطح زمین اور ماحول کو متاثر کرتے ہیں بلکہ عالمی آب و ہوا پر بھی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایک خوفناک مثال 25 کروڑ سال پہلے کی Permian-Triassic extinction ہے جس میں ممکنہ طور پر سیاہ لاوے نے عالمی موسمیاتی تبدیلیاں، ماحول کا تباہی اور زندگی کے بڑے پیمانے پر خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ حالیہ مطالعے نے ان واقعات کا تعلق بھی گہرے میگمائی ڈھانچوں سے جوڑ کر نیا زاویہ دیا ہے اوریہ تحقیق volcanologists اور geophysicists کی دلچسپی کا باعث بنی ہے جنہوں نے اسے زمین کی ساخت اور میگماکے ارتقاکے نئے باب کے طور پر دیکھا ہے۔ انہوں نے مذکورہ بلاکس کو ''زمین کے اندر چھپے قدرتی بیک اَپ پلان‘‘ سے تعبیر کیا ہے ۔یہ تحقیق نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ اجرام فلکی یا موسمی عوامل کی طرح زمین کے اندرونی اجزاآتش فشانی عمل کو کنٹرول کرتے ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ان عوامل کی تحقیق اور تجزیہ عالمی خطرات اور قیمتی ذخائر کے حوالے سے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ اگلے چند برسوں میں اگر ہم نے زمین کی اندرونی ساخت کو بہتر طور پر سمجھ لیا تو شاید ہمیں مستقبل میں بڑے آتش فشانی واقعات سے بروقت خبردار ہونے اور زلزلوں کی شدت کو کم کرنے کے امکانات کا نسبتاً بہتر ادراک ہو سکے۔اس دریافت کا اطلاق محض آتش فشانی پیشین گوئی پر ہی نہیں بلکہ صنعتی و اقتصادی شعبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے، جیسا کہ ہیرے اور قیمتی معدنیات kimberlite کی تلاش میں، جو میگما کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں ۔ علاوہ ازیں میگما کے حرارت کے ذخائر سے گرین انرجی کے لیے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ کا پہلا ایٹمی تجربہ 1945ء میں آج کے روز امریکہ نے نیومیکسیکو میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔اس پروجیکٹ کا نام'' ٹرینٹی‘‘ رکھا گیا تھا جبکہ اس ایٹمی دھما کے میں استعمال ہونے والے مواد کی طاقت 19 ٹن تھی۔ یہ دوسری عالمی جنگ کا دور تھا جب دنیا کا ہر طاقتور ملک دوسرے ملک پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا تھا۔ اسی سلسلے میں ایٹم بم بنانے کی دوڑ بھی جاری تھی جس میں امریکہ اور جرمنی پیش پیش تھے، اس تجربے سے امریکہ ایٹمی قوت بننے میں باقی دنیا پر سبقت لے گیا۔اپالو 11 کی روانگی16 جولائی 1969ء کو ناسا کا مشن اپالو 11 چاند کے مشن پر روانہ ہوا۔ اسے فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے لانچ کیا گیا تھا۔ اپالو 11 وہی خلائی پرواز تھی جس نے پہلی بار انسانوں کو چاند پر اتارا تھا۔ کمانڈر نیل آرمسٹرانگ اور خلائی جہاز کے پائلٹ بز ایلڈرن نے 20 جولائی 1969ء کو خلائی جہاز کو چاند پر لینڈ کیا اور آرمسٹرانگ چاند کی سطح پر قدم رکھنے والے پہلے شخص بن گئے۔ 19 منٹ بعد ایلڈرن بھی آرمسٹرانگ کے ساتھ شامل ہوگیا۔ دونوں نے تقریباً ڈھائی گھنٹے اکٹھے اس جگہ کی کھوج میں گزارے جس کا نام انہوں نے لینڈنگ کے وقتTranquility Base رکھا تھا۔مونٹ بلانک ٹنل16 جولائی 1965ء کو فرانس اور اٹلی کو آپس میں ملانے والی مونٹ بلانک ٹنل کو عام لوگوں کیلئے کھولا گیا۔ مونٹ بلانک ٹنل فرانس اور اٹلی کے درمیان مونٹ بلانک پہاڑ کے نیچے ایک ہائی وے سرنگ ہے جو کہ ٹرانس الپائن نقل و حمل کے راستوں میں سے ایک ہے۔ خاص طور پر اٹلی کیلئے جوشمالی یورپ تک اپنے ایک تہائی مال برداری کیلئے اس سرنگ پر انحصار کرتا ہے۔ یہ فرانس سے ٹورن تک کے راستے کو 50 کلومیٹر اور میلان تک 100 کلومیٹر تک کم کر دیتا ہے۔ایمیزون کی شروعات1995 میں آج کے روز جیف بیزوس نے اسے ایک آن لائن کتابوں کی دکان کے طور پر شروع کیا۔ ایمیزون ڈاٹ کام پر فروخت ہونے والی پہلی کتاب ڈگلس ہوف اسٹڈٹر کی Fluid Concepts and Creative Analogies: Computer Models of the Fundamental Mechanisms of Thought تھی۔کاروبار کے پہلے دو مہینوں میں ایمیزون کی فروخت بیس ہزار ڈالر فی ہفتہ تک پہنچ گئی۔ 

ستاروں کی زبان سمجھنے والے

ستاروں کی زبان سمجھنے والے

آپ 3500 سال پہلے کا تصور ذہن میں لائیں ، یہ میسوپوٹیمیا ہے، موجودہ عراق۔رات کے سناٹے میں دریائے فرات کے کنارے ایک بلند و بالا عمارت کی چھت پر کھڑا ایک نوجوان عالم آسمان کی وسعتوں میں گم ہے۔ اس کے سامنے مٹی کی ایک تختی ہے جس پر وہ کسی پیچیدہ گراف کی لکیریں کھینچ رہا ہے۔ وہ مشتری کی حرکت کو دیکھ رہا ہے، چاند کے زاویوں کو نوٹ کر رہا ہے اور زہرہ کے چمکنے بجھنے کے پیچھے راز تلاش کر رہا ہے۔آسمان پر جھلملاتے ستارے قدیم بابلی (Babylonian) فلکیات دانوں کے لیے رازوں بھری کتاب تھے جسے وہ پڑھنا جانتے تھے مگر شاید انہیں اس بات کا علم نہیں ہو گا کہ وہ جو ریکارڈ کر ر ہے تھے وہ ہزاروں سال بعد بھی انسانوں کو حیران کر ے گا اور سائنسدان اس تکنیک کو Calculus کا بنیادی پتھر قرار دیں گے۔ جی ہاں! بابلی فلکیات دان دوربینوں، سیٹلائٹس اور کمپیوٹرز کے بغیر بھی ستاروں کے اسرار جاننے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اور یہی ان کے علم کی حیرت انگیز کہانی ہے۔ ستاروں کی زبان سمجھنے والےبابلی تہذیب کے فلکیات دانوں کے لیے آسمان فقط قدرتی مظہر نہیں تھا بلکہ ایک زندہ کتاب تھی۔ وہ چاند کی گردش، سورج کی چمک اور زُہرہ کے چکر کو دیوی دیوتاؤں کے اشارے مانتے تھے، لیکن ان کے مشاہدے اور حساب کا سائنسی پہلو اتنا جاندار تھا کہ جدید سائنس بھی آج ان کا اعتراف کرتی ہے۔انہوں نے Enuma Anu Enlil جیسے فلکیاتی جدول تخلیق کئے جن میں گرہنوں کی پیشگوئی سے لے کر زُہرہ کی روشنی کے دورانیے تک کی تفصیلات موجود تھیں۔قدیم کیلکولس، ایک حیرت انگیز کہانیآپ کو حیرت ہو گی کہ بابلی ماہرین نے مشتری (Jupiter) کی حرکت کو جانچنے کے لیے جو طریقہ استعمال کیا وہ آج کے Integral calculus کا پیش خیمہ ہے۔انہوں نے ایک trapezoid (چوکور نما شکل) کی مدد سے مشتری کے مدار کا رقبہ نکالا اور اس سے یہ معلوم کیا کہ وہ کتنی دور جا چکا ہے۔ یہ کام آج سے تقریباً 1400 سال قبل ہوا جب دنیا میں کیلکولس کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔بابلیوں کی ایک اور حیرت انگیز دریافتPlimpton 322ہے، جو مٹی کی بنی ہوئی ایک تختی ہے مگر اپنے اندر پورا ریاضیاتی جہان سموئے ہوئے ہے۔ اس پر ایسے جدول نقش ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ بابلی مثلث کے زاویوں اور اضلاع کے تناسب کو گہرائی سے سمجھتے تھے۔کچھ ماہرین کے مطابق یہ دنیا کا سب سے پہلا ٹرگنومیٹری ٹیبل ہے جو بعد میں فلکی نقشوں ،نہری نظام اور تعمیرات میں مددگار ثابت ہوا۔ وقت اور زاویوں کا انوکھا نظامبابلیوں نے زاویے کو 360 درجے میں تقسیم کیا۔ ہر ڈگری 60 منٹ پر مشتمل تھی اور ہر منٹ 60 سیکنڈ پر۔ یہ وہ نظام ہے جو آج بھی دنیا بھر میں وقت اور زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال ہوتا ہے۔بابلی فلکیات دانوں نے Saros cycle دریافت کیا جو یہ بتاتا ہے کہ ہر 18 سال 11 دن بعد سورج یا چاند گرہن دوبارہ اسی انداز میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔بابلیوں نے ستاروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور ان کی بنیاد پر 12 برج بنائے۔ یہ وہی برج ہیں جو آج بھی علم نجوم (Horoscopes) اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں۔ بابلیوں کے لکھے ہوئے ستاروں کے نقشے بعد میں یونان، مصر اور اسلامی دنیا تک پہنچے اور صدیوں تک سائنس کی بنیاد بنے رہے۔بابلی نوشتیں صرف فلکی حرکات تک محدود نہیں تھیں ان میں موسمی پیشگوئیاں، اجناس کے نرخ حتیٰ کہ بادشاہوں کے لیے پیش گوئیاں بھی درج تھیں۔آج کی دنیا میں بابلی ورثہاگر آپ آج اپنے سمارٹ فون پر چاند گرہن کا وقت دیکھتے ہیں یا GPS سے سمت معلوم کرتے ہیں تو یاد رکھیں کہ اس علم کی بنیاد اُن بابلی ماہرین نے رکھی تھی۔ اُن کے بغیر شاید نہ یونانی دانشمند بطلیموس (Ptolemy) اپنا ماڈل بنا پاتا اور نہ اسلامی ماہرینِ فلکیات اپنے دقیق جدول تیار کرسکتے۔ماضی کا علم، مستقبل کی روشنیقدیم بابلیوں نے ستاروں سے روشنی لی اور اسے علم کا چراغ بنا کر آنے والے زمانوں تک پہنچایا۔بابلی فلکیات دان صرف آسمان کے ناظر نہیں تھے وہ اس کے رازوں کے محافظ بھی تھے۔ آج خلا میں گردش کرتے سیٹلائٹس اور دوربینیں ان کے خوابوں کی جدید شکل ہیں۔وہ مٹی کی تختیوں پر جو علم لکھتے تھے وہ دراصل خلا کے ان دروازوں کی چابیاں تھیں جو انسان نے ہزاروں سال بعد کھولے۔ بابلی علم کے 5 انمول موتی٭ زاویوں کو 360 درجوں میں تقسیم کیا٭ چاند گرہن کےSaros cycle کی پیشگوئی٭ دنیا کا پہلا ٹرگنو میٹری ٹیبل بنایا٭ برجوں کی بنیاد ٭ گرافیکل حرکت کا تصور (Calculus کی ابتدائی شکل)  

حکومت کیلئے بڑی سفارتی کامیابیوں کا ہفتہ

حکومت کیلئے بڑی سفارتی کامیابیوں کا ہفتہ

رواں ہفتہ پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کا ہفتہ ہے۔ معرکۂ حق کے بعد پاکستان کو دنیا بھر میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔

پی ٹی آئی کا اندرونی بحران لیڈر شپ پریشان احتجاجی تحریک کا کیا بنے گا؟

پی ٹی آئی کا اندرونی بحران لیڈر شپ پریشان احتجاجی تحریک کا کیا بنے گا؟

پی ٹی آئی میں اندرونی بحران طوفان کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کاذکر خودبانی پی ٹی آئی نے بھی یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ ہم جیلوں میں بند سختیاں برداشت کر رہے ہیں اور آپ اختلافات پیدا کر رہے ہیں۔

چینی کے بعد روٹی بھی مہنگی

چینی کے بعد روٹی بھی مہنگی

ملک بھر کی طرح سندھ کے مختلف شہروں میں بھی بارشیں ہورہی ہیں لیکن حیدرآباد میں پیر کو آدھا گھنٹے ہونے والی شدید بارش نے تقریباً پورے شہر کو ڈبو دیا۔

خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن پی ٹی آئی کیا سوچ رہی ہے ؟

خیبرپختونخوا میں سینیٹ الیکشن پی ٹی آئی کیا سوچ رہی ہے ؟

پاکستان تحریک انصاف بظاہر ایک بار پھر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں اس جماعت کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی لیکن مخصوص نشستیں مسلم لیگ(ن) ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کو دئیے جانے کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا۔

سنڈے میگزین

دنیا بلاگز